کمرے میں پنکھا اپنی پوری رفتار سے گھوم رہا تھا، مگرحبس ایسا تھا کہ سانس لینا دشوار لگ رہا تھا۔ یہاں ستمبرکی دوپہر ہمیشہ گرم ہی ہوتی ہے، مگر اس بار تو جیسے فضا آگ اُگل رہی تھی۔ محمود نے پسینہ پونچھتے ہوئے اخبار موڑ کر میز پر رکھا۔ اُس کے چہرے پر سنجیدگی اور تشویش کی گہری لکیریں کھنچ آئی تھیں۔ صائمہ نے یہ کیفیت بھانپ لی اور دھیرے سے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘ محمود نے اخبار اُس کے سامنے رکھ دیا۔
جلی سُرخی دیکھتے ہی صائمہ کا رنگ بدل گیا۔ ’’پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے، جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘ کمرے میں بیٹھے بچّے بھی چونک گئے۔ احمد اور فراز خاموش ہوگئے، نور اور عائشہ کی آنکھوں میں تشویش تیرنے لگی۔ محمود نے جیسے خُود سے بات کی، ’’یاد ہے صائمہ، بیس سال پہلے بارشیں وقت پر ہوتی تھیں۔ سردیوں کی راتیں لمبی اور خنک۔ کسان خوش ہوتے، کھیت لہلہاتے۔
مگر اب…کبھی بارش ایسی کہ بستیاں بہا لے جائے، کبھی قحط ایسا کہ زمین چیخ اُٹھے۔‘‘ نور نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا، ’’ابو! ایسا کیوں ہورہا ہے؟‘‘ صائمہ نے بیٹی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! یہ سب انسان کا اپنا کیا دھرا ہے۔ ہم نے درخت کاٹ ڈالے، فضا کودھویں سے بھردیا، دریاؤں کو گندا کیا۔ زمین کب تک سہتی؟‘‘ کچھ دیر کے لیے سکوت سا چھا گیا، جسے پھر احمد نے توڑا۔
وہ یونی ورسٹی میں ماحولیات کا طالبِ علم تھا۔ ’’ابّو! پچھلے بیس سال میں پاکستان کا درجۂ حرارت ایک ڈگری بڑھ چُکا ہے۔ سُننے میں کم لگتا ہے، مگر یہی ایک ڈگری برفانی تودوں کو تیزی سے پگھلا رہی ہے اور اگر یہ برف ختم ہوگئی تو دریاؤں کا پانی خشک ہوجائے گا۔ تو پھر کھیتی باڑی کا کیا بنے گا؟‘‘ فراز کے اندر کا نوجوان جوش سے بھر آیا۔ ’’توکیا ہم سب بس تماشائی بنے رہیں گے؟ کچھ تو کرنا ہوگا ناں!‘‘ اُس کالہجہ سلگتی چنگاری ساتھا۔ اور یہ چنگاری محمود اور صائمہ کے دل میں شعلہ بن کر بھڑکی۔
اگلے دن سب نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی گلی سے آغاز کریں گے۔ بچّے خوشی خوشی پودے لے آئے۔ صائمہ نے مٹی تیار کی۔ محمود نے کھدائی کی اور محلے کے کونے پر سب نے مل کر ننّھے پودے گاڑدیے۔ لوگ ہنسنے لگے۔ ’’اِس گرمی میں یہ پودے کب تک جیئں گے؟‘‘ مگر وہ ڈٹے رہے۔ روزپانی دیتے، دیکھ بھال کرتے۔ کچھ ہی ہفتوں میں کونپلیں اُبھریں تو وہی لوگ حیرت سے اُن پودوں کو چُھو چُھو کر دیکھنے لگے۔
نور نے اسکول میں تقریر کی۔ ’’زمین ہماری ماں ہے۔ اگر ہم نےاِس کی سانسیں بند کر دیں تو ہمارا اپنا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔‘‘ عائشہ نے کپڑے کےتھیلےسلوا کر دوستوں میں بانٹے۔ احمد نے یونی ورسٹی میں’’گرین سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ فراز نے موبائل سے ویڈیوز ریکارڈ کیں اور لوگوں کو سمجھایا کہ چھوٹے چھوٹے کام…جیسے بجلی بچانا، پانی ضائع نہ کرنا، سائیکل چلانا وغیرہ بھی بڑے فرق ڈال سکتے ہیں۔
