یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں۔ اسلام آباد میں، جہاں ہم پہلے رہتے تھے، ہمارے پڑوس میں ایک نیا گھر تعمیر ہوا۔ مکان کے مالک ایک میڈیا پروفیشنل تھے اور ان کی اہلیہ کسی تعلیمی ادارے کی پرنسپل رہ چکی تھیں۔ ظاہر ہے یہ ایک پڑھا لکھا، باخبر اور قانون کو سمجھنے والا خاندان تھا۔ گھر مکمل ہونے کے بعد اسے کرائے پر دے دیا گیا۔ شروع کے ایک دو ماہ تو کرایہ باقاعدگی سے آتا رہا، پھر اچانک کرایا آنا بند ہو گیا۔ جب مالک مکان نے کرایہ دار سے وجہ پوچھی تو جواب چونکا دینے والا تھا کہ یہ گھر تو میرا ہے، آپ کا نہیں۔ اگرآپ کو کوئی مسئلہ ہے تو عدالت چلے جائیں۔ یہ اسلام آباد کے سی ڈی اے سیکٹر کا گھر تھا، جہاں پلاٹ یا مکان کی ملکیت میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔ سی ڈی اے کے ریکارڈ میں ایک پلاٹ ایک ہی شخص کے نام الاٹ ہوتا ہے۔ زمین انہی کی تھی، الاٹمنٹ انہی کے نام، تعمیر بھی انہوں نے ہی کی تھی۔ اس کے باوجود کرایہ دار نے قبضہ جما لیا اور عدالت سے اسٹے لے لیا۔ یوں ایک ایسا مقدمہ شروع ہوا جو برسو ں چلتا رہا۔ جب کئی برس بعد فیصلہ مالک کے حق میں آنے لگا تو قابض کرایہ دار خاموشی سے گھر چھوڑ گیا، مگر جاتے جاتے ایک اور شخص کو وہاں لا بسایا۔ اب نیا قابض، نیا دعویٰ، نیا اسٹے اور نیا مقدمہ۔ آخرکار مالک نے ہار مان کر فیصلہ کیا کہ اب یہ گھر کرائے پر نہیں دیا جائے گا بلکہ خود رہائش اختیار کی جائے گی۔ یہ ایک کہانی ہے، مگر ایسی کہانیاں پاکستان بھر میں ہزاروں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسلام آباد جیسے منظم شہر، سی ڈی اے کے باقاعدہ سیکٹر میں، ایک واضح ملکیت کے باوجود یہ سب ہو سکتا ہے تو باقی ملک میں کیا حال ہوگا؟حقیقت یہ ہے کہ زمین کے تنازعات زیادہ تر ایک دو گھنٹوں میں حل ہو سکتے ہیں۔ محکمہ مال یا متعلقہ اتھارٹی کے ریکارڈ سے فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ زمین کس کی ہے، قبضہ کس کا ہےاور دعویٰ کس بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پہلے تو محکمہ مال اپنا کام ایمانداری سے نہیں کرتا پھر جب حکومتی اداروں سے مایوس ہو کر جیسے ہی جائیدادوں کا معاملہ عدالتوں میں جاتا ہے، برسوں بلکہ دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ نسل در نسل مقدمے چلتے رہتے ہیں، فیصلے نہیں ہوتے۔ مری کی ایک مثال بھی سامنے ہے۔ ایک صