• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں ترقی کی شرح گزشتہ چند برس سے مسلسل تین فیصد سے کم چلی آ رہی ہے۔ ترقی کی یہ شرح نہ صرف ملک کے معاشی استحکام کا ہدف حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ اسکی وجہ سے ملک میں بیروزگاری بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس وقت نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں ڈگریاں ہاتھوں میں لئے روزگار کی تلاش میں ہے جبکہ کم تعلیم یافتہ اور غیر ہنرمند افراد بھاری سرمایہ لگا کر روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جا رہے ہیں۔ ان حالات میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی معاشی سمت کو درست کرنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین کی رائے پر انحصار کرنے یا حکومتی وزراء اور چند کاروباری شخصیات پر مشتمل گروپ کے مطالبات پر پالیسیاں تشکیل دینے کی بجائے مشاورت کے حلقے کو وسیع کرے۔ اس طرح نہ صرف ہر کاروباری شعبے کے نمائندہ افراد کو اپنی بات حکومت تک پہنچانے میں آسانی میسر آئے گی بلکہ حکومتی اقدامات کو زیادہ وسیع پیمانے پر کاروباری برادری کی حمایت حاصل ہونے سے ملک میں معاشی ترقی کی رفتار بھی تیز کی جا سکے گی۔

اس حوالے سے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹریز اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے ملک بھر کی 400 سے زائد کاروباری تنظیموں اور چیمبرز آف کامرس سے حکومتی پالیسیوں پر فیڈ بیک لیا جا سکتا ہے اورپالیسیوں کی تشکیل نو کے حوالے سے بھی ان کے ذریعے ملک بھر سے تجاویز کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح حکومت کو گراس روٹ لیول پر بزنس کمیونٹی کو درپیش مشکلات سے آگاہی حاصل ہو سکے گی اور انکی مشاورت سے ان مسائل کو حل کرنے کا راستہ بھی نکالا جا سکے گا۔ یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے پلیٹ فارم سے کاروباری برادری کی نمائندگی کرنے والے تین مرکزی قائدین اس حوالے سے پہلے ہی اکٹھے ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں بزنس مین پینل کے چیئرمین و سابق صدر ایف پی سی سی آئی انجم نثار، یونائیٹڈ بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم تنویر اور سابق نگران وفاقی وزیر تجارت ڈاکٹر اعجاز گوہر نے ملکی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے حکومت پر زور دیا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل کو زیادہ شفاف بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے۔

ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حکومتی سطح پر معیشت کو استحکام دینے کیلئے مشاورت کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور اس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا کردار تسلیم کیا جائے کیونکہ یہ پلیٹ فارم ملک کے تمام چیمبرز آف کامرس اور کاروباری تنظیموں کی نمائندگی کرتا ہے۔

اس باب میںمیری یہ تجویز ہو گی کہ حکومت کی طرف سے قومی سطح پر ایک جوائنٹ اکنامک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور اس میں ملک بھر سے بزنس کمیونٹی کی نمائندہ اہم شخصیات کو مدعو کیا جائے۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے نہ صرف حکومت اور بزنس کمیونٹی میں دوریاں کم ہوں گی بلکہ دونوں طرف کی قیادت کو ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کا بھی موقع ملے گا۔ اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے بزنس کمیونٹی کے رہنمائوں اور انکی بنیادی ٹیم کے اراکین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز اور حکومت کے معاشی شعبے کے ماہرین کی مشاورت سے اگلے پانچ سال کیلئے اتفاق رائے سے معاشی پالیسی تشکیل دے کر بنیادی اہداف کا تعین کیا جائے۔ اس طرح سے تشکیل دی گئی پالیسی کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر فریق کو اپنی ذمہ داری کا پہلے سے پتہ ہو گا اور ایک مشترکہ حکمت عملی سے ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے گا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں 200 سے زائد ممالک ہیں اور تقریباً ہر ملک میں بزنس کمیونٹی کی قومی اور عالمی سطح پر نمائندگی کیلئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی طرز پر ادارے موجود ہیں۔ یہ ادارےایک طرف قومی سطح پر پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں دوسری طرف بزنس کمیونٹی کے مختلف سیکٹرز کو درپیش مشترکہ مسائل کے حل کیلئے بھی حکومت سے رابطہ کاری کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

علاوہ ازیں اس نوعیت کے ادارے عالمی سطح پر اپنے ملک کی بزنس کمیونٹی کیلئے کاروباری مواقع بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ اس ماڈل پر عمل کرتے ہوئے اگر پاکستان میں بھی فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو پالیسی سازی کے حوالے سے ہونے والے مشاورتی عمل میں بنیادی کردار دیا جائے تو اسکے خاطر خواہ مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں حکومتی زعماء کو یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک معاشی پالیسیوں پر بزنس کمیونٹی کی منتخب قیادت سے مشاورت نہیں کی جائیگی ان پر سو فیصد عملدرآمد ممکن نہیں ۔ اس لئے حکومتی سطح پر مختلف کمیٹیوں کی تشکیل میں بھی اس بات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ تمام سیکٹرز کو مساوی نمائندگی حاصل ہو تاکہ کسی مخصوص سیکٹر کو فائدہ پہنچانے کا تاثر ختم کرکے ملک میں مجموعی طور پر کاروبار کرنے کے ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس طرح نہ صرف حکومت کا عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کم ہو گا بلکہ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے ہمیں بار بار دوست ممالک کی طرف بھی نہیں دیکھنا پڑے گا۔ سرمایہ کاری کا بنیادی اصول پوری دنیا میں ایک ہی ہے کہ جہاں گورننس کا نظام شفافیت اور مساوی بنیادوں پر کاروبار کرنے کا بہتر ماحول فراہم کرے گا وہاں سرمایہ کار خود دوڑا چلا آئے گا۔ اسی طرح مقامی بزنس کمیونٹی کو بھی اس وقت ہی ملک میں مزید سرمایہ کاری پر آمادہ کیا جا سکے گا جب انہیں یہ یقین ہو گا کہ حکومت انہیں مساوی کاروباری مواقع فراہم کرنے پر یقین رکھتی ہے۔

تازہ ترین