رفتہ رفتہ اس چھوٹی سی کوشش کی بازگشت شہر بھر میں گونجنے لگی۔ مگر زندگی نے ایک اور کڑا امتحان لیا۔ بارشیں معمول سے کئی گُنا بڑھ گئیں۔ دریائے چناب نے کنارے توڑ دیے۔ محمود کے آبائی گاؤں میں سیلاب آیا۔ کھیتیاں ڈوب گئیں، مکان منہدم ہوگئے۔ جب فیملی امداد لے کر گاؤں پہنچی تو وہاں کی بربادی نے ان کے دل چیرکے رکھ دیے۔ ایک بزرگ کی لرزتی آواز تادیرکانوں میں گونجتی رہی، ’’ہم نے کبھی سوچانہ تھا کہ اپنے گھر کی چھت یوں پانی میں بہتی دیکھیں گے۔‘‘
احمد نے ٹوٹے لہجے میں کہا۔ ’’ابو! یہ واضح اشارہ ہےکہ وقت ہمارےہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اگر ہم سب نےآج کچھ نہ کیا، تو آنے والی نسلوں کےلیےکچھ نہیں بچے گا۔‘‘ اور اُسی لمحے محمود نے فیصلہ کیا کہ اُن کی جدوجہد گلی یا محلے تک محدود نہیں رہ سکتی۔ وہ شہر بھر میں’’کلائمیٹ ایکشن گروپ‘‘ بنائیں گے۔ یہ آسان نہ تھا۔ کئی بار دفاتر کے دروازے بند ہوئے، کئی بار طنز کے تیر سہنے پڑے۔
لوگ کہتے، ’’پاکستان میں پہلے ہی غربت، بےروزگاری اور منہگائی کیاکم ہے،جویہ نیا شوشا؟‘‘مگر صائمہ نے ہمّت نہ ہاری۔ وہ ہر محفل میں ایک ہی بات دہراتی۔ ’’اگر زمین ہی باقی نہ رہی تو یہ سارے مسائل کہاں رہیں گے؟‘‘ آہستہ آہستہ کارواں بنتا گیا۔ طلبہ، گھریلو خواتین، رکشہ ڈرائیورز، دکان دار سب شریک ہونے لگے۔ پودے لگانے کی مہمات چلیں، پانی بچانے کے طریقے عام ہوئے، لوگ سائیکلز استعمال کرنے لگے۔
ایک شام سب گھر والے چھت پر بیٹھے تھے۔ آسمان پردھند سی چھائی ہوئی تھی۔ فراز نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’ابّو! نیوز میں آرہا تھا، اگر درجۂ حرارت دو ڈگری اوربڑھ گیا تو سندھ اور بلوچستان کےساحلی علاقے سمندر بُرد ہو جائیں گے۔ کیا واقعی ایسا ہو جائے گا؟‘‘محمود نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’خطرہ تو ہے بیٹا، لیکن اُمید چھوڑنا گناہ ہے۔ اگر آج ہم اپنی عادات بدلیں، توانائی بچائیں، درخت لگائیں اور حکومتوں کو مجبور کریں تو بہت کچھ بچ سکتا ہے۔‘‘
نور نے دھیرے سےکہا، ’’مَیں وعدہ کرتی ہوں ابوکہ بڑی ہوکرماحولیات کی سائنس پڑھوں گی اور زمین کو بچانے کے لیے کام کروں گی۔‘‘ عائشہ نے پُرعزم لہجے میں کہا۔ ’’مَیں چاہتی ہوں ہربچّہ یہ سمجھے کہ زمین ہماری ماں ہے۔‘‘ ان معصوم وعدوں نے محمود اور صائمہ کی آنکھیں نم کردیں۔ اُنہیں یقین ہوگیا کہ شاید آنے والی نسل وہ غلطیاں نہیں دہرائے گی، جو پچھلی نسلوں نے کیں۔
یہ کہانی کسی انجام تک نہیں پہنچی، کیوں کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ ابھی طویل ہے۔ مگر اِس خاندان نے یہ ثابت کردیا کہ اگر دل میں لگن ہو تو ایک عام سی فیملی بھی غیر معمولی مثال بن سکتی ہے۔ اُنہوں نے یہ سکھا دیا کہ امید کا دیا جلتا رہے تو اندھیروں کے مقابلے میں روشنی کبھی نہیں ہارتی۔