مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(بلال حسن منٹو)
’’دفع ہووو اِدھر سے۔‘‘ آپا صغراں نے گیٹ پر پہنچ کےارد گرد کھڑے لوگوں سے کہا اور گھر کے اندر گھس کے گیٹ کو کنڈی لگا لی۔ پھر اُنھوں نے مالی سے کہا کہ کہیں سے ایک سوٹی لائے۔ زیادہ ترلوگ تو اُن کی ڈانٹ سن کے جانے لگے تھے، مگرکچھ بچّے، جن میں مَیں بھی تھا، گھر کی دیوار پر چڑھ کے اندر جھانکنے لگے۔ سڑک کے تقریباً تمام گھروں میں پری کی چیخوں کی آواز آئی۔ وہ سوٹی، جو ابھی سورج مُکھی کے پودے کے ساتھ بندھی اُس کو سیدھا کھڑا کیے ہوئی تھی، اب پری پر زور زور سے برس رہی تھی۔
ہم دیکھتے رہے، خاموش، اور کچھ خوف زدہ۔ پری کوچاہیے تھا کہ چپ چاپ سوٹیاں کھا لیتی، کیوں کہ اس تمام بھاگم دوڑ کی وجہ سے آپا صغراں کوعن قریب اُسے مارتے مارتے تھک جانا تھا۔ مگر پتا نہیں کیوں، شاید اس لیے کہ بہت درد ہورہا ہوگا، وہ اچانک اُٹھی اور پھر سے دوڑ لگا دی۔ آپا صغراں کےغصّے کی انتہا نہ رہی اور وہ نیم ہذیانی کیفیت میں اس کے پیچھے بھاگیں۔ پری نے گیٹ کی کنڈی ابھی کھولی ہی تھی اور گیٹ کو ذرا سے دھکا دیا ہی تھا کہ وہ چھڑی جو ابھی اُس پر برس رہی تھی، پیچھے سے اُڑتی ہوئی آئی اور آ کے اُس کے سر پر لگی۔
ہم نے دیکھا کہ چھڑی اس کے سر پہ لگ کے فوراً ہی نیچے نہیں گری بلکہ لمحہ بھر کو سر میں اٹکی رہی۔ پری کے حلق سے ایک چیخ نکلی۔ چھڑی کانوکیلاحصّہ، جو پہلے زمین میں گڑا رہا تھا، جب چھڑی سورج مُکّھی کے پودے کے ساتھ جُڑی اُس کو سہارا دے رہی تھی، وہ حصّہ، پری کے سر میں کُھب گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ چھڑی فوراً ہی نیچے نہیں گری تھی بلکہ ذرا لمحہ بھر اٹک کے گری تھی۔
ذرا سی دیر میں پری کی اسکول یونی فارم کی قمیص پر خون کے قطرے گرنے شروع ہوگئے۔ اس منظر پر تو آپا صغراں بھی ذرا ٹھٹھک گئیں۔ مگر بالکل تھوڑی دیر کے لیے۔ کوئی دو لمحے انھوں نے غور سے پری کودیکھا، جیسے نقصان کا اندازہ کرتی ہوں اور پھر تیزی سے اس کی جانب بڑھیں۔’’خون… خون۔‘‘ فری چیخی۔ ’’پری کا خون نکل رہا ہے۔‘‘ ’’بکواس بند کر۔‘‘ آپا صغراں نے مُڑ کے فری سے کہا اور پھر پری کی طرف متوجّہ ہوئیں۔ ’’ڈرامے کرتی ہے؟
مَیں ابھی ٹھیک کرتی ہوں تجھے۔‘‘ اِس میں بھلا ڈراما کیا تھا؟ ہم سب کو نظر آرہا تھا کہ پری کے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ دو چار لڑکے جو دیوار پر چڑھ کے تماشا دیکھ رہے تھے، اِس قدر سہم گئے کہ چُپ چاپ نیچے اُتر کے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ آپا صغراں پری کے قریب پہنچ کر دوبارہ اُس پر حملہ آور ہونے ہی والی تھیں کہ مالی بھی بول اُٹھا۔ ’’بی بی جی… بس کرو۔‘‘ آپا صغراں نے مالی کی بات سُنی ان سُنی کی اور پری کے بال ہاتھوں میں پکڑلیے۔ وہ اُسے گھسیٹنے ہی لگی تھیں کہ پری وہیں کھڑے کھڑے ڈگمگائی اور پھر بےہوش ہوکے زمین پہ گر پڑی۔
