مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(بلال حسن منٹو)
بلال حسن منٹو، ڈراما نگار، افسانہ گو، جیّد وکیل، لمز ایسے موقر ادارے میں جُزوقتی معلم اور فلم ساز۔ معروف ادیبہ تسنیم منٹو کے صاحب زادے۔ اردو کہانیوں کے واحد مجموعے ’’ماڈل ٹاؤن‘‘ نے شائع ہوتے ہی عوام و خواص کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
نپی تُلی، دل چسپ، من موہنی کہانی کہنے کا گُرخ ُوب جانتے ہیں، قریباً تمام کہانیوں کا لوکیل ماڈل ٹاؤن، لاہور ہے، جہاں مصنّف نے زندگی بسر کی۔ زبان مقفیٰ و مسجّع، کوثر و تسنیم سے دُھلی ہرگز نہیں، البتہ پُراثر و دل پذیر، سادہ اور رواں ہے۔ حکایاتِ دل چسپ، عام بول چال کی زبان میں زندگی اور حقیقت کے قریب تر کہانیاں، گہرا مشاہدہ اور لطیف بیان۔ ایسی شگفتگی جو جدید افسانے میں کم یاب ہے۔
’’آسیہ‘‘ ایک طویل کہانی ہے، آپا صُغراں اوراس کی دو بیٹیوں فری اور پری کی۔ آپا صغراں بیٹیوں پرشیرنی کی نظر رکھتی اور اُنھیں سونے کانوالہ بھی نہیں کھلاتی۔ دل نشین کردار نگاری، ایسے سچے واقعات کہ گمان ہوتا ہے کہ کہانی تراشی نہیں گئی بلکہ ایک سچ بیانی ہے۔ روایتی ڈگر سے ہٹ کر لکھی گئی دل کش کہانی، جس کا اختتام ذہین اور پیش بیں قاری کو بھی چونکا دیتا ہے۔
ہوسکتا ہے، کبھی کبھی لوگوں کو محسوس ہوتا ہوکہ ہم محلےوالےیونہی،بلاوجہ آپا صغراں کے خلاف تھے۔ شاید وہ سوچتے ہوں کہ آخر کوئی ایسی دین دار عورت کے خلاف کیوں کر ہوسکتا ہے، جس نے گھرکی صفائی کرنے والی ملازمہ ایلس کو نوکری سے اس بنیاد پر نکال دیا تھا کہ وہ اُس کے مسلمان گھرانے کے شیشے کے بنے پاک گلاسوں میں پانی پیتی پکڑی گئی تھی۔ ایسی راست بازعورت، جس نے سوزن کو اس لیے کھڑے کھڑے نوکری سے برخاست کیا کہ اس کا خاوند ایک مسلمان کو شراب فراہم کرتا تھا۔
مگر ایسے لوگ اگر ہیں، جو آپا صغراں کے لیے ہماری نفرت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، تو وہ حقائق سے نابلد ہیں۔ ہم ہمیشہ سے آپا صغراں کے خلاف نہیں تھے۔ جب وہ ہمارے ساتھ والے گھر میں نئی نئی کرائے دار بن کے آئی تھیں تو امّی نے اُن کو پہلے دن دونوں وقت کا کھانا بھی بھیجا تھا کہ آج پہلے دن آپ کے باورچی خانے کا نظام چالو نہ ہوا ہوگا۔ سو، لیجیے یہ کھانا ہماری طرف سے کھائیے، لہٰذا ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ ہم ازل سےاور بلاوجہ اُن سے نفرت کرتے تھے۔
جو جو دہشت ناک باتیں، بعد میں ہمیں پتا چلیں، اُن کا تو خیر ذکر ہی کیا، انھوں نے ہمارے ہم سائے میں آنے کے کچھ عرصے بعد جو اپنی سگی بیٹی پری کے ساتھ کیا، صرف وہ ہی ایسی بات تھی کہ اُس پر بُرا بھلا کہنا، گالیاں دینا اور نفرت آمیز رویہ اختیار کرنا جائز تھا،جب کہ اُس قصّے میں پری کا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔ جس نے وہ واقعہ سُنا، یہی کہا کہ ’’بےچاری بچّی کا کیا قصور تھا؟‘‘
