• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کے معروف ما ہرِ معاشیات تھامس میلتھس نے 1798ء میں بڑھتی آبادی کے بارے میں نظریہ دیتے ہوئے کہا کہ آبادی، زراعت کی پیداوار کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھتی ہے یعنی جب آبادی وسائل سے بڑھ جاتی ہے تو قدرتی طور پر قحط، بیماریاں، وبائی امراض اور جنگ و جدل جیسے عوامل پیدا ہوتے ہیں۔ اسکی روک تھام کیلئے انہوں نے شادی میں تاخیر اور کم بچے پیدا کرنے کی تجویز دی تھی گوکہ جدید ترقی نے اس نظریے کے کئی پہلوؤں کو غلط ثابت کیا ہے لیکن اسکے باوجود سماجی شعور کے ذریعے یورپ نے اپنی آبادی کو کنٹرول میں کر رکھا ہے اسی طرح جاپان نے 1951ء سے 1958ء کے درمیان اپنی آبادی کی شرح نمو50فیصد کم کر لی جس کے بعد جنوبی کوریا، تائیوان، چین، تھائی لینڈ اور ویتنام نے بھی اپنی شرح نمو میں نمایاں کمی کی، لیکن افغانستان، ایتھوپیا، عراق، نائجیریا، پاکستان اور یمن اس شرح نمو کو کم کرنے میں ناکام رہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی 1974ء میں2.46فیصد کی شرح نمو سے بڑھ رہی تھی لیکن پھر حکومت نے ایک موثر مہم شروع کی اور مذہبی رہنماؤں کے تعاون سے اسے 1.37فیصد کی سطح تک لے آئی۔1980ء کی دہائی میں عراق سے جنگ کے دوران ایران کی سالانہ آبادی کی شرح نمو 4.2فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر حکومت نے قومی خاندانی منصوبہ بندی کا قانون پاس کیا جس میں ایران کی براڈ کاسٹنگ نے ٹیلی ویژن کے زریعے آبادی میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونیوالے مسائل اور خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کی مذہبی رہنماؤں کے ذریعے ترویج کی۔ جس سے نہ صرف چھوٹے خاندانوں کیلئے راہ ہموار ہوئی بلکہ خواتین کی خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا، یہ شرح 1970ء میں 25فیصد تھی جو 2000ء میں 70 تک پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی اسکول میں داخلے کی شرح 60فیصد سے بڑھ کر 90فیصد تک ہو گئی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زیادہ تعلیم یافتہ خواتین عام طور پر کم بچے پیدا کرتی ہیں، یوں انکی تعلیم پر ریاست کی سرمایہ کاری نے دراصل سماجی شعور میں اضافہ کیاجس سے آبادی میں کمی واقع ہوئی۔ پاکستان میں منعقدہ ایک حالیہ کانفرنس میں بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ آبادی کی موجودہ شرح نمو کی بنیاد پر پاکستان مسلسل ترقی نہیں کر سکتا۔ آج ہماری آبادی 24کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ 2050ء تک یہ 33 کروڑ ہو جائیگی۔ پاکستان میں ہر سال 45لاکھ بچے پیدا ہو رہے ہیں جن کیلئے ہسپتالوں میں بستروں، ادویات اور ماہر عملے کی کمی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ تقریبا 2کروڑ30لاکھ بچے اسکول جانے سے بھی قاصر ہیں اور یہ تعداد دنیا بھر میں تعلیم سے محروم بچوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ آبادی میں اس تشویش ناک اضافے کی وجہ سے دیہات سے لوگ شہروں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں جسکی وجہ سے شہر بغیر مناسب منصوبہ بندی کے پھیل رہے ہیں۔ جس سے غیر محفوظ رہائش، ٹریفک کی بڑھتی ہوئی مشکلات اور ناقص صفائی کا نظام فروغ پا رہا ہے اور پانی کی قلت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے آج پاکستان کے 64فیصد شہری 30سال سے کم عمر ہیں اور ریاست انہیں نوکریاں بھی فراہم نہیں کر پارہی،کیونکہ متعدد کمپنیاں مکمل طور پر بند یا جزوی بندش کا شکار ہیں جسکی بڑی وجہ بجلی، گیس اور خام مال کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ آج ملک میں ساٹھ سے زیادہ سپننگ ملز، پچیس فیصد اسٹیل یونٹس اورسینکڑوں ویونگ یونٹس مکمل یا جزوی طور پر بند پڑے ہیں۔ ان میں فیصل آباد کی پاور لومز فیکٹریاں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ انکی پیداواری لاگت میں چالیس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان فیکٹریوں کی بندش سے بینکوں کے ڈیفالٹ ہونے، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح7فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح پچیس فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں فقیروں کی تعداد اسی لاکھ ہے جو دنیا میں سب سے بڑی تعداد ہے جن کو سعودیہ اور گلف ممالک میں بھیک کی غرض سےا سمگل بھی کیا جارہا ہے۔ آبادی کے بارے میں ہونیوالی کانفرنس میں بتایا گیا کہ ہماری صحت، تعلیم، آبادی کنٹرول کرنے اور فلاح و بہبود کے ادارے الگ الگ سمتوں میں کام کر رہے ہیں، مواقع ضائع ہو رہے ہیں اور ایک ہی کام کئی اداروں میں دہرایا جا رہا ہے جس سے ریاست اور سماج کے درمیان رشتہ مزید کمزور ہو رہا ہے۔ خواتین کو خاص طور پر دیہی علاقوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی حاصل نہیں جسکی وجہ سے فی عورت تین سے زائد بچے پیدا کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں آبادی کم کرنے کی کوئی بھی تحریک خواتین کو مرکزی حیثیت دئیے بغیرکامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں اور تعلیم،غذائیت، روزگار اور معاشی مواقع کے حصول میں بہت پیچھے ہیں۔ یہ عدم مساوات مذہبی تعلیمات کے بھی منافی ہے جو خواتین کو بلند و باعزت مقام عطا کرتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی قومی پالیسیوں میں خاندانی منصوبہ بندی تک وسیع رسائی، مضبوط بنیادی صحت کی دیکھ بھال، لڑکیوں کی تعلیم میں زیادہ سرمایہ کاری اور خواتین کی ورک فورس میں زیادہ شمولیت کو یقینی بنائیں کیونکہ پاکستان میں ہر پچاس منٹ میں ایک عورت زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے موت کی آغوش میں جا رہی ہے۔

آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آبادی کی اس تشویش ناک حد تک بڑھوتری کو صرف اعداد و شمار تک مقید نہ کیا جائے۔ریاست عوامی رائے کی تشکیل کے ذریعے آبادی اور وسائل کے درمیان ایک پائیدار توازن پیدا کرے۔ اس سلسلے میں ریاستی ادارے، پاکستانی سماج کو مذہبی رہنماؤں کی بھرپور مدد فراہم کریں جو اپنے منصب اور ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے زندگی کی حرمت اور ولادت کے درمیانی وقفے کی اہمیت کو میڈیا کے ذریعے اجاگر کریں۔ یوں اگر دانشوروں، مذہبی رہنماؤں اور ریاستی اداروں نے شعور ی طور پر یکجان ہو کر بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کرنے کی کوشش کی تو ہمارا سماج صنعتی ترقی کی اس دوڑ میں شامل ہو کر عام آدمی کی زندگی کو بہتر کر سکے گا۔

تازہ ترین