بلوچ قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ قائداعظم جنہیں خان آف قلات نے اپنا قانونی مشیر بنایا تھا،انہوں نے دھوکہ دہی اور فریب سے کام لیا اور قیام پاکستان کے بعد آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔مکران،لسبیلہ اور خاران کی ریاستوں کےپاکستان سے الحاق پر بھی سوالات اُٹھائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ایسا کرکے دراصل بلوچ ریاست کے ٹکڑے کردیئے گئے۔مگر تصویر کا دوسرا رُخ سامنے نہیں لایا جاتا۔آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اقتدار کے اس کھیل میں ”بروٹس“کون تھا،کس نے کس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔بلوچ دانشور اور مصنف ڈاکٹر نصیر دشتی اپنی کتاب The Baloch and the Balochistan میں روائتی الزام دہراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خان آف قلات نے برطانوی استعمار کے سامنے دہلی میں ریاست قلات کا مقدمہ لڑنے کیلئے جس شخص کی خدمات حاصل کیں اب وہی ’بروٹس‘کا کردار ادا کررہا تھا۔آزاد بلوچستان کے خطرے سے نمٹنے کیلئے ہندوستان میں برطانوی انتظامیہ کی طرف سے جناح اور پاکستانی حکام کی واضح طور پر حوصلہ افزائی کی جارہی تھی۔ڈاکٹر نصیر دشتی کی طرح بیشتر بلوچ دانشور محمد علی جناح کو”بروٹس“قرار دیتے ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے برطانوی حکام کے سامنے بھرپور انداز میں ریاست قلات کا مقدمہ لڑاتاکہ ہندوستان کی دیگر 565ریاستوں کی طرح ریاست قلات کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملے اور خان آف قلات میر احمد یار خان تقسیم ہندوستان کے موقع پر پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کرسکیں۔لیکن جب یہ اختیار مل گیا تو خان آف قلات نے نہ صرف آزادی کا اعلان کردیا بلکہ حکومت پاکستان کے ساتھ StandStillمعاہدہ کرنے کے باوجود ریاست قلات کو پاکستان میں ضم کرنے کے حوالے سے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کردیا۔بہر حال ہم ڈاکٹر نصیر دشتی کی کتاب The Baloch and the Balochistanسے ہی یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کھیل میں ”بروٹس“کا کرداد کس نے ادا کیا۔جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے،قائداعظم نے قیام پاکستان سے پہلے ہی بطور گورنر جنرل ریاست قلات کو آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کیا اور خان آف قلات اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ دیگر خطوں کے برعکس بلوچ خطہ پاکستان کے آزاد ہونے سے پہلے ہی ریاست پاکستان میں شامل ہوگیا۔مگر درحقیقت خان آف قلات نے مکمل آزادی اور خودمختاری کا فیصلہ کرکے اس مینڈیٹ سے انحراف کیا۔ ڈاکٹر نصیر دشتی کے مطابق اگست 1947ء میں خان آف قلات نے بھارتی حکومت کی توجہ پاکستان قلات معاہدے کی طرف مبذول کروائی جسکے مطابق حکومت پاکستا ن نے قلات کو آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کیا،اور اسی طرح کا معاہدہ کرنے کی پیشکش کی۔بعد ازاں خان آف قلات کے نمائندہ سر سلطان احمد کے ذریعے بھارتی حکومت سے دہلی میں ٹریڈ ایجنسی کھولنے کی اجازت کیلئے درخواست کی،جسے رد کر دیا گیا۔ایک طرف خان آف قلات پاکستان سے الحاق کیلئے تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے قائداعظم سے مہلت مانگ رہے تھے اور دوسری طرف غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ ساز باز کرکے سازشیں رچائی جارہی تھیں۔ ڈاکٹر نصیر دشتی کی کتاب میں دستیاب تفصیلات کے مطابق خان آف قلات نے برطانوی حکام کی نیت واضح نہ ہونے اور محمد علی جناح کے جارحانہ اقدامات کے پیش نظر ریاست قلات کی افواج کے کمانڈر انچیف بریگیڈیئر جنرل پرویز کو فوجی دستوں کو منظم کرنے اوراسلحہ و گولہ بارود حاصل کرنے کا حکم دیا۔بریگیڈیئر جنرل پرویز نے دسمبر 1947ء میں دورہ لندن کے دوران کامن ویلتھ کے محکمہ تعلقات عامہ اورمنسٹری آف سپلائی سے رجوع کیا مگر انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ حکومت پاکستان کی منظوری کے بغیر ریاست قلات کو دفاعی ساز و سامان نہیں دیا جاسکتا۔اٹھارہ مارچ 1948ء کو حکومت پاکستان کی وزارت خارجہ نے ریاست مکران،خاران اور لسبیلہ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تو خان آف قلات نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ سے شکایت کرنے کا اعلان کیا۔کہا گیا کہ حکومت پاکستان نے دھوکہ کیا ہے۔آج بھی یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مکران 300سال سے ریاست قلات میں شامل تھا۔حالانکہ 1947ء میں پاکستان کے قیام سے 120سال پہلے خان آف قلات میر محراب خان کے دور سے مکران نے خراج دینا بند کردیا تھا اور جام آف لسبیلہ نے بھی اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا تھا۔خان آف قلات کی بے بسی اور لاچارگی کا تو یہ عالم تھا کہ گوادر کا علاقہ جو عمان کے شہزادے کو بطور تحفہ دیا گیا تھا،وہ واپس نہ لیا جاسکا۔یہ تاثر بھی درست نہیں کہ جام آف لسبیلہ، نواب آف خاران اورخان آف مکران پردباؤ ڈال کر انہیں حکومت پاکستان میں شامل کیا گیا۔بلوچ رہنمامیر غوث بخش بزنجو جنہیں ریاست قلات کی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر منتخب کیا گیا تھا وہ اپنی سوانح حیات In Search Of Solutionsمیں لکھتے ہیں کہ بلوچ سرداروں کو برٹش بلوچستان میں مراعات یافتہ حیثیت حاصل تھی۔اس لیئے انہیں لگتا تھا کہ اگر وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں تو ایک طرف تو انہیں وہی امتیازی حیثیت حاصل رہے گی جو برٹش بلوچستان میں ان کیلئے مخصوص تھی اور دوسری طرف انہیں خان آف قلات کی اطاعت بھی نہیں کرنا پڑئیگی۔سوال تو یہ بھی ہے کہ خان آف قلات نے پاکستان سے الحاق کے معاملے کو سات ماہ تک التوا میں رکھا اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کے ذریعے الحاق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں تو پھر مارچ 1948ء میں اچانک پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیوں کردیئے؟اس پر پھر بات ہوگی۔