ابّا اور نوید بھائی یہ واقعہ سُن کر بہت ہی غصّے میں آئے تھے۔ چوں کہ ابّا انسانی حقوق اور اس طرح کے دیگر معاملات کے علم بردار تھے، اس لیے اُنھوں نےصاف کہہ دیا تھا کہ وہ آپا صغراں کی پولیس میں رپورٹ کریں گے اور نوید بھائی نے بھی کہا کہ ہاں بالکل ایسا ہی کرنا چاہیے۔ ’’This is criminal‘‘ ابّا نےانگلش میں کہا تھا اور اس عالم گیرحیثیت کی قابلِ قدر زبان کو اس موقعے پر ابّا کے یوں استعمال میں لانے سے مَیں بہت مرعوب ہوا بلکہ واقعے کی نزاکت مجھ پر صحیح طور پہ واضح ہوئی۔
گو، ابھی مجھے خُود انگلش بولنے میں جھجھک محسوس ہوتی تھی، مگر مَیں اس زبان کےاہم ہونےپرکوئی شک نہیں کرتا تھا۔ ابّا کے علاوہ نوید بھائی بھی بہت روانی سےانگریزی بولتے تھے۔ وہ مجھ سے بھی اکثرانگریزی ہی میں بات کرتے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ کبھی کبھی مَیں اُنھیں برجستہ انگلش ہی میں جواب بھی دے دیتا تھا۔ ’’She should go to Jail‘‘ نوید بھائی نے جواباً کہا تھا۔ ''Yes. Kot Lakhpat Jail, Lahore.'' مَیں نے برجستہ اُن سےاتفاق کیا تھا۔
مگر پھرابّا نے خُود ہی کہہ دیا کہ ہمیں اِس بات سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہیے اور یہ بھی کہ آپا صغراں چوں کہ ایک بدتمیز عورت ہے، اِس لیےکسی کواُس کے منہ لگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُس کی بچیاں ہیں، جو چاہے کرے۔ اُس عورت کی نہ دوستی اچھی ہے، نہ دشمنی۔ بس، ہمیں اُس سے بچ بچا کے رہنا چاہیے، ہم سائے ہونے کے ناتے جتنا تعلق ضروری ہے، صرف اُتنا ہی رکھا جائے۔ ’’کسی مہذّب مُلک میں ہوتی، تو اِس وقت جیل میں ہوتی۔‘‘ابّا نےکہا تھا، مگر امّی نےکہا کہ ایسی فضول باتوں کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ ہم ایسے مُلک میں نہیں رہتے۔ اس پر ابّا نے کہا کہ ایک تو یہ کہ یہ بات، جو اُنھوں نے کی ہے، اہم ہے، فضول ہرگز نہیں۔
دوسرا یہ کہ کیا صرف وہی باتیں کرنی چاہئیں، جن کا کوئی فائدہ ہو؟ اگرایسا ہے، تو پھر ابھی کل ہی امّی نے اپنے ایک گلاب کے پودے کو دیکھ کر یہ کیوں کہا تھا کہ ’’واہ، کیسے خُوب صُورت اور سُرخ گلاب ہیں؟‘‘ امی نے کچھ جواب نہ دیا، کیوں کہ وہ ابّا کی ایسی باتوں کو عام طور پر قابلِ اعتنانہیں سمجھتی تھیں۔ اِس بات سے، اس مہذّب ممالک والی بات سے، کچھ دیر اور باتیں نکلتی رہی تھیں، جو زیادہ ترکرۂ ارض کے دیگر بہت سے ممالک کی تعریف میں تھیں۔