نوید بھائی کو تو بہت ہی غصّہ آیا تھا۔ وہ کہتے رہےکہ آپا صغراں کو سبق سکھانا چاہیے، مگر امّی نے سختی سے منع کیا کہ خبردار، اس چڑیل کے منہ لگنےکی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ اوربات کہ میرا خیال تھا کہ امّی نہ بھی کہتیں تو نوید بھائی کے پاس ایسا کوئی حربہ نہیں تھا، جسے بروئے کار لا کرآپا صغراں کو کسی عبرت ناک انجام سے ہم کنار کیا جا سکتا تھا۔
آخر کیا کرتی ہوں گی سارا دن؟ ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتی ہیں یا اِس کی بھی اجازت نہیں؟ اور ایسی ہی پابندیاں اُن پرعائد ہیں تو آپا صغراں اُنھیں پڑھنے کے لیے اسکول بھی کیوں بھیجتی ہیں، انھیں پڑھا ہی کیوں رہی ہیں؟ فری، پری کے گھر کے بہت نزدیک مس نبیہہ کا اسکول تھا۔ اُس کا کوئی نام ضرور ہوگا، مگر مجھے بس اتنا یاد ہے کہ سب اُسے مس نبیہہ کا اسکول کہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مس نبیہہ ایک قدآور، بہت گوری سی عورت تھیں، جو اپنے ہونٹوں پر ہمہ وقت سُرخ لپ اسٹک لگائے رکھتیں اور مزدا گاڑی چلاتی تھیں۔
ایسی عورتیں، جیسا کہ سب جانتے ہیں، اُس زمانے میں کم کم دیکھنے میں آتی تھیں، تو مس نبیہہ اپنے ان اوصاف کی وجہ سے بہت نمایاں تھیں۔ طرح طرح کے اسکول تو جگہ جگہ کُھلے ہوئے تھے، مگر مس نبیہہ جیسی نمایاں اور جدید عورتیں کم ہی ہوتی تھیں۔ اِسی لیے لوگوں نے شاید یہ پسند کیا کہ اُن کے اسکول کو اُس کے نام کی بجائے مس نبیہہ کے حوالے سے پکارا جائے۔
ظاہر ہے کہ آپا صغراں کی سی راست بازعورت فری، پری کو مس نبیہہ کی سی جدت پسند عورت کے اسکول نہیں بھیج سکتی تھیں، تو وہ دونوں مس نبیہہ کے اسکول سے ذرا آگے گول سٹرک پر واقع ماڈل گرلز اسکول پڑھنے جاتی تھیں اور آپا صغراں کی سخت ہدایت کے مطابق جب وہ پیدل چلتے مس نبیہہ کے اسکول کے سامنے سے گزرتیں تواپنی رفتار تیز اور اپنے سر جُھکا لیتی تھیں۔
ماڈل ٹاؤن میں تب سڑک کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے کچے نالے چلتے تھے۔ یہ شاید اس لیے بنائے گئے تھے کہ گھروں کے باہر سڑک کنارے لگے سبزے کو سیراب کرسکیں۔ اب تو نہ یہ نالے ہیں، نہ اس قدر سبزہ مگر اُس زمانے میں یہ نالے پانی سے بَھرے رہتے اور سبزہ بھی بہت تھا۔ فری اور پری کی زندگیوں میں ان نالوں کا اتنا دخل تھا کہ چُھٹی ہوتے ہی وہ ان میں سے ایک کے ساتھ ساتھ پیدل چلتی گھرآتی تھیں۔
اُنھیں چُھٹی ہوتے ہی، فوراً برقعے اوڑھ کر، نالے کے ساتھ ساتھ چلتے گھر آنا ہوتا تھا، جب کہ بہت سی لڑکیاں ایسی تھیں، جو چُھٹی کے بعد کچھ وقت اسکول کے باہر منڈلاتی رہتیں۔ کچھ اپنی سواریوں کا انتظار کرتیں اور کچھ اُن کی سہیلیاں ان سے باتیں کرنے کھڑی رہتیں۔ یہ لڑکیاں ٹھیلے والوں سے طرح طرح کی چیزیں خرید کرکھاتی پِھرتی تھیں۔ غلیظ چنے، برف کے رنگ برنگے زہریلے گولے، گٹا اورلچھے۔
