اگر ہم غور کریں تو وقت بہت برق رفتار ہوتا ہے ۔ ابھی کل کی ہی بات محسوس ہوتی ہے، جب عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی ،دیکھتے ہی دیکھتے تین برس گزر گئے۔بالکل اسی طرح اگلے تین برس بھی پر لگا کراُڑ جائیںگے اور اگلے عام انتخابات سامنے کھڑے ہونگے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے شاید اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے عام انتخابات بھی شاندار کارکردگی پر جیت لیں گے ۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی حالت کو دیکھتے ہوئے کسی افہام و تفہیم کے تحت اگلے عام انتخابات کا انعقاد نظر نہیں آ رہا ہے اور اس لیے انتخابات میں کامیابی کو انتخاب ہارنے والی جماعت کبھی تسلیم نہیں کرئیگی ۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ انتخاب اتنے واضح انداز میں جیتا جائے کہ چاہے مخالفين کچھ بھی پروپیگنڈا کرتے رہیں مگر غیر جانبدار نظر میںانتخابی کامیابی پر کوئی انگلی نہ اٹھائی جا سکے ۔ ایسا کیسے ممکن ہے ؟ یہ سوال اگلے سیاسی استحکام کیلئے بھی کلیدی اہمیت رکھتاہے ۔ سیاسی جماعت اپنی مؤثر موجودگی سے ہی اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ اسکی کامیابی ہر شک و شبہ سے بالا تر ہو۔مسلم لیگ ن نے ماضی میں ہر صوبے میں اپنی موجودگی کا احساس دلايا تھا اور اب بھی اسی کیفیت کو حاصل کرنا سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس حوالے سے توجہ کم ہے کہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں اپنی موجودگی کے احساس کو پختہ کیا جائے۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کراچی تک سے نشستیں حاصل کرتی رہی اور اسی سبب سے جب جنرل مشرف نے 1999ء میں آئین کو پامال کیا تو جو لوگ آئین کی اس بے حرمتی پر متحرک نظر آئے ان میں کراچی کے لوگ سر فہرست تھے ۔ ممنون حسین ، مشاہد اللہ خان ، نہال ہاشمی ، خواجہ طارق نذیر ، سلیم ضیاء ، منور رضا وغیرہ ۔ یہ افراد مشرف کی آمریت کے زمانے میں ہر قسم کی تکاليف برداشت کرتے رہے ، میں مسلم لیگ ن کے خارجہ امور کے شعبہ کا، جس کو پہلی بار مسلم لیگ میں قائم کیا گیا تھا ،مرکزی کوآرڈینیٹر تھا اور پارٹی میں کوئی دوسرا سرے سے موجود نہیں تھا جو اس شعبے میں کام کر رہا ہو ، اسلام آباد کے بعد لاہور اور کراچی میں ہی سفارتی مشن موجود ہیں تو اس سبب سے میرا ان شہروں میں بھی جانا ہوتا تھا اور مؤخر الذکر افراد سے کراچی میں ضرور ملاقات ہوتی تھی۔ کیوں کہ یہ مسلم لیگ ن کا چہرہ تھے اور اگر مسلم لیگ ن یہ چاہتی ہے کہ اسکی کراچی میں موجودگی کا احساس قائم ہو سکے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ انہی لوگوں پر اعتبار کیا جائے جو مشرف دور میں اپنا اعتبار قائم کر چکے ہیں ورنہ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ ایک صاحب کہ جن کا کوئی تعلق مسلم لیگ ن سے نہیں تھا کو دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں کی موجودگی میں گورنر سندھ تک کے منصب پر فائز کر دیا گیا مگر جیسے ہی ان کو یہ محسوس ہوا کہ اب مسلم لیگ ن میں ان کیلئے جگہ نہیں ہے تو وہ آج کل مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کے سب سے بڑے نقاد بنے ہوئے ہیں ۔ اب دوبارہ سے گورنر سندھ کی تبدیلی کی خبریں گردش کر رہی ہے اور اگر یہ سچ ہے تو مسلم لیگ ن کو اپنی پوزیشن کراچی اور سندھ میں بہتر کرنے کا ایک موقع دستیاب ہو رہا ہے۔ ماضی کے ان افراد میں سے بعض تو دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں مگر جو موجود ہیں اگر ان میں سے کسی کو اس منصب پر تعینات کر دیا جائے تو وہاں کے کارکنان میں ایک حوصلے کی کیفیت پیدا ہوگی اور اس بات کی بھی ضمانت ہوگی کہ جب یہ اس منصب سے علیحدہ ہونگے تو قیادت کے خلاف اپنی زبان کے جوہر نہیں دکھائیں گے جیسا کہ ماضی میں ہوا ۔ اسی طرح خیبر پختونخوااور بلوچستان میں بھی ان لوگوں کو از سر نو متحرک کرنے کی ضرورت ہے جو ہر سردگرم میں پارٹی کے ساتھ منسلک رہے حالانکہ انکے پاس دوسری طرف سے آفرز بھی موجود تھیں ۔ مسلم لیگ ن کی مخالف سیاسی جماعت کی ساری سیاست ہی سوشل میڈیا کے گرد گھومتی ہے مگر ایک حقیقی معنوں میں سیاسی جماعت ہونے کے باعث مسلم لیگ ن کا نہ تو یہ طریقہ کار ماضی میں رہا ہے اور نہ ہی مستقبل میں کامیاب رہے گا ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنان پھر سپورٹر اور پھر ووٹر ہوتے ہیں اور جماعت کو اپنےانہی لوگوں کو اپنے ساتھ منسلک رکھنا ہوتا ہے مگر سوشل میڈیا کے چلن کی وجہ سے یہ نظام تتر بتر ہو رہا ہے اور اس کا نقصان مسلم لیگ ن کو پہنچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب محترمہ مريم نواز صاحبہ نیب پیشی پر آتی تھیں تو مسلم لیگ ن کے کارکنان جہانزیب اعوان ، ملک عمران ، حافظ عبادالرحيم تشدد کا سامنا کرتے رہے ان میں سے کچھ کے تو سر تک پھٹ گئے مگر سوشل میڈیا کی وجہ سے محسوس یہ ہوا کہ بس چند یوٹیوبرز نے ساری تکلیف برداشت کی جو موقع پر موجود بھی نہیں تھے ۔ اس میں کسی شک کی گنجائش موجود نہیں کہ مسلم لیگ ن کو زمین پر بہت حمایت حاصل ہے مگر یہ بہت ضروری ہے کہ اس حمایت کو متحرک کرنے کیلئے حقیقی کارکنان کو متحرک کیا جائے اور جس بھی قدم سے انکا حوصلہ بڑھایا جا سکتا ہے بڑھایا جائے تا کہ اگلے انتخابات میں کوئی فارم 47جیسا لغو پروپیگنڈا کرنے کے قابل ہی نہ ہو ۔