• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارلیمنٹ کی منظوری اور صدر ممنون حسین کے دستخطوں کے بعد تحفظ پاکستان ایکٹ 2014 نافذ العمل ہوگیا ہے اور اب پولیس و دیگر سیکورٹی ادارے کسی بھی شہری کو پرتشدد سرگرمیوں، جلائو گھیرائو اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کامرتکب قرار دے کر وارنٹ کے بغیر گرفتار، ساٹھ دن تک زیر حراست رکھنے اور مشکوک جان کر گولی مارنے کا اختیار و استحقاق رکھتے ہیں۔
پولیس اوررینجرز کو گولی مارنے کا استحقاق پہلے بھی تھا، قانونی اختیاراب دیدیا گیا ہے۔ کراچی میں سرفراز شاہ اور ٹیکسی ڈرائیور منور کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارنے اور ماڈل ٹائون لاہور میں شازیہ اور تنزیلہ سمیت پچاس ساٹھ بے گناہوں کو سیدھی گولیوں کا نشانہ بنانے والے اہلکاروں کاموقف یہی تھا اور ہے کہ قانون کی نظر میں مشکوک و مشتبہ تھے اورجلائو گھیرائو ،پتھرائو کے مرتکب۔
1965 کی جنگ کے دوران فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ڈیفنس رولز آف پاکستان آرڈی ننس نافذ کیا تحفظ پاکستان ایکٹ جس کی بھدی نقل ہے۔ مقصد ملک دشمنوں ،ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں اور غیر ملکی آلہ کاروں سے نمٹنا تھا مگر اس کی زد میں لاہور کے ایک معروف نیک نام گھرانے کے فرد میاں منظر شبیر آئے جن کے گھرمحترمہ فاطمہ جناح ٹھہرا کرتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا عبدالستار خان نیازی اور دیگر سیاستدانوں نے اس کا مزہ چکھا جبکہ بھٹو صاحب کے دور میں ای ڈی پی آر کے تحت نوابزادہ نصر اللہ خان، خان عبدالولی خان، ائیرمارشل اصغر خان، عطاء اللہ مینگل، جاوید ہاشمی نظر بند ہوئے۔ کسی ملک دشمن، تخریب کار اور بھارتی آلہ کار کو گرفتار کیا گیا ہو کوئی نہیں جانتا۔
میاں نواز شریف کو 1997 میں منظور ہونے والے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزائیں سنائی گئیں۔ خدا بھلا کرے ایک نیک نام سیشن جج کا جو دبائو میں نہ آئے ورنہ استغاثہ کی خواہش اس ایکٹ کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا دلانے کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن کی قیادت خصوصی کالے قوانین اور پولیس و انتظامیہ کے ماورائے قانون، انتقامی سلوک کا نشانہ بنی مگر تحفظ پاکستان ایکٹ کی منظوری سے ہرگز نہیں لگتا کہ ان میں سے کسی کو کچھ یاد ہے یا وہ ایسے قوانین کے پولیس و انتظامیہ کے ہاتھوں غلط استعمال کا کامل ادراک رکھتی ہے جبکہ تحریک انصاف نے بھی رائے شماری میں حصہ نہ لے کر عملاً منظوری کی راہ ہموارکی ہے۔
ملک کی مخصوص صورتحال میں دہشت گردوں ، تخریب کاروں اور غیر ملکی ایجنٹوں سے نمٹنا ریاست، معاشرے اور حکومت کے لئے چیلنج ہے۔ فوج کو بجا طور پر شکایت رہی ہے کہ پیچیدہ قانونی و عدالتی نظام اور فرسودہ تفتیشی طریقہ کار کی وجہ سے دہشت گرد کیفر کردار کو نہیں پہنچتے، مگر یہ شکایت قانون سے نہ تھی پولیس ،انتظامیہ اور کسی نہ کسی حد تک عدلیہ سے تھی کہ پولیس بروقت اور مضبوط چالان پیش نہیں کرتی، جج خوف کے باعث مقدمات لٹکاتے ہیں فی الفور فیصلے نہیں کرتے اگر کسی کو سزا ہوجائے تو حکومت عملدرآمد نہیں کرتی اسی باعث سینکڑوں سزا یافتہ مجرم جیلوں میں بیٹھے ریاست فوج ،عدلیہ اورقانون کامذاق اڑارہے ہیں۔