ہفتے کے روز یہ سب ذرا زیادہ ہوتا تھا، کیوں کہ اسکول جلد بند ہوجاتا، گیارہ بجے ہی، اور اگلے روز اتوار کی ہفتہ وار چُھٹی ہوتی تھی، تو لڑکیاں اسکول کے باہر ذرا زیادہ دیر منڈلا کے خوشی کا اظہار کرتی تھیں۔ فری اور پری البتہ اُس روز بھی اپنے کالے برقعوں میں ملبوس نالے کے ساتھ ساتھ چلتی گھر چلی جاتی تھیں۔ شاید ہفتے کے دن ہی کی بات ہے۔
فری اور پری اسکول بند ہونے پر باہر نکلیں اور تیز تیزچلتی گھرکی جانب روانہ ہوئیں۔ اُدھر نزدیک ہی سڑک کنارے ایک لڑکی نے ایک دوسری لڑکی کےہاتھ سے بُھنا ہوا سِٹّا اُچکا اور بھاگنے لگی۔ یوں ہی کھیل کھیل میں، ازراہِ مذاق۔ اس کے پیچھے پیچھے وہ دوسری لڑکی بھاگنے لگی تاکہ اپنا سِٹّا بازیاب کروا سکے۔
بھاگتے بھاگتے دونوں فری، پری کے نزدیک جاپہنچیں اور سِٹّا اچکنے والی لڑکی فری، پری کے گرد گول گول گھوم کے، خُود کو دوسری لڑکی سے بچانے لگی۔ اس گول گول چکر کےعمل میں، وہ لڑکی جس کا سِٹّا اُچکا گیا تھا، زیادہ پھرتیلی ثابت ہوئی اور ایسی تیزی سے گھومی کہ لحظہ بھر کو سِٹّا اُچکنے والی لڑکی کا بازو اُس کی گرفت میں آگیا۔
اُسے کچھ اور نہ سوجھا تو اُس نے پری کو پکڑ کے اپنی جانب کھینچنا چاہا، جیسے اُس کی آڑ لینا چاہتی ہو۔ بدقسمت پری کا بازو تو اس کےہاتھ میں نہ آیا، مگر اُس کا برقعہ ضرور آگیا۔ چرررررررر کی آواز سے برقعہ پھٹتا چلاگیا، پری بےچاری گھبرائی، برقعہ پھٹنے اور کھینچے جانےسے ڈگمگائی اور سِٹّا چور لڑکی سے جا ٹکرائی۔ دونوں ہی اپنا توازن قائم نہ رکھ پائیں، تھوڑا اور ڈگمگائیں اور نالے میں جا گریں۔
وہ کوئی خطرناک نالہ نہیں تھا، بس دو تین فٹ ہی گہرا تھا، اِس لیے یوں اس کے اندر گرجانے میں ڈوبنے یا زخمی ہونے کا خدشہ نہیں تھا۔ سو، بس اتنا ہی ہوا کہ دونوں لڑکیوں کے کپڑے بالکل بھیگ گئے اور وہ کیچڑمیں لت پت ہوگئیں۔ پری کے لیے زیادہ بڑا سانحہ یہ تھا کہ اُس کے برقعےکا ایک بڑا حصّہ پھٹ کر لٹک گیا تھا اور اسکول یونی فارم کی گیلی،کیچڑ زدہ قمیص نظر آنے لگی تھی۔
یہ منظر، یعنی برقعےکے اس قدر پھٹ جانےاور گیلی قمیص کے عیاں ہوجانے کا منظر دیکھتے ہی نالے کے کنارے کھڑی فری نےنیم ہذیانی اندازمیں چلّانا شروع کردیا۔ ’’ہائے پری، ہائےپری…برقعہ، برقعہ… ہائے اللہ، ہائے اللہ، قمیص…‘‘ اُس وقت حساب کی استانی مس طیبہ، اسکول کے پھاٹک سے نکل کر اُسی طرف آرہی تھیں۔
یہ حادثہ رُونما دیکھ کرتیز تیز چلتی جائے وقوع پرآئیں۔ چور لڑکی توتب تک نالے سے خُود ہی نکل گئی تھی اور کھڑی دانت نکال رہی تھی، مگر پری نالےکے اندر دم بخود بیٹھی تھی۔ مس طیبہ نے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ وہ بھی اُن کا ہاتھ تھام کر باہر نکلے مگر اُس نے جنبش بھی نہ کی۔ مس طیبہ نے اُس کے برقعے کا ایک حصّہ پکڑ کر کھینچا، جس سے وہ کچھ اور پھٹ گیا۔ تب جھنجھلا کر اُنھوں نے پری کو بالوں سے پکڑا اور باہر کھینچنےلگیں۔
