• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں متحدہ عرب امارات کا نجی دورہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ چکا ہوں،لیکن ہر مرتبہ کی طرح میری واپسی مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ میں نے اپنے چند روزہ قیام کے دوران مشاہدہ کیا کہ چند دہائیوں قبل کا پسماندہ صحراآج ڈیجیٹل دور میں داخل ہو چکا ہے، امارات کی ترقی و خوشحالی، بہترین شہری سہولیات کی فراہمی،موثر فیصلہ سازی، حکومتی نفاذ اور معلومات کی بروقت ترسیل میں جدیدڈیجیٹل کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے۔مغربی ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پرگامزن اماراتی حکام اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ حکومتی اداروںمیں کاغذی فائلوں، روایتی دفتری طریقہ کار اور غیر ضروری اجلاسوں پر انحصار نہ صرف وقت اور وسائل کا ضیاع ہے بلکہ شفافیت، کارکردگی اور گُڈگورننس کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ بھی ہے، امارات کے روزمرہ کے امور میں بھی مصنوعی ذہانت (اے آئی)کا تیزی سے بڑھتا استعمال دیکھا جاسکتا ہے۔کم و بیش ایسی ہی متاثرکُن صورتحال کا مشاہدہ میں نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران کیا ،سپرپاور امریکہ گزشتہ نئی صدی کے آغاز سے ڈیجیٹل نظام کے تحت پیپرلیس آفس اور آن لائن میٹنگز کو پروان چڑھانے کیلئے آگے آگے ہے،آج امریکہ میں حکومتی سطح پر بیشتر فائلنگ، پالیسی ڈرافٹنگ، مشاورت اور منظوری کا عمل آن لائن انجام دیا جاتا ہے، امریکی محکموں میں ای ریکارڈز، ڈیجیٹل دستخط اور آن لائن ڈیٹا بیس معمول کا حصہ ہیں جبکہ ویڈیو کانفرنسنگ کو حکومتی نظام کا مستقل جزو بنا دیا گیا ہے، عالمی وبا کورونا کے دوران امریکی کابینہ، کانگریس اور اعلیٰ سرکاری اداروں نے کامیابی کے ساتھ آن لائن اجلاس منعقد کیے، جسکے بعد پیپرلیس طریقہ کار کو ریاستی پالیسی کا مستقل حصہ بنا لیا گیا،آج وائٹ ہاؤس، پینٹاگون، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور دیگر وفاقی ادارے نہ صرف اندرونی اجلاس آن لائن منعقد کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سفارتی مشاورت کیلئے بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال کررہےہیں، ہر ڈیجیٹل کارروائی کے ریکارڈ کی حفاظت یقینی بنائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف انتظامی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ قانونی سطح پر شفافیت بھی برقرار رہتی ہے۔ پیپرلیس آفس کے حوالے سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین میں بھی آن لائن اجلاس اور ویڈیو کانفرنسنگ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ڈیجیٹل گورننس کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپناتے ہوئے مرکزی حکومت سے لے کر صوبائی اور ضلعی سطح تک پالیسی اجلاس، ترقیاتی منصوبوں کے جائزے اور ہنگامی میٹنگز ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منعقد کی جاتی ہیں، جس سے وقت اور وسائل کی بڑی بچت ممکن ہوئی ہے،چینی ماڈل کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ڈیجیٹل گورننس کو سرکاری عہدے داران کی کارکردگی کی نگرانی (پرفارمنس مانیٹرنگ)سے جوڑ دیا گیا ہے۔اگر ہم اپنے خطے پر نظر ڈالیں تو ہمارے پڑوسی نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کے تحت سرکاری ای فائلنگ، ای نوٹنگ اور ڈیجیٹل دستخط کو سرکاری نظم و ضبط کا حصہ بنا دیا ہے، ایشائی ٹائیگرسنگاپور میںآن لائن اجلاسوں کو اولین ترجیح دی جاتی ہے جبکہ وہاں فزیکل میٹنگ کا انعقادآخری آپشن ہے۔