• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک مرتبہ پھر مدینہ منورہ میں حاضر تھا، حاضری تھی یا پیشی اس میں تفریق مشکل سی لگ رہی تھی۔ اپنی ذات پر نگاہ ڈالتا تو محسوس ہوتا جیسے پیشی پر بلایا گیا ہوں اور جب انکے کرم کا تصور ذہن میں آتا تو لگتا جیسے ازن باریابی عطا کیا گیا ہو۔ دل میں ہزاروں سوالات جو بارگاہ رسالت کے تقدس کے باعث زبان پر آنے سے قاصر تھے تاہم ایک گونا اطمینان بھی تھا کہ وہ تو دل کی باتیں بھی جانتے ہیں۔روضہ اطہر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے سامنے کے مناظر دھندلا گئے بھلا یہاں آنسو کیسے رک سکتے ہیں۔کبھی یوں بیتابی بڑھ جاتی جیسے بچہ آغوش مادر کے لیے بے قرار ہوتا ہے اور کبھی قدم رک جاتے کہ یہاں پر تو جبرائیل کو بھی پر مارنے کی مجال نہیں،حضرت خواجہ غلام فخرالدین سیالوی کی یہ رباعی دل و دماغ پر راسخ تھی

باب جبریل کے پہلو میں ذرا دھیرے سے

فخر جبریل کو یوں کہتے ہوئے پایا گیا

اپنی پلکوں سے در یار پہ دستک دینا

اونچی آواز ہوئی عمر کا سرمایہ گیا

معلوم نہیں کب باب السلام سے گزرا،کیسے مواجہ شریف پہ حاضری ہوئی،باب بقیع کی جانب سے کھڑے ہوکر اپنے آقا و مولا کی بارگاہ میںعرضداشت پیش کرنا چاہی لیکن یہاں تو الفاظ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ جب انسان حرمِ مدینہ کی فضاؤں میں سانس لیتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دل کی گرد جھڑنے لگتی ہے، آنکھیں خود بخود بھیگ جاتی ہیں اور زبان پر بیساختہ درود و سلام جاری ہو جاتا ہے۔ یہ وہ دربار ہے جہاں الفاظ کم اور کیفیات زیادہ بولتی ہیں، جہاں حاجات عرض نہیں کی جاتیں بلکہ آنسو خود ہی ترجمان بن جاتے ہیں۔ بارگاہِ خیرالانام ﷺ میں پہنچ کر انسان اپنی کم مائیگی، اپنی خطائیں، اپنی بےبسی سب ایک ایک کر کے رکھ دیتا ہے اور پھر ایک عجیب سی طمانیت دل پر اترنے لگتی ہے کہ یہاں سے کوئی خالی نہیں جاتا۔

یہاں حاضری کے لمحے میں دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔ نگاہیں سبز گنبد پر ٹھہرتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں کی دوری سمٹ کر ایک لمحے میں بدل گئی ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں امت کا ہر دکھ ذاتی دکھ بن جاتا ہے، جہاں وطن کی فکر بھی عبادت بن جاتی ہے اور جہاں امتِ مسلمہ کی اجتماعی آہیں قبولیت کے دروازے کھول دیتی ہیں۔

یارسول اللّٰہ ﷺ! ہم آپ کے در پر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں، ہمارے پاس پیش کرنے کو کچھ نہیں سوائے ٹوٹے دلوں اور لرزتی آوازوں کے۔یارسول اللّٰہ ﷺ! وطنِ عزیز آج جن حالات سے گزر رہا ہے وہ آپ سے ڈھکے چھپے نہیں۔ معاشی تنگی ہو یا سماجی بےچینی، اخلاقی زوال ہو یا فکری انتشار، ہر طرف سوال ہی سوال ہیں۔ نوجوانوں کے چہروں پر امید کی جگہ تشویش نے لے لی ہے، آنکھوں میں خواب ہیں مگر راستے دھندلے ہو چکے ہیں۔ وہ نسل جس کے کندھوں پر قوم کا مستقبل رکھا جانا تھا، آج مایوسی کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہے۔ یارسول اللّٰہ ﷺ! اپنے کرم سے ان کے سینے ٹھنڈے فرما دیجئے، ان کے دلوں میں یقین کی شمع دوبارہ روشن کر دیجئے۔