مثلاً یہ کہ اگر مغرب کی سمت چلا جائے تو کیسے کیسے اعلیٰ درجے کے ممالک سے گزر یقینی ہوتا ہے، جہاں صاف ستھری سڑکیں، سفید لوگ اور تیز رفتار ریل گاڑیاں موجود ہوں گی، اور ان میں سے کچھ ریل گاڑیاں ایسی بھی ہیں، جو زیرِ زمین چلتی ہیں۔ امّی نے کہا کہ آپ لوگ جب کسی کی تعریف پر اُترتے ہیں تو اگلےکو فرشتہ بنا دیتے ہیں اور جب کسی کے خلاف ہوجائیں تو شیطان، یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہاں درست ہے کہ اُن ممالک میں یہ سب ہوتا ہے، مگر وہاں کے لوگ نہاتے کم ہیں، طہارت نہیں کرتے، عورتیں ہمہ وقت نیم برہنہ رہتی ہیں،اکثرلوگ شام کوسرِعام شراب نوشی کرکے نشے کی حالت تک جا پہنچتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ایسا کرتے ہیں بلکہ ایسی جگہیں بنا رکھی ہیں، جہاں جا کے شام کو یہ موذی محلول پیتے ہیں اور سب سے زیادہ ناقابلِ برداشت بات یہ ہے کہ ایسے پکوان تیار کرکے کھاتے ہیں، جن میں سورکا گوشت شامل ہوتا ہے۔ جب ہم یہ باتیں کر رہے تھے تو اسماعیل امّی، ابّا کو پیالیوں میں چائے بنا کر دے رہا تھا۔ ’’بیگم صاحب! انگلینڈ اور امریکا کے شہروں میں بہت بڑی بڑی بلڈنگیں ہوتی ہیں۔
دس دس منزلہ۔‘‘ ’’دس دس منزلہ۔‘‘ نوید بھائی نے اسماعیل کی نقل اُتاری۔ ’’دیکھو کیسے حیران ہوکے کہہ رہا ہے۔ آنکھیں باہر نکال کے۔‘‘’’بےوقوفوں والی باتیں مت کرو۔ دس دس منزلہ نہیں، وہاں اِس سے بھی بڑی عمارتیں ہوتی ہیں۔ امریکا میں تو ساٹھ، ستر، اسّی منزلہ بلڈنگز بھی عام ہوتی ہیں۔‘‘ نوید بھائی نے کہا۔’’ساٹھ، ستّر؟‘‘ اسماعیل کے ہاتھ میں چائے کی پیالی لرزی۔ ’’اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ نہایت اعلیٰ درجے کے مہذّب لوگ ہیں۔
وہاں ایسا تماشا ہوہی نہیں سکتا، جیسا آج صغراں نےکرکےدکھایا ہے۔‘‘اسماعیل کو مشرق ومغرب کے تقابل سے تعلق رکھنے والے یہ تہذیبی امور تو سمجھ نہ آئے، مگر اتنا اندازہ ہوگیا کہ کچھ خاص بات ہے، جو وہاں بےشمار ریل گاڑیاں زیرِزمین بھاگی پھرتی ہیں اور اتنی بلند عمارتیں تعمیر ہوجاتی ہیں، جو ہمارے ہاں نہیں ہو سکتیں۔ اور یہ بھی کہ آپا صغراں اور فری کے واقعے سے مشرق و مغرب کے فرق کو کم از کم کچھ نہ کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔
