• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی جریدے فارن پالیسی کی تازہ رپورٹ میری نظر سے گزری ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان نے غیر معمولی سفارتکاری کی بدولت واشنگٹن میں سب سے مضبوط اورنمایاں پوزیشن حاصل کرلی ہے، امریکی جریدے کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ تاریخی سطح کے خوشگوار تعلقات استوار ہوگئے ہیں، ٹرمپ انتظامیہ کے کئی عالمی نوعیت کے غیر متوقع فیصلے سامنے آئے مگر پاکستان کی طرف واضح جھکاؤ سب سے نمایاں ہے، فارن پالیسی کے مطابق اسلام آباد کی کامیاب سفارت کاری نے پاک امریکہ تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے، صدر ٹرمپ نےخطے میں امن و استحکام کےقیام کیلئےپاکستان کو اپنی مشرق وسطیٰ حکمت عملی کا کلیدی ستون قرار دیا، صدر ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستان کی مؤثر سفارتکاری کا متعدد مرتبہ تذکرہ کیا اور جنگ بندی میں پاکستان کا کریڈٹ کھلے عام تسلیم کیا، امریکی جریدے کا ماننا ہے کہ پاکستان نے کابل حملے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری میں فیصلہ کن کردار ادا کرکے صدر ٹرمپ کا مکمل اعتماد جیت لیاہے،امریکی جریدے نے ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ کرپٹو، توانائی، انسدادِ دہشت گردی اور معدنیات کے شعبوںمیں تیزی سے بڑھتے تعاون کا بھی تذکرہ بھی کیا۔ حالیہ دنوں میں ایک اور امریکی جریدے وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ بھی منظرعام پر آئی ہے جسکا عنوان’’ٹرمپ اسٹرینج لوَ افیئر وِد پاکستان‘‘ 'ہی چونکا دینے والا ہے، جریدے نے ٹرمپ انتظامیہ کے دوران پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ایک وقت تھا جب ٹرمپ پاکستانی قیادت کیلئے منفی رویہ رکھتے تھے لیکن آج حیران کن طور پر ٹرمپ کے لہجے میں پاکستان کیلئے واضح نرمی، شفقت اور تعریف شامل ہو گئی ہے، رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر ٹرمپ کا موڈ بدل جائے یا اگر امریکہ کی ترجیحات دوبارہ تبدیل ہو جائیں تو یہ موجودہ گرمجوشی پر مبنی عجیب و غریب محبت بہت جلد کمزور پڑسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عالمی سیاست میں بعض تبدیلیاں اچانک اور غیر متوقع طور پر سامنے آتی ہیں، جنہیں سمجھنے کیلئے صرف حالات کا جائزہ ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ تاریخی حقائق، پس منظر اورعالمی مفادات کی گتھیوں کو بھی سلجھانا پڑتا ہے ،امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹس نے مجھے آٹھ سال قبل چارجنوری 2018ء کااپنا وہ کالم بھی یاد دِلا دیاجب میں نے انکے پاکستان مخالف بیانات پر افسوس کا اظہارکیا تھا کہ سالِ نو کی آمد پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی ٹوئٹ پاکستان مخالف کرکے ملکی سیاست میں بھونچال برپا کردیا ہے۔میں نے اس وقت یہ موقف اپنایا تھا کہ کامیاب ریاست کی خارجہ پالیسی اپنے عوام کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا کر ترقی و خوشحالی کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔میں نے مختلف مواقع پر کہا کہ امریکی صدر اگر پاکستان دشمن لابی کی باتوں میں نہ آکر پاکستان کو بغیر کسی تعصب کے دیکھیں تو انہیں عالمی برادری میں پاکستان سے زیادہ قریبی دوست ملک اور کوئی نظر نہیں آئے گا جو روز اول سے اصولوں کی بنیاد پر امریکہ سے قریبی تعلقات کے فروغ کیلئے کوشاں ہے۔