یہ نوجوان جب ملک چھوڑنے کی بات کرتے ہیں تو دراصل وہ سہولت نہیں، عزت اور اطمینان کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ان کے دل میں بھی اس مٹی کی محبت ہے، مگر حالات نے انہیں بیقرار کر دیا ہے۔ یارسول اللّٰہ ﷺ! آپ جنہوں نے صبر، امید اور جدوجہد کا درس دیا، آج اسی درس کی اس امت کو پھر سے ضرورت ہے۔ اللّٰہ ہمارے نوجوانوں کو ہمت عطا فرمائے، انہیں حلال روزی کے مواقع، صاف راستے اور سچی قیادت نصیب ہو

یارسول اللّٰہ ﷺ! یہ وطن آپ کے امتیوں کی امانت ہے۔ اس کی فضاؤں میں اذانیں گونجتی ہیں، اس کی مساجد میں سجدے ہوتے ہیں،یہاں کے میناروں سے درود و سلام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔اس کی مٹی میں شہیدوں کا لہو شامل ہے۔ اس وطن کی خیر کیلئے دعافرما دیجئےکہ اللّٰہ اسے امن کا گہوارہ بنا دے، یہاں عدل رائج ہوجائے اور ناانصافی مٹ جائے۔ حکمرانوں کو امانت و دیانت کا شعور عطا ہو، فیصلوں میں خیرِ امت کو مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمادے۔

بارگاہِ رسالت ﷺ میں کھڑے ہو کر جب امتِ مسلمہ کا تصور ذہن میں آتا ہے تو دل مزید بوجھل ہو جاتا ہے۔ کہیں فلسطین کی جلتی بستیاں ہیں، کہیں کشمیر کی سسکتی وادیاں، کہیں شام اور یمن کے زخمی وجود، کہیں افریقہ کے بھوکے بچے۔ یارسول اللّٰہ ﷺ! آپ کی امت زخموں سے چور ہے، ہر طرف آہ و فغاں ہے۔ آپ کے در پر یہی استغاثہ ہے کہ عالمِ اسلام کی خیر ہو، اتحاد کی دولت نصیب ہو، دلوں کی دوریاں مٹ جائیں۔

ہم نے فرقوں میں بٹ کر، مفادات میں الجھ کر، آپ کے اسوہ حسنہ سے دوری اختیار کر لی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہم تعداد میں بہت ہیں مگر اثر میں کمزور۔ یارسول اللّٰہ ﷺ! ہمیں پھر سے ایک امت بنا دیجئے، قرآن کو ہماری زندگی کا مرکز بنا دیجئے، آپ کی سنت کو ہمارے کردار میں اتار دیجئے۔ ہمارے قول و فعل میں وہی ہم آہنگی پیدا کر دیجئے جو مدینہ کی ریاست کا حسن تھی۔

بارگاہِ خیرالانام ﷺاللّٰہ میں یہ بھی عرض ہے کہ ہمارے گھروں میں سکون عطا فرما، ہمارے معاشرے میں حیا اور دیانت لوٹا دے، ہماری درسگاہوں کو علم و اخلاق کا گہوارہ بنا دے۔ والدین اور اولاد کے رشتوں میں محبت پیدا کر دے، استاد کا احترام اور شاگرد کو حصول علم کا شوق عطا فرما۔ میڈیا، منبر اور محراب سب کو خیر کے پیغام کا ذریعہ بنا دے۔

یارسول اللّٰہ ﷺ! ہمیں اپنی شفاعت کے سائے میں لے لیجئے، ہماری لغزشوں پر پردہ ڈال دیجئے، ہمیں اپنے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما دیجئے۔

یارسول اللّٰہ ﷺ! ہمارے وطن کی خیر ہو، ہمارے نوجوانوں کی خیر ہو، ہمارے بزرگوں کی عزت سلامت رہے، ہماری آنے والی نسلیں دین اور دنیا دونوں میں سرخرو ہوں۔ عالمِ اسلام کی خیر ہو، انسانیت کو امن نصیب ہو، اور آپ ﷺ کے نام کی روشنی سے اندھیروں کا خاتمہ ہو۔ آمین۔

تازہ ترین