’’یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ بچّوں کو مارو ہی نہیں۔ ہم بھی مارتے ہیں۔ مگر ایسے تو نہیں کہ وہ مرتے مرتے بچیں۔‘‘ امّی نے افسوس سے کہا۔ خیر، ہم لوگ ایسی ہی کچھ باتیں واتیں کر کے چُپ ہوگئے تھے اور آپا صغراں کی اس ذلیل، مکروہ حرکت کےحوالے سے کچھ نہ کیا۔ مگر اِس واقعے کے کچھ عرصے بعد تک نوید بھائی جب بھی ہیپی کو لےکر گھر سے باہر نکلتے اور کہیں آپا صغراں کو اپنے گیٹ پہ کھڑا دیکھتے تو’’اُوش اُوش‘‘ کی آواز منہ سے نکال کر کوشش کرتے کہ ہیپی اُن پر حملہ کر دے۔ لیکن ہیپی ایک خاموش طبع، بے نیاز اور بُردبارکُتا تھا۔
وہ اپنے کام سےکام رکھتا اور اس بات سے نوید بھائی جھنجھلا جاتے تھے۔ چوں کہ آپا صغراں ایسی ہی خطرناک تھیں، جیسا مَیں نے بتایا ہے۔ سو، جب اخترآنٹی نےوہ عجیب بات کی، تو امی ششدر رہ گئیں اور اُنھیں بہت منع کیا کہ یہ آپ کیسی حرکت کرنے چلی ہیں؟ ایک تو وہ لڑکیاں، فری اور پری، بہت چھوٹی ہیں اور دوسرے آپ کیا اُن کی ماں کو نہیں جانتیں؟ اختر آنٹی نے پیشانی پرتاسف سے ہاتھ مارا اورکہا کہ بس ندرت! کیا بتاؤں۔
میرا بیٹا پاگل ہوگیا ہے۔ کہتا ہے، مَیں اُنہی دونوں میں سے ایک سے شادی کروں گا۔ فری ہو یا پری، جو بھی ہو، مگر اُنہی دونوں میں سے ایک ہو۔ امّی نے دریافت کیا کہ آخراِس کی وجہ کیا ہے؟ ایسا کیوں کر ہوا کہ کیپٹن فراز کی سوئی فری، پری پر اٹک گئی ہے، جو اور کچھ نہیں تو عُمر میں دس بارہ برس تو اُس سے چھوٹی ہوں گی۔ اختر آنٹی نے کہا کہ فراز پر عجیب بھوت سوار ہوگیا ہے۔ جب سے اُس کے بیاہ کا قصد کیاہے، تب سے کہہ رہا ہے کہ مَیں کسی بڑی ہی شریف النفس بی بی سے شادی کروں گا، جوپردہ کرتی اور نہایت پاکیزہ دِکھتی ہو۔
مَیں نے ڈانٹا بھی ہےکہ کیا مطلب ہے تمہارا؟ جو پردہ نہیں کرتیں، مثلاً مَیں خود، تمہاری ماں، وہ کیا شریف النفس نہیں ہوسکتیں؟ مگر خیر، مصیبت تو یوں آئی کہ جب وہ پچھلی بار چُھٹی پرآیا، تو اُس نےفری، پری کوبرقعےمیں ملبوس اسکول سے گھر جاتے دیکھ لیا۔ تب سے کہہ رہا ہے کہ دیکھیں، کیسی خوب سیرت لڑکیاں یہیں ہمارے محلے میں رہتی ہیں، صرف ایک گھر چھوڑ کے اور ہمارے سامنے کی سڑک پر چلتی چلتی اپنے گھرجاتی ہیں۔ بس، اب دُورجانے کی کوئی ضرورت نہیں، مَیں اِن میں سے ہی ایک سے شادی کروں گا۔
اختر آنٹی نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے کپتان فراز کو بہت سمجھایا کہ ان بےچاری بچیوں کی ماں چڑیلوں میں سے ہے، مگر اُس پرکچھ اثر نہ ہوا۔ پری کےسرمیں سوٹی کُھب جانے کا واقعہ سُن کے تو بجائے اِس کے کہ وہ اپنا ارادہ ترک کردیتا کہ ایسی دیوانی عورت کو ساس بنائے، وہ مزید متاثر ہوا کہ واہ! اتنی سخت طبیعت کی راسخ العقیدہ عورت ہے، تو پھر یہ بات سوچنے کی ہے کہ اُس نے اپنی بیٹیوں کی کیسی اعلیٰ پائے کی تربیت کی ہوگی۔
