• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض حمید صاحب کے خلاف پہلا فیصلہ آگیا! یقیناً خوش آئند ہے، قوم کی بلآخر امید بندھی کہ اب جو انصاف کا چرخہ چل پڑا ہے تو چلتا رہے گا۔ 78 سال سے فوج پر الزام تھا کہ اپنے لوگوں کا احتساب نہیں کرتی اور انہیں ماورائے قانون تصور کرتی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد واضح کر دیا تھا کہ وہ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ(سخت گیر) بنانے پر یقین رکھتے ہیں یعنی کسی ملک دشمن سرگرمی یا وطن فروشی پر نرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔گزشتہ تین سالوں میں انہوں نے اپنے ہر قول و فعل سے ناقدین کی تنقید کو بار بار غلط ثابت کیا ہے۔ فیض حمید صاحب نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور کرتے رہے۔ انہیں تنبیہ کی گئی، بار بار سمجھایا گیا لیکن وہ باز نہ آئے۔ ہر قسم کے احتساب یا پکڑ سے بےنیاز و بے خوف، اپنی غیر قانونی کارروائیاں جاری رکھیں۔ جس پر زور چلا ظلم ڈھایا، جس کی مالی حیثیت مستحکم پائی بھتہ وصول کیا، سیاست دانوں و اہم شخصیات کو ان کی کمزوریوں پر بلیک میل سے من مرضی کے مفادات حاصل کیے۔ قیمتی اراضیاں ہتھیا لیں، لوگوں کی عزتوں، مال و دولت اور ہر قیمتی شے پر اپنا حق جتایا۔ حتیٰ کہ اپنے ادارے یعنی فوج اور فوجیوں کے خاندان بھی ان کے شر سے محفوظ نہ رہے۔ فوج نے اپنے ایک انتہائی سینیئر افسر کا کورٹ مارشل کر کے اپنا داغ دھو ڈالا ہے۔درحقیقت فوج کے اندر کڑا احتسابی عمل مسلسل جاری رہتا ہے جس سےمتعلق معلومات ادارہ عوام کو بوجوہ نہیں دیتا۔ چونکہ فیض حمید صاحب کا جرم سول سے متعلق تھا چنانچہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ایماء پر عوام کو اعتماد میں لیا گیا۔ ایک سینیئر صحافی سمیت بہت سوں کا تقاضا تھا کہ سیاست دانوں کا احتساب تو ہوتا رہتا ہے اب کسی جنرل کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔ بڑی عجیب فرمائش تھی کہ جیسے ہر صورت حساب برابر کرنا ہوگا ورنہ ہم نہ مانیں گے کہ انصاف ہو رہا ہے۔ تو جناب لیجئے ہو گیا انصاف! آپ کی خواہش کے عین مطابق۔تاہم اب لوگ یہ بھی تقاضا کر رہے ہیں کہ ریاست کے باقی ستون یعنی عدلیہ، صحافت، بیوروکرسی کا بھی ایسے ہی کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ ان کا بھی جو انصاف کی کرسی پہ بیٹھ کر ملکی سالمیت

کے خلاف بے دریغ نا انصافی پر مبنی فیصلے صادر کرتے رہے اور لوگوں کی تقدیروں سے کھیلتے رہے۔ان کے خلاف بھی جو صحافت جیسے مقدس پیشے سے منسلک ہو کر جھوٹے پراپیگنڈے کرتے، عوام میں بدگمانی و شر پھیلاتے رہے۔ ان کا بھی جو ویسے تو نوکر شاہی کہلاتے ہیں لیکن ذاتی مفادات کے لیے اغیار کے نوکر بن جاتےہیں جبکہ اپنے عوام پر بادشاہ بنے تکبر کے پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں۔ غیر ملکی شہریت لینے کی خاطر ان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ ذاتی مفادات اور سہولیات کے لیے قوم کے مستقبل تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں غرضیکہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے! شروع کریں تو کہاں سے؟

حکومتی اعلیٰ عہدیدار پریس کانفرسیں کر رہےہیں، بیانات دیے جا رہے ہیں کہ فلاں کا احتساب ہونا چاہیے اور فلاں کا بھی۔ جیسے احتساب کرنا فوج کی ذمہ داری ہو۔ ان پریس کانفرنسوں کے پیچھے چھپے اشارے پیغام دیتے ہیں کہ ہم مجبور تھے اور اب بھی ہیں، ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں،ہم خود کچھ نہیں کر سکتے۔ سوال ہے کہ آپ کی کیا مجبوری یا کمزوری ہے کہ آپ غلط کاروں کا احتساب نہیں کر سکتے؟ آپ کے ایسے کون سے مفادات کو زک پہنچے گا اگر بے دریغ احتساب ہوا؟ کیوں فوج کے سر یہ ذمہ داری منڈھنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر حکومتِ وقت نےکڑے احتساب کا بیڑا اٹھا لیا تو ان کے اندر چھپی کالی بھیڑیں بھی زد میں آئیں گی۔ وہ تو اپنا احتساب کرنا ہی نہیں چاہتے! افواج ِپاکستان کے پاس ان