ہمارے ہاں قانون کے غلط استعمال کا رواج عام ہے ،ماڈل ٹائون میں پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے سیاسی و مذہبی کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر کا اندراج حکومت اور ریاستی اداروں کے عمومی رجحان کی نشاندہی کرتا ہے اور خدشہ یہ ہے کہ مستقبل میں پرتشدد کارروائیوں، جلائو گھیرائو اور پتھرائو کی شقیں احتجاجی تحریکوں میںشامل سیاسی کارکن اپنے حقوق اور مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے والے ڈاکٹروں، انجینئروں، صحافیوں، صنعتی کارکنوں، تاجروں اور لوڈ شیڈنگ ،پانی کی قلت، گیس کی بندش اور پولیس گردی کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والے مرد و خواتین کے خلاف استعمال ہوں گی۔
دہشت گرد توجلائو گھیرائو اور پتھرائو نہیں کرتے، وہ نکلتے بھی بارودی جیکٹ پہن کر ہیں اور گریڈ پندرہ کے کسی پولیس اہلکار کو گولی مارنے کا موقع بھی کم ہی فراہم کرتے ہیں شریف شہری آسان ہدف ہیں۔
ویسے یہ گریڈ پندرہ کی شرط بھی عجیب ہے پولیس انسپکٹر گریڈ سولہ کا نان گزٹیڈ افسر ہوتا ہے۔ اس سے نیچے سب انسپکٹر ، اے ایس آئی اور کانسٹیبل جو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اور ایک دوسرے کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ،قتل، اغواء بھتہ خوری اور منشیات فروشی میں ملوث پیٹی بھائیوں کا تحفظ بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے خلاف گواہی نہیں دیتے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی پولیس اہلکار اشتعال، لین دین کے تنازعے ،رقابت، ذاتی رنجش یا کسی طاقتور جرائم پیشہ سے پیشگی لے کر شریف آدمی کو گولی ماردے، سیاسی آقا کو خوش کرنے کے لئے اس کے مخالف کو پار کردے تو اسے اپنے باس سے اجازت نامہ حاصل کرنے میں دقت ہوگی۔ مقتول تو قبر سے نکل کر یہ بتانے سے رہا کہ اس کو کسی نے وارننگ دی تھی یا رکنے کااشارہ کیا تھا یا نہیں۔
کوئی مانے نہ مانے اس ایکٹ نے پاکستان کو پولیس سٹیٹ میں بدل دیا ہے، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے مزے ہیں وہ کسی بھی مالدار آسامی کو پرتشدد کارروائیوں میں ملوث بتا کر اچھا خاصہ مال پانی بناسکتے ہیں کیونکہ کون ساٹھ دن تک زیر حراست رہنا اور ذہنی و جسمانی اذیت کے علاوہ معاشرے کے طعنے سہنا پسند کرتا ہے جبکہ اسے گولی لگنے کا خوف بھی ہو۔ حکومت کی نیت پر شک نہ کیا جائے، قانون سازوں کے ارادے بھی نیک ہوں گے مگر یہ قوم دودھ کی جلی ہے چھاچھ پھونک پھونک کر نہ پی تو اندیشہ یہ ہے کہ کالا قانون عمران خان کے لانگ مارچ، ڈاکٹر طاہر القادری کی احتجاجی تحریک اور آئے روز کبھی ڈاکٹروں، کبھی نرسوں اور اساتذہ اور کبھی فیکٹری ملازمین کے مظاہروں کی روک تھام کے لئے استعمال ہوگا اور آج اس ایکٹ کی منظوری پر خوشی سے پھولے نہ سمانے والے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
مارچ 1919 میں بدنام زمانہ رولیٹ ایکٹ منظور ہوا تو قائد اعظم نے ایک شخص کی بلا جوازنظری کو موت کے مترادف قرار دے کر امپریل لیجسلٹو کونسل سے استعفیٰ دیدیا۔ ان سے یہ بیان منسوب ہے کہ’’میں اس ایکٹ کی منظوری دینے کے مقابلے میں کتے کی موت مرنا پسند کروں گا‘‘ مگر آج قائد اعظم ثانی اور مسلم لیگ کے دور حکمرانی میں یہ کالا قانون منظور ہوا ہے تو کسی کو شخصی آزادی، حق احتجاج اور آئین کی دفعات 8، 10، 14 کے منافی اس ایکٹ کے تحت انفرادی حقوق کی پامالی کا دکھ نہیں لیکن خدا نہ کرے کہ کل کلاں کو قانون منظور کرنے والے منتخب عوامی نمائندوں اور حکمرانوں میں سے کوئی اس کا نشانہ بنے اور اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کا ورد کرتا نظر آئے۔ دن بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
تازہ ترین