بال کھینچے جانے پرپری کو کچھ ہوش تو آیا، مگر بالوں کی تکلیف سے زیادہ اس کے حواس پر برقعے کا پھٹ جاناطاری تھا۔ ’’میرا برقعہ، میرا برقعہ۔‘‘ وہ روتے روتے بولی۔ مس طیبہ نےدونوں لڑکیوں کے سروں پہ ایک ایک تھپڑ لگایا اور دونوں ہاتھوں کی مُٹھیوں میں پکڑ کے دونوں کے بال کھینچے۔ فری علیحدہ کھڑی ابھی تک چیخ رہی تھی۔ مس طیبہ نے اُسے بازو سے پکڑ کے جھنجھوڑا اور غصّے سےکہا۔ ’’تم کیوں چیخ رہی ہو، تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘’’مس برقعہ۔ ہائے مس، پری کا برقعہ۔‘‘ فری نے قریب قریب روتے ہوئے کہا۔ ’’پھٹ گیا ہے برقعہ۔‘‘مس طیبہ نےکہا۔ ’’بے کار ہوگیا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کھینچ کھانچ کے برقعہ پری کے وجود سےاتار کے سڑک پر پھینک دیا۔فری زور زور سےچیخنے لگی۔ ’’مس برقعہ… مِس آپ نے پری کا برقعہ اُتار دیا۔ امی بہت غصّہ ہوں گی۔‘‘ یہ بات سُنتے ہی پری نے بھی سِسکی بَھری اور رونا شروع کردیا۔ ’’تو کیا پھٹے ہوئے گندےکیچڑ میں بَھرے برقعےمیں گھر جانا تھا؟‘‘ مس طیبہ نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں کہتیں امّی۔
چلو، گھرجاؤ۔ اور اتنی تکلیف ہورہی ہے برقعے کی تو یہ لو، گھر لے جاؤ۔‘‘ اُنھوں نے سڑک سے اٹھا کر پھٹا ہوابرقعہ اُس کے ہاتھ میں تھمایا اور چلتی بنیں۔ مس طیبہ آپا صغراں کو نہیں جانتی تھیں۔ ایسے معاملات میں آپا صغراں سوالات بعد میں کرتی تھیں،ہاتھ پہلے اُٹھاتی تھیں۔
جب یہ دونوں لڑکیاں اس حادثےکی وجہ سے ذرا چند منٹ تاخیر سے گھر پہنچیں، تو آپا صغراں گیٹ پر کھڑی تھیں۔ نہ اُنھوں نے یہ پوچھا کہ دیر سےکیوں آئیں، نہ یہ کہ کیا واقعہ ہوا کہ پری نے برقعہ اُتاردیا۔ اُنھوں نےتوبس ایک تھپڑ پری کے منہ پر کھینچ کے مارا۔ اُس وقت سڑک پر بچّے اسکولز سے آجا رہے تھے۔
کوئی اکیلے، کوئی ماں باپ یا ملازمین کے ساتھ، کوئی پیدل اور کوئی سائیکل پر۔ پری کو تھپڑ پڑا تو آس پاس کے بچّے رک گئے اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں آگےکیا ہوتا ہے۔ اُسی لمحے کچھ ہوا۔ پری میں کوئی باغی رگ پھڑکی یابس وہ بدحواس ہوگئی۔ تھپڑ کھاتے ہی وہ اندھا دھند سڑک پر بھاگنے لگی۔ بستا پھینکا، برقعہ پھینکا اوراندھا دھند بھاگنے لگی۔
آپا صغراں کے توسر میں جیسےآگ لگ گئی۔ ’’ادھر آ کتّی۔ میں تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گی۔‘‘ آپا صغراں نے کہا اور پری کے پیچھے بھاگیں۔ سڑک پر سب لوگ تماشا دیکھ رہے تھے۔ آگے آگے پری اور پیچھے پیچھے آپا صغراں۔ ’’پکڑو…اِس کو پکڑو۔‘‘ آپا صغراں چیختی جائیں۔ ’’یہ میری بیٹی ہے، الو کی پٹّھی۔ گھر سے بھاگ رہی ہے۔
پکڑو، پکڑو۔‘‘ وہ دوڑ میں پری کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں، کیوں کہ وہ موٹی اورعُمرکی زیادہ تھیں۔ پری بھاگتے بھاگتے کافی آگے نکل چکی تھی۔ بے وقوف لڑکی کو یہ سمجھ نہ آئی کہ ہر گزرتا لمحہ، جس میں وہ دُور بھاگ رہی تھی، اُس کی ماں کو غصّے سے اور بھی دیوانہ کیے دے رہا تھا۔ جس سمت میں پری بھاگ رہی تھی، اُسی سمت سے آپا صغراں نے دیکھا کہ اُن کا مالی آہستہ آہستہ بائیسکل چلاتا چلا آرہا تھا۔