مجھے خوشی ہے کہ وقت نے میرے دعویٰ کو حرف بحرف سچ ثابت کردکھایا، آج ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں آنے والی غیر معمولی گرمجوشی سے عالمی میڈیا حیران و پریشان نظر آرہا ہےکہ وہی ٹرمپ جو چند سال قبل پاکستان پر سخت تنقید کرتے تھے، امداد روک چکے تھے اوردھوکے بازی جیسے الزامات لگاکرتے تھے مگر آج وہ پاکستان کی موجودہ قیادت سے نہ صرف مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے عوامی بیانات میں پاکستان کے بارے میں مثبت جذبات کا اظہار بھی کر رہے ہیں،میری نظر میں ٹرمپ کی جانب سےعوامی سطح پر’آئی لوُپاکستان‘ کہنا درحقیقت پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے جسکا کریڈٹ موجودہ پاکستانی سیاسی و عسکری اعلیٰ قیادت بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جاتا ہے۔ عالمی میڈیا اس سوال کا جواب کھوجنے کی جستجو میں ہے کہ امریکی صدرکے رویہ میں یہ حیران کن تبدیلی کیسے آئی اور اسکا مستقبل کیا ہے؟اسکا سادہ جواب یہی ہے کہ ٹرمپ روایتی سفارت کاری کے قائل نہیں ، بطور بزنس مین وہ کاروباری سطح پر دوطرفہ تعلقات اور ڈیل میکنگ پر یقین رکھتے ہیں اور انہوں نے ثابت کردکھایا ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس میں جنگوں کو روکنے کیلئے آئے ہیں، حالیہ برس جب پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کے ذمہ دارانہ اور امن پسندانہ کردار نے انہیں بہت متاثر کیا جبکہ دوسری طرف پاکستان نے ٹرمپ کے گزشتہ دور اقتدار سے سبق حاصل کرتے ہوئے پاک امریکہ سفارتی حکمت عملی ازسرنو مرتب کی، پاکستان کی سیاسی حکومت اور عسکری قیادت نے ایک پیج پر رہتے ہوئے ٹرمپ کو وہ راستے دکھائے جن پرچلنا ٹرمپ کو مفید نظر آیا، فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس مدعو کرنا،غزہ کانفرنس میں مسلمان ممالک کے پرچموں میں پاکستان کے پرچم کو درمیان میں نمایاں جگہ دینا اور شرم الشیخ میں عالمی لیڈران کی موجودگی میں وزیر اعظم شہباز شریف کو خطاب کی دعوت دینا کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں، ٹرمپ کی جانب سے بار بارپاک بھارت تصادم کا تذکرہ کرنا اس حقیقت سے پردہ اُٹھاتا ہے کہ وہ افواجِ پاکستان کی بہادری، دلیری اور شجاعت کے دِل سے قائل ہوچکے ہیں، وہ ماضی کی غلط فہمیوں کو بھُلا کر پاکستان کو اپنے ایک ایسی قدرتی اتحادی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جو خطے میں طاقت کا توازن قائم کرکے امن قائم کرسکتا ہے۔ تاہم میری نظر میں ٹرمپ کا پاکستان کی جانب جھکاؤ ہمارے لئے ایک سنہری موقع بھی ہے اور ایک آزمائش بھی، ماضی میں ہم کسی ایک کے ساتھ گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے کرتے اسکے مخالف کو اپنا دشمن بنانے کی غلطیاں کرچکے ہیں، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عالمی سفارت کاری میں مستقل دوست نہیں ہوا کرتے بلکہ مشترکہ مستقل مفادات کا حصول دوستی قائم و دائم رکھنے کا باعث بنتا ہے۔ سپرپاورامریکہ سے قریبی تعلقات یقینی طور پرپاکستان کیلئے معاشی بحالی، علاقائی استحکام، قائدانہ کردار اورعالمی قبولیت کے نئے باب کھول سکتے ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہوگا جب پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو نہایت سمجھداری، دوراندیشی اوراحتیاط سے آگے بڑھائے۔

تازہ ترین