گزشتہ روز اپوزیشن اتحاد کی قومی کانفرنس میں اپوزیشن اتحاد (جس کے قیام میں تحریک انصاف کا بنیادی کردار ہے) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آئین کو چیتھڑوں میں بدل دیا گیا ہے۔ تاریخ کے اس نازک لمحے میں نواز شریف اور فضل الرحمٰن کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور مکالمہ کریں، مگر مکالمے کی پہلی شرط یہ ہے کہ عمران خان کو قانون کے مطابق پارٹی رہنماؤں اور اہلِ خانہ سے ملاقاتوں کی اجازت دی جائے۔ اس موقع پر قومی سطح کے متعدد دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا اور آئین کی پامالی پر بات کرتے ہوئے اکثر نے ڈائیلاگ کی ضرورت پر ہی زور دیا۔ اسی روز عمران خان کا اپنے اور بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ٹو کے مقدمے میں 17، 17 سال قید کی سزا پر سوشل میڈیا (ٹویٹر) پر ایک بیان جاری ہوا، جس میں انہوں نے فیلڈ مارشل کو ٹارگٹ کرتے ہوئے مارشل لا کی جیسی ہی بات کی اور کہا کہ اسی وجہ سے ملک میں نہ انصاف ہے اور نہ آئین و قانون کی بالادستی۔ یہ بات کرتے ہوئے خان صاحب نے ایک بار پھر احتجاج کی بات کی اور کہا کہ انصاف اور آئین و قانون کی بالادستی کیلئے قوم کو اٹھنا ہوگا۔ اسی بیان میں انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کو اسٹریٹ موومنٹ کی تیاری کی ہدایت بھی دی۔ اچکزئی صاحب، جنہیں عمران خان اور تحریک انصاف نے اپوزیشن اتحاد کی سربراہی کیلئےچنا، اور جنکے بارے میں پی ٹی آئی کی طرف سے بارہا کہا گیا کہ اچکزئی صاحب اور علامہ راجہ ناصر عباس کے پاس سیاسی حکمتِ عملی طے کرنے کا اختیار ہے۔ وزیر اعلیٰ آفریدی نے بھی حال ہی میں کچھ ایسی ہی بات کی تھی، لیکن کل جب اچکزئی صاحب کی طرف سے ڈائیلاگ کی بات ہوئی اور میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو اسی روز خان صاحب نے ایک بار پھر احتجاج اور لڑائی کی بات کر دی۔ دو روز قبل شاہ محمود قریشی اور کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے ایک اور خط لکھے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں، جس میں ڈائیلاگ کی ہی بات کی گئی۔ تحریک انصاف کے تقریباً تمام ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹ کا بھی یہی خیال ہے، لیکن خان صاحب اُسی حکمتِ عملی پر گامزن ہیں جس نے گزشتہ تین چار برس میں انہیں اور ان کی جماعت کو مشکلات اور مصیبتوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اب صورتِحال یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ پی ٹی آئی کو اس بحران سے نکالنے کیلئے ڈائیلاگ کی بات کرتے ہوئے جو شرط رکھ رہے ہیں، وہ جیل میں قید عمران خان سے انکی بہنوں اور سیاسی ساتھیوں کی ملاقات کی اجازت تک محدود ہے۔ یہ شرط ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی سیاست کو کس قدر محدود کر لیا ہے، اور اسکی بنیادی وجہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اچکزئی صاحب کی بات کی کیا حیثیت باقی رہ گئی ہے؟ اب نواز شریف اچکزئی صاحب کی بات پر کیسے اعتبار کریں گے؟ حکومت اور حکومتی جماعتیں تو یہی کہیں گی کہ اچکزئی صاحب پہلے عمران خان کو تو اس حکمتِ عملی پر راضی کریں جس کا وہ حکومت اور نواز شریف سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ اچکزئی صاحب نے یہ بات بھی کی تھی کہ آئیں ایک دوسرے کو معاف کریں، اور انہوں نے کہا کہ ہم دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔ لیکن عمران خان کا بیان پڑھیں تو جن سے اچکزئی صاحب توقع رکھ رہے ہیں کہ وہ آئیں اور ایک دوسرے کو معاف کریں، خان صاحب نے ایک بار پھر دوسری طرف، یعنی فوج کے سربراہ کو، براہِ راست ٹارگٹ کیا۔
یہ معاملہ مجھے سلجھتا ہوا نظر نہیں آتا، اور بدقسمتی سے اس کی سب سے بڑی رکاوٹ خود عمران خان ہیں، حالانکہ مشکلات کا سب سے زیادہ سامنا بھی انہی کو ہے۔ وہ قوم سے توقع رکھے ہوئے ہیں کہ وہ باہر نکلے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے ٹائیگر بھی گیدڑ بن چکے ہیں اور خود کو سوشل میڈیا پر گالم گلوچ تک محدود کر لیا ہے۔ وہ باہر نکلتے نہیں، لیکن گالم گلوچ اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے عمران خان کیلئے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ یہاں ایک اور بات کا ذکر ضروری ہے۔ عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ فوج ان کی ہے اور ان کا مسئلہ صرف فیلڈ مارشل سے ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو 9 مئی کی کھلی مذمت ہونی چاہیے، اور اسکے ساتھ ساتھ خان صاحب کو اپنے پرانے بیانات پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ اسکے علاوہ انہیں اپنے سوشل میڈیا کے کردار کی بھی مذمت کرنی چاہیے کہ کس طرح فوج کے خلاف مہم چلائی گئی اور شہداء کا مذاق اڑایا گیا۔ اگر خان صاحب اپنے تازہ بیان میں اپنے سوشل میڈیا کو’’شٹ اپ کال‘‘ بھی دے دیتے تو ان کی بات میں یقیناً وزن بڑھ جاتا۔