کے احتساب کرنےکا کوئی طریقۂ کارہےنہ اختیار ۔ فوج صرف اپنے فوجی یا فوج کے خلاف کارروائی کرنے والوں کا ٹرائل کر سکتی ہے لہٰذا نام لیے بِنا فوج سے احتساب کا تقاضا دراصل قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ آج ہماری عدلیہ انصاف کی فراہمی پر دنیا کے پسماندہ ترین ممالک سے بھی نچلے درجے پر آتی ہے، فراہمیٔ انصاف میں بے جا تاخیر، دوہرا معیار، مالی منفعت یا اثر و رسوخ کی بِنا پر دیے گئے نا انصافی پر مبنی فیصلوں کے باعث نظامِ انصاف پر عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ کرپشن کے انڈیکس پر بھی پاکستان نچلی ترین سطح پر ہے۔ بدعنوانی کی بلند ترؤین شرح کے باعث ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح و بہبود پر اٹھنے والے اخراجات کا عوام تک عشر ِعشیر بھی نہیں پہنچتا جبکہ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کے فنڈز تو حکومتی عہدیداروں کے اللّے تللّوں اور بھاری بھرکم مشاہروں کے نظر ہو جاتے ہیں۔ قومی خزانے سے لوٹ مار، اس کا بے جا و بے دریغ استعمال کرنے والوں کا احتساب بھی کرنا ہوگا۔ سب کو جوابدہ ہونا ہوگا بصورتِ دیگر زوال اور پستی کا یہ سفر ہمیں ہر دم نیچے ہی لیتا جائے گا۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر کے اس جرأت مندانہ اور بے باک اقدام سے بندکھل گئے ہیں ، احتساب کا یہ احسن قدم کسی بھی مصلحت کے نام پر رکنا نہیں چاہیے۔ 78 سال سے مایوس و بد دل عوام میں پہلی دفعہ اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالبؓ فرماتے ہیں" لوگ ظلم پر تو صبر کر سکتے ہیںاللّٰہ، لیکن انصاف کے خلاف (یا انصاف کے

نظام میں بے انصافی پر) صبر نہیں کر سکتے۔" نہج البلاغہ خط نمبر 146۔ یعنی اگر حکومت ظلم کرے تو عوام اسے کچھ وقت برداشت کر لیتی ہے، لیکن اگر انصاف کا نظام ہی ناانصافی کرنے لگے (مثلاً قاضی ناانصافی کرے) تو معاشرہ بے چینی اور بغاوت پر اتر آتا ہے۔ یہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل اور مصلحت کوشی کو پسِ پشت ڈال کر ،پاکستان کے تالاب پر ناانصافی اور بدعنوانی کی جمی کائی کو ہٹائے۔تبھی کسی چھوٹی مچھلی کا پانی سے سر باہر نکال کر سانس لینا ممکن ہوگا وگرنہ مفاہمتوں،مصلحتوں کی جمی کائی کی تہہ مزید دَبیز ہوتی جائے گی۔ پاکستان اُمتِ محمدیؐ پر اللّٰہ تعالیٰ کا ایک بڑا احسان ہے۔ وطنِ عزیز اسلام کا ناقابلِ تسخیر قلعہ ہے کہ اس کی تقدیر میں اُمتِ مسلمہ کی راہنمائی اور راہبری لکھی ہے۔ دنیا میں اس کا مقام اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے بہت اونچا ہے۔بس ہمیں اپنی صلاحیتوں و قابلیت کا صحیح ادراک کرنے اور کرپشن، ظلم، لاقانونیت، نا انصافی، حق تلفی، اختیارات کے ناجائز استعمال پر، خلاف ورزی کرنے والوں کا کڑا احتساب کرنا ہوگا۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ریاست ِپاکستان کے اس خطِ پرواز میں کوئی خلل نہ پیدا ہو۔ جیسا کہ علامہ اقبال ؒ نے فرمایا: تقدیر کا باریک بھید ایک حرف ميں مضمر ہے یعنی یہ کہ اگر تو بدل جائے تو تقدیر بدل جاتی ہے۔

رمز باریکش بحرفے مضمر است

تو اگر دیگر شوی او دیگر است

تازہ ترین