یورپی ملک ایستونیاکو ڈیجیٹل گُڈ گورننس کا عالمی رول ماڈل سمجھا جاتا ہے جہاں کابینہ کے فیصلے بھی ڈیجیٹل دستخطوں کے ذریعے ہوتے ہیں،برطانیہ میںڈیجیٹل بائی ڈیفالٹ پالیسی کے ذریعے پیپر لیس آفس کا نظام کامیابی سے جاری ہے،اسی طرح اقوامِ متحدہ ڈیجیٹل ڈاکیومنٹس اور ورچوئل اجلاسوں کے ذریعے اپنی اہمیت منوا رہا ہے، یو این نے تو پیپر لیس نظام کو ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی ایس ڈی جیز کے اہداف سے بھی جوڑ رکھا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے پچیس سال مکمل کرلینے کے بعد دنیا اس وقت ڈیجیٹل انقلاب کے ایک ایسےفیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جہاں ریاستوں کی کارکردگی کا معیار اب حکمرانی کی رفتار، شفافیت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت سے جانچا جائے گا۔بدقسمتی سے ہمارے ملک کے سرکاری دفاتر میں انگریز سامراج کی یادگارفائل کلچر آج بھی ایک تلخ حقیقت ہے،یہ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہر بیوروکریٹ کے دفتر میں فائلوں کا انبار لگا ہوتا ہے، پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بھی سرکاری افسران بھاری فائلوں کا پلندہ لیکر بریفنگ میں آتے ہیں، ممبران پارلیمان کو سرکاری طور پر آئی پیڈ بھی فراہم کیے گئے لیکن پھر بھی کاغذوں سے جان نہیں چھوٹ سکی ،سرکاری اجلاسوں میں شرکت کیلئے آنے والوں کا سفرمع اسٹاف، پروٹوکول، ٹی اے ڈی اے، رہائش اور سیکورٹی انتظامات قومی خزانے پربھاری بوجھ ڈالنے کا باعث بنتاہےجبکہ انکی اپنے دفاتر میں غیرموجودگی بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو متاثرکرتی ہے۔سرکاری محکموں میں ایک معمولی سمری موو کرنے میں مہینوں بیت جاتے ہیں، فائل کئی میزوں سے گزرتی ہے، دستخطوں کے انتظار میںبیس سے پچیس دن ضائع ہو جاتے ہیں، کبھی صاحب بہادر چھٹی پر ہوتے ہیں اور کبھی کلرک شاہی کی طرف سے تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہے، میٹنگ میں مصروفیت کے بہانے سننے کو ملتے ہیں، فائلوں کو پہیہ لگانے کی باتیں زبان زدعام ہیں اور یوں عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جاتے ہیں ۔میری نظر میں آج کے تیزرفتاردور میں پاکستان کے موجودہ دفتری نظام میں نہ رفتار ہے، نہ شفافیت اور نہ ہی جواب دہی، ایسے حالات میںبطور محب وطن پاکستانی میرے ذہن میں ایک ہی سوال گونجتا ہے کہ کیا پاکستان اکیسویں صدی میں انیسویں صدی کے دفتری نظام کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکتا ہے؟آج دنیا اہم ریاستی امور پرسیکنڈوں میں فیصلہ کرکے نفاذ بھی کردیتی ہے جبکہ پاکستان میں فائلیں مہینوں تعطل کا شکار رہتی ہیں اور اہم ایشوز پر اجلاس پر اجلاس طلب کیےجاتے رہتے ہیں جو زیادہ تر بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں۔ میری نظر میں پیپرلیس آفس صرف کاغذ کی بچت نہیں بلکہ یہ ڈیجیٹل طریقہ کار گُڈ گورننس کو یقینی بناتا ہے جبکہ روائتی فائل کلچر کرپشن ،رشوت خوری، سفارش، تعصب، سست روی اور ذمہ داری سے فرار کا ذریعہ ہے،پیپر لیس آفس کا ایک اور اہم مثبت پہلو ماحولیاتی تحفظ بھی ہے۔ اگرہم اپنے پیارے وطن کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیںروایتی دفتری طریقہ کار کو خیرباد کہہ کر ڈیجیٹل گورننس کو اپنانا ہوگا، وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ارباب ِ اختیار پیپرلیس آفس کا عملی نفاذ کرکے بہترین شہری سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں اور بھاری ٹیکسوں سے پریشان عوام کو بھی سرکاری افسرشاہی کے غیرضروری سفری اخراجات کے بوجھ سے نجات دلائیں بصورت دیگرسرکاری فائلوں کے بوجھ تلے دبا دقیانوسی دفتری نظام نہ صرف حکومتی کارکردگی کو مفلوج رکھے گا بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی فرسودہ ریاستی ڈھانچے کا وارث بنا دے گا۔

تازہ ترین