• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز سے وابستہ امور اس رفتار سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں کہ اگر انکے حوالے سے لمحہ بھر کی دیر یا بھول چوک ہو گئی تو اسکے اثرات بہت عرصے تک محسوس ہوتے رہیںگے ۔ اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ پاکستان کو درپیش مسائل میں کابل کو پر سکون رکھنا چند اہم ترین معاملات میں سےایک ہے مگر حالیہ کچھ عرصے کے متواتر واقعات نے امید کے چراغوں کو مدہم کر دیا ہےتاہم اس دوران ہی یہ خبر آئی ہے کہ افغان طالبان کے وزیر تجارت نور الدین عزیزی نے ای سی او کی استنبول کانفرنس میں اگلی وزارتی سطح کی ای سی اوکانفرنس کے کابل میں منعقد ہونے کا انکشاف کیا ہے ، ای سی او پاکستان سمیت دس ممالک جن میں وسطی ایشیائی ممالک اور ایران، افغانستان اور ترکی بھی شامل ہیں کی ایک تنظیم ہے ، آر سی ڈی کی جانشین ہے اور یہ رکن ممالک کے درمیان باہمی تجارتی اشتراک کے حوالے سے دس سالہ پروگرام 2026-2035 پیش کرنے پر کام کر رہی ہے ۔ ان حالات میں اگر کابل میں وزارتی سطح کا اجلاس منعقد ہو جاتا ہے اور حال ہی میں کابل میں افغان علما کے اس اجلاس کو ذہن میں لائیں جنہوں نے افغانستان کے باہر حملوں کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا ہے تو یہ واضح طور پر سامنے آئیگا کہ افغان طالبان کے کچھ حلقوں میں یہ سوچ موجود ہےکہ پاکستان سے لڑائی جھگڑے کی کیفیت کو برقرار رکھنا افغان طالبان کے اپنے مفاد میں بھی نہیں اور باہمی تجارت کو علاقائی اتحاد یا تنظیم کے زیر سایہ مضبوط کرنے میں ہی عافیت ہے۔ ای سی او میں افغانستان کوئی کامیابی اس وقت تک سرے سے حاصل ہی نہیں کر سکتا ہے جب تک اسکے تعلقات پاکستان سے معمول کے مطابق نہیں ہو جاتے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان سے معمول کے تعلقات کیلئے افغان طالبان حقیقی معنوں میں کوئی کوشش بھی کریں گے یا نہیں تو اس وقت تک انکی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ معاملات کو صرف چلانے پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں اور اس وقت پاکستان کیلئے صرف زبانی جمع خرچ کافی نہیں۔ اور یہ بات کہ زبانی جمع خرچ سے معاملہ آگے کا ہونا چاہئے جو کہ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، دنیا بھی دیکھ رہی ہے۔ اس سبب سے ہی کرغزستان کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان میں یہ خبر زبان زد عام رہی کہ انہوں نے پاکستانی حکام سے قواڈرائیلیٹرل ٹریفک ان ٹرانزٹ ایگریمنٹ جو انیس سو پچانوے میں پاکستان چین قازقستان تاجکستان کرغزستان کے مابین کیا گیا تھا، ازبکستان بھی اس کا حامی تھا اور اس میں ایک کاریڈور کے قیام پر بات ہوئی تھی جو افغانستان کو ترک کرتے ہوئے متبادل کاریڈور کا منصوبہ ہے، جس میں پاکستانی بندر گاہوں کو چین اور وسطی ایشیا سے ملانا تھا، کو دوبارہ متحرک کرنے پر زور دیا ہے کیونکہ دنیا بھر میں ایک تصور یہ مضبوط ہو رہا ہے کہ افغانستان میں بے یقینی ہر وقت ہی رہے گی اور امریکہ کے تازہ سیکورٹی ڈاکٹرائن میں افغانستان کانہ ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ علاقائی ممالک کو ہی یہاں امن کیلئے کردار ادا کرنا ہے جو انتہائی مشکل امر ہے۔ پاکستان کے مفادات جہاں پر علاقائی تجارت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہی پر اس وقت پاکستان کیلئے یورپ سے تجارت کو موجودہ حالات کے مطابق برقرار رکھنا بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستان کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دیا ہوا ہے اور اسکی بدولت پاکستان دس ارب ڈالر کی اشیا کی برآمدات یورپ کو کر رہا ہے ۔ یہ اسٹیٹس 2027 تک ہے اور اس کو جاری رکھنے کیلئے یورپی یونین کے ایک جائزہ وفد نے پاکستان کا دورہ کیا ۔ میں جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے اپنی مقدور بھر کوششیں کرتا رہا تھا اور اس سلسلے میں جرمن پارلیمنٹ کی جنوبی ایشیا کمیٹی سے خطاب بھی کیا تھا جبکہ برسلز ، ایمسٹرڈیم ، پیرس میں بھی اس سے ملتی جلتی سرگرمیاں کی تھیں ۔ اس وجہ سے اس جائزہ مشن کے ایک صاحب سے رابطہ تھا۔ ہمارے ہاں یہ تصور ہے کہ یورپی یونین جی ایس پی پلس اسٹیٹس کو صرف مخصوص قوانین میں ترميم کے تحت دیکھ رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین میں اس بات کی سمجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے کہ پاکستان کا ان قوانین کے حوالے سے ایک مؤقف ہے اور یہ قوانین ختم یا تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ وہ اب صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان قوانین کا استعمال منصفانہ ہونا چاہئے اور غیر مسلم پاکستانیوں کو اس حوالے سے ناجائز ہراساں نہ کیا جائے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ پاکستان کے حکام سے ملے تو انہوں نے محسوس کیا کہ وزرا تک کی سطح پر ملاقات کے حوالے سے تیاری موجود نہیں تھی ۔ ایسا تصور قائم ہونا جی ایس پی پلس کو بچانے کیلئے کی جانیوالی کوششوں کیلئے دھچکے کا باعث ہوگا۔ وزیر اعظم کو اس حوالے سے تمام امور پر خود گہری نگاہ رکھنی چاہئے۔ اور نہ صرف جی ایس پی پلس بلکہ علاقائی تجارتی تعلقات اور انکے ذریعے سفارتی و سلامتی کے امور کو طے کرنے کی پاکستانی صلاحیت کا بھر پور استعمال کرنا چاہئے کیونکہ معاشی خوشحالی ہی قومی کامیابی کی کنجی ہے۔

تازہ ترین