پری اس کے پاس سے فراٹا بَھرتے گزری، تو وہ بھی رُک کے تماشا دیکھنے لگا۔ یوں کہ اس کا ایک پاؤں سائیکل کے پیڈل پہ رہا اورایک زمین پر۔ جیسے لوگ اکثر سائیکل پہ بیٹھے بیٹھے رُک جاتے ہیں۔ پری فراٹا بھرتی مالی کےپاس سے گزری اور کچھ دیر میں چیختی چلاّتی اُس کی ظالم ماں۔ ’’مالی تجھے نظر نہیں آتا؟ تماشا کیا دیکھ رہا ہے؟ پکڑکے لاپری کو۔‘‘ ’’کیہ ہویااےبیگم صاب؟ بی بی برقعہ لاہ کے گھروں نس رہی اے؟‘‘ ’’بکواس نہ کر۔ تیرا مونہہ توڑ دیاں گی۔ جا کے پھڑ کے لیا اوہنوں، سیکل تے جا۔‘‘
پری کتنا بھی بھاگتی… کہاں بھاگتی؟ مالی نے تیز تیز سائیکل چلائی اور پری کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔ وہ شُہدا پچاس سال کا آدمی سڑک پر کھڑے تماشا دیکھتے لوگوں کو اپنی رفتار دِکھا رہا تھا۔ پری سڑک سے پرے، نالے کے ساتھ ساتھ بھاگتی چلی جا رہی تھی۔
مالی اپنی طرف سے بڑی مہارت کے ساتھ چلتی سائیکل سے اُترکراس کی جانب بھاگا، حالاں کہ یہ کوئی ایسی مہارت کی بات نہ تھی، کیوں کہ مالی کے پاس لیڈیز سائیکل تھی، یعنی جس میں آگے گدی کے نیچے سے لے کر ہینڈل تک ڈنڈا نہیں لگا ہوتا۔ مَیں خُود، عاقب اور طلعت بھی، ہم لوگ توبڑی تیزی سے جینٹس سائیکل سے بھی اُترسکتے تھے۔ مالی کی لیڈیز سائیکل تھوڑی دُور چل کرنیچے گر گئی اور اُس کا پچھلا پہیا گھومنے لگا۔ ’’پری، مالی آ رہا ہے…مالی آ رہا ہے۔‘‘
فری، پری کو چیخ چیخ کربتانے لگی، مگر چند ہی سیکنڈ میں مالی نے پری کو جا لیا۔ ’’ایدھر لیا۔ ایدھر لے کے آ ایہنوں۔‘‘ آپا صغراں چلاّنے لگیں اور ساتھ ساتھ پری کی جانب بڑھنے بھی لگیں۔ سڑک پہ چلتے لوگ اب بالکل خاموشی سے کھڑے تھے کہ دیکھیں کیا دیکھنے کوملتا ہے۔ اُن میں بہت سے ماڈل ٹاؤن والے ہی تھے، اسکولوں کے بچے، ہم سائے، نوکر ووکر، جن میں سے کئی نے آپا صغراں اور اُن کی دو برقعہ پوش بیٹیوں کے بارے میں سُن بھی رکھا تھا۔
مالی پری کو بازو سے پکڑے ہوئے تھا اور ہلکا سا کھینچتا تھا کہ اُس کےساتھ چلے، مگر وہ ہلتی نہ تھی۔ مالی زور سے نہیں کھینچ رہا تھا، کیوں کہ شاید اُسے خدشہ تھا کہ اِس سے زیادہ زور لگانا غیرمناسب سمجھا جائےگا۔ اتنے میں آپا صغراں خُود ہی پری کے نزدیک پہنچ گئیں اور ہاتھ بڑھا کے اُس کے بالوں کو اپنی مُٹھی میں لے لیا۔ ’’چل گھر۔ ابھی تجھے بتاتی ہوں۔‘‘ اُنھوں نے بالوں سے ہی پری کو گھسیٹنا شروع کیا۔
پری نے اپنے پاؤں زمین پرجما دیئے، مگر آپاصغراں بڑی طاقت وَرتھیں۔ پری کو قدم اُٹھاتے ہی بنی۔ لیکن پھر دو تین قدموں کےبعد وہ زمین پر بیٹھ گئی۔ ’’مالی، بانہہ پھڑ کے کِھچ ایہنوں۔‘‘ اور پھر پری سے کہا۔ ’’تُو چل تو سہی گھر۔‘‘ فری نے دیکھا کہ پری پکڑی گئی تو وہ گھر کے اندر بھاگ گئی اور لان میں کھڑی ہو کر انتظار کرنے لگی۔ وہ خوف اور اندیشے سے کانپ رہی تھی، کیوں کہ ایسا ہول ناک واقعہ، آپا صغراں کے احکامات کا رد ہونا اور پری کی بےپردگی کے بھیانک مناظر پہلے کبھی اُس کے دیکھنے میں نہ آئے تھے۔ (جاری ہے)