پاکستان کی معاشی ناکامی مسلسل سیاسی عدم استحکام، کمزور سیاسی قیادت ، ناقص طرزِ حکمرانی اور وسیع پیمانے پر بدعنوانی کا نتیجہ ہے جس نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کیا ہے۔درآمدات پر حد سے زیادہ انحصار، محدود برآمدی بنیاداور صنعتی تنوع کو نظر انداز کرنے سےتجارتی خسارےکو برقرار رکھا گیاہے۔ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ حقیقی سماجی و معاشی ترقی تب ہی ممکن ہے جب جدت طرازی کو فروغ دیا جائے تاکہ ہمارا ملک اعلیٰ ٹیکنالوجی اور زیادہ قدر افزا مصنوعات تیار اور برآمد کر سکے۔ غیر ملکی امداداور قرضوں پر حد سے زیادہ انحصار نے ناقابلِ برداشت قرض کا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے، جبکہ ایف بی آر میں ٹیکس چوری اور بدعنوانی نے محصولات کی پیداوار کو محدود کر دیا ہے۔ترقی کیلئے تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری جب ہی ممکن ہوگی جب ہماری قیادت بصیرت انگیز اور بہترین ماہرین پر مشتمل ہواور جدت طرازی کو فروغ دے۔جنوبی کوریا ، چین ، فن لینڈ ، سنگاپور اور ویتنام جیسے ممالک کم آمدنی یا ترقی پذیر معیشتوں سے اعلیٰ تکنیکی طاقتوں میں منتقل ہوئے ہیں۔ جنوبی کوریا کی مثال لے لیں، 1950 کی دہائی میںاس غریب اور جنگ زدہ ملک سے دنیا کی 13ویں بڑی معیشت بننےکا سفر تحقیق و ترقی اور تعلیم میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری پر محیط ہے۔ 1960 کی دہائی میں جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی صرف 158 ڈالر تھی آج یہ36ہزار ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ سب تکنیکی تعلیم کو ترجیح دینے اور جامعات کے نصاب کو صنعتی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے سے ممکن ہوا۔ نجی شعبے ، خاص طور پرسام سنگ اور ایل جی جیسی کمپنیوں نے اس تبدیلی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ صرف سام سنگ الیکٹرانکس ، جسکی سالانہ آمدنی 230 ارب ڈالر سے زائد ہے، ہر سال تحقیق و ترقی پر 21 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ لگاتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نجی ادارے کس طرح قومی جدت طرازی کو فروغ دےسکتے ہیں۔ پاکستان میں نجی شعبے کی تحقیق و ترقی پر خرچ حکومت کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔
چین کی جدت طرازی پر مبنی معاشی ترقی شاید سب سے نمایاں مثال ہے۔ 2000 ءسے 2023 ءتک، چین نے تحقیق و ترقی پر اپنی مجموعی ترقیاتی آمدنی کا 0اعشاریہ 9فیصد سے بڑھا کر2اعشاریہ6 فیصد سے زیادہ کر دیا، جو سالانہ تقریباً 470 ارب ڈالر بنتے ہیں ۔یہ امریکہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا ملک ہےجو ریاستی پروگرامزجیسے ’’میڈ اِن چائنا 2025‘‘ اور سائنس و ٹیکنالوجی پارکوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے، اے آئی، 5G، نیم موصل اورسبز ٹیکنالوجی میں عالمی رہنما بن چکا ہے۔ اس کی اعلیٰ تکنیکی برآمدات اب سالانہ 940 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نجی شعبہ اسکا اہم محرک ہے۔اسکے برعکس، پاکستان ایک بالکل مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ نوجوان آبادی اور قدرتی وسائل کے باوجود، ہمارا ملک جدت کے تقریباً ہر اشاریے میں پیچھے ہے۔عالمی جدت طرازی اشاریے 2023کے مطابق پاکستان 132 ممالک میں سے 88ویں درجےپر تھا آج 2025 میں صورتحال مزید افسوسناک ہے ۔ پاکستان کا تحقیق و ترقی پر خرچ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے سوائے پاکستان کی ایک جامعہ میں۔ یہPak-Austria Fachhochschule یونیورسٹی ہے جو میں نے ہری پور ہزارہ میں خیبر پختونخوا حکومت کی مدد سے قائم کروائی،یہ باقی جامعات کیلئے ایک عمدہ مثال ہے ۔نجی شعبےکا پاکستان میں جدت کو فروغ دینے میں کردار بہت محدود ہے۔ تحقیق کیلئے 99 فیصد سے زیادہ فنڈنگ حکومت سے آتی ہے، جبکہ کاروباری ادارے روایتی کم خطرہ شعبوں جیسےکپڑا سازی، رئیل اسٹیٹ اور تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ نتیجتاً، پاکستان کی اعلیٰ تکنیکی برآمدات ہماری کل برآمدات کا ایک فیصد سے بھی کم ہیں، اور فی کس آمدنی تقریباً 1500 ڈالر پر کئی سال سےمنجمد ہے۔ مزید برآں، ملک شدید برین ڈرین کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے اور حکومت کو اس طرف فوری طور پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کیونکہ غربت کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں ۔ پاکستان کو ایک مسابقتی علم پر مبنی معیشت میں منتقلی کیلئے جرات مندانہ اور ہم آہنگ اصلاحات کی ضرورت ہے جوتہرے بلدار نمونےپر مبنی ہوں۔ اول، جامعات کو ازسرِنو ترتیب دیا جانا چاہیے تاکہ تحقیق ، کاروباریت اور صنعت سے تعاون کو ترجیح دی جائے۔ اساتذہ کو پیٹنٹس فائل کرنے، ابتدائی کمپنیاں بنانے اور نجی اداروں سے شراکت داری کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ جامعاتی درجات کو صرف تحقیقی اشاعتوں کے بجائےعالمی عملی اثرات سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔دوم، تحقیق و ترقی پر خرچ پانچ سال کے اندر جی ڈی پی کا کم از کم ایک فیصد بڑھایا جانا چاہیے۔ نجی کمپنیوں کو تحقیق پر سرمایہ کاری کرنے پر ٹیکس مراعات فراہم کی جائیں۔ ایک قومی جدت طرازی فنڈ کم از کم 500 ملین ڈالر کا قائم کیا جانا چاہیے تاکہ خاص ٹیکنالوجیاں جیسے کہ اے آئی ، قابل تجدید توانائی، بائیو ٹیکنالوجی اور جدید زراعت کو فروغ دیا جا سکے۔ عوامی خریداری پالیسیوں کو مقامی جدت اور نئے کاروباریوں کی معاونت کیلئے ترتیب دیاجانا چاہیے۔سوم، اور سب سے اہم، نجی شعبے کو جدت کے ماحولیاتی نظام میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان کے بڑے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی سالانہ آمدنی کا کم از کم 2 فیصد تحقیق و ترقی پر خرچ کریں، اور حکومت انہیں مشترکہ فنڈزفراہم کرے۔ بالکل بھارت کے ٹاٹا گروپ یا ریلائنس انڈسٹریز کی طرح، پاکستانی کمپنیوں کو طویل مدتی تکنیکی ترقی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے ۔
پاکستان کو بنیادی ڈھانچے کی جدت طرازی میں بھی سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ مخصوص اقتصادی مراکزکو مکمل ٹیکنالوجی ،جدت طرازی مراکزمیں توسیع دی جائے، جو تیز ترین انٹرنیٹ اور جدید ترین سہولیات سے لیس ہوں۔ صاف توانائی ، ادویاتی کمپنی اور غذائی تحفظ جیسے حکمت عملی شعبوں کو بھارت کی قومی منصوبہ جاتی مہمات کی طرز پر قائم کیا جانا چاہیے۔ ان سب تجاویز پر عمل کیلئے بین الاقوامی تعاون نہایت اہم ہوگا۔ پاکستان کو’’چار ستون شراکت داری‘‘ بنانی چاہئے جن میں پاکستانی صنعتیں اور جامعات، چینی صنعتوں اور جامعات کے ساتھ مل کر اعلیٰ تکنیکی، زیادہ قدر افزا مصنوعات تیار اور برآمد کریں۔ غیر ملکی پاکستانی ، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور خلیج میں موجود کاروباری افرادکو دعوت دی جانی چاہیے کہ وہ جدت طرازی فنڈزمیں سرمایہ کاری کریں اور تحقیقی منصوبوں پر تعاون کریں۔