کیسا اچھا اخلاق ہوگا اُن کا اوروہ کس قدر نیک ہوں گی۔ بس، ایسی ہی لڑکیاں ہوتی ہیں، جو صحیح معنوں میں اپنے خاوندوں کی خدمت کرتی اور بطور بیوی اپنے فرائض درست طور پر سرجھُکا کے انجام دیتی ہیں۔ یہ بھی کہا کہ اندازہ لگانا چاہیے، ایسی نیک بیبیاں، جنھوں نے ایسے پرورش پائی ہو، خُود اپنی اولاد کی تربیت کس اعلیٰ درجے کی کریں گی۔ ابّا نے خیال ظاہر کیا کہ یہ سب جنرل ضیاء کے’’اسلام، اسلام‘‘ کے جھوٹے نعرے کی وجہ سے ہے کہ آج کل لوگوں کےدماغ ایسی عجیب وغریب باتیں سوچنے لگے ہیں اور چوں کہ فراز ایک فوجی ہے۔
سو، اُس پر تو جنرل ضیاء کا اثر اور بھی گہرا ہے۔ امّی اس حوالے سے بہت پُریقین نہ تھیں کہ کیا یہ درست ہے، ابّا کسی کی ایک نیک بی بی کی تلاش کا مذاق اُڑائیں اور یہ کہ کیا فراز کی ایسی جستجو قابلِ مذمت ہے؟ ’’آپ تو یوں کہہ رہے ہیں، جیسے اس میں کوئی خرابی ہے کہ فراز کسی شریف لڑکی کی تلاش میں ہے۔‘‘ امّی نے کہا۔ ’’ہرگز کوئی خرابی نہیں۔‘‘ابّا نے کہا۔’’تو پھر…؟اس کے فری، پری کو پسند کرنے میں کیا خرابی ہے؟‘‘ ’’ہا ہا ہا…‘‘ابّا ہنسے۔’’اصل نیک سیرت، بلکہ معصوم تو آپ ہیں۔ ہا ہا ہا۔‘‘ ’’اوہو! میرا مذاق نہ اُڑائیں۔
یہ بتائیں کہ اگر فراز نےکہا، اُسے فری، پری پسند ہیں، تو اِس بات میں کیا خرابی ہے؟ اِس کے علاوہ کہ وہ صغراں جیسی چڑیل کی بیٹیاں ہیں۔‘‘ ’’خیر، یہ توکوئی خرابی نہیں۔‘‘ اباّ نے کہا۔ ’’ان بےچاریوں کو اِس کی سزا تو نہیں مل سکتی کہ اُن کی ماں ایک ڈائن ہے۔ بلکہ اُن کو تو اِس بات پر تمغہ دینا چاہیے کہ ماں کے ظلم و زیادتی کے آگے آواز بلند نہیں کرتیں، سوٹیاں بھی کھا لیتی ہیں۔ سو، نہیں یہ تو کوئی خرابی نہیں۔‘‘ ’’تو پھرآپ بتائیں ناں۔
کیوں آپ فرازکی پسند میں کیڑے نکال رہے ہیں، کیوں؟‘‘ امّی اب اس بات پرکچھ جھلاّنے لگی تھیں کہ ابّا اپنا نقطۂ نظر صاف صاف پیش نہیں کرپارہے تھے۔ گو،ابّا اس سقراطی بحث سے لُطف اندوز ہوتے نظر آرہے تھے کہ امّی کے سوالات کا سیدھا سیدھا جواب نہ دیں اور اُنھیں سوچ بچار میں مبتلا رکھیں کہ اگر خرابی ہے، تو آخر کیا ہے، فراز کے فری، پری کو پسند کرنے میں، مگر امّی کے صبر کا بھی ایک پیمانہ تھا، جولب ریز ہونے کے نزدیک تھا۔ ’’پہلے یہ پتا تو چل جائے کہ شرافت اور نیک سیرتی ہوتی کیا چیزیں ہیں؟ کہیں ان کی تعریف لکھی ہے کہ کوئی ایسا ہو، تو شریف ہے اور ایسا نہ ہو یا کسی اور طرح کا ہو تو بدمعاش؟‘‘ابّا نے سقراطی گفتگو آگے بڑھانی چاہی۔’’اچھا خیر۔‘‘ امّی بےزاری سےبولیں۔ ’’جو بھی ہو، کوئی نیک ہو یا بد، مَیں کچھ نہیں کرسکتی۔
مصیبت یہ ہے کہ اب اختر چاہتی ہے کہ مَیں فراز کا رشتہ لے کراُس کےساتھ صغراں کے گھر جاؤں، تو جانا تو پڑے گا۔‘‘ ’’ہاں، پھنس گئی ہیں آپ۔‘‘ ابّا نے کہا۔ ’’بُری پھنس گئی ہوں۔‘‘ امّی بڑبڑائیں۔ ’’اُس چڑیل کے گھر جانا پڑے گا۔آخر اختر مجھے کیوں گھسیٹنا چاہتی ہے؟ مَیں کون سی صغراں کی سہیلی ہوں۔ بس مجبوری کی مصیبت ہے کہ وہ میرے گھر کے ساتھ رہتی ہے۔ مجھے تو وہ کبھی گیٹ پر کھڑی نظر آجائے، تو کوشش کرتی ہوں کہ بات نہ کرنی پڑے۔‘‘
امّی کی جھنجھلاہٹ تھی بھی درست۔ رشتہ لےکرجانا ہے، توآپ خُود جائیں یا کسی رشتےدار کو لے جائیں یا کسی بزرگ کو۔ بھلا ایک ہم سائی کوساتھ لے جانے کی کیا تُک ہے۔ صرف اس لیے کہ جہاں رشتہ لینےجا رہے ہیں، وہ بھی ایک ہم سائی ہے؟ مگر شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اختر آنٹی، آپا صغراں سے خوف کھاتی تھیں اور وہ کسی رشتے دار، خاص طور پہ کسی برزگ کو شاید اس لیے ساتھ نہ رکھنا چاہتی ہوں گی کہ نہ جانےاُس خوف ناک عورت کے ہاں کیا گزرے اور کچھ ایسا نہ گزرجائے کہ رشتے دار یا بزرگ کے سامنے خفّت اُٹھانی پڑے۔
’’مگرلگتا ہے، آپ کوجانا ہی پڑے گا۔‘‘ ابّا نے ہنس کرکہا، جیسا کہ اس بات میں اُن کے لیے تفریح کا بہت سامان ہو۔ ’’آپ کو پھنسا لیا ہے اختر نے۔‘‘ اُنھوں نے مزید ہنس کر کہا۔ ’’اب دیکھتے ہیں، صغراں آپ کے ساتھ کیا کرتی ہے۔‘‘جانا تو تھا ہی۔ اختر آنٹی کا امّی پہ احسان بھی تو تھا۔ یہی بےچاری اختر آنٹی ہی تو کپتان فراز کو لے کے امّی کی مدد کو آئی تھیں، جب نوید بھائی کو اُن کی سیاسی کار گزاریوں کی وجہ سے سرکار اُٹھا لے گئی تھی۔ امّی نے سوچا کہ اگر جان سے گزرنا ہےتو تاخیر بےسود ہے۔
سو، انھوں نے اختر آنٹی کو فون کرکے کہا کہ چلو کل ہی ہو آتے ہیں۔ اختر آنٹی فوراً بولیں کہ ہاں ٹھیک ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ کر اطمینان کا اظہارکیا کہ’’ہاں کل ہی چلے جاتے ہیں کیوں کہ مَیں نے ابھی دو دن پہلے ہی بال رنگوائے ہیں۔‘‘امّی نے اُنھیں تجویز کیا کہ وہ صغراں کو بتادیں کہ وہ دونوں کل آئیں گی مگر اخترآنٹی نے کہا۔ اوہو اس کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے بغیر بتائے بھی تو ہم سائیوں کے ہاں جا سکتے ہیں۔ سو، بتانےکی کوئی ضرورت نہیں مگر یہ بھی کہا کہ ویسے اگر آپ بتانا چاہیں تو ضرور بتا دیں۔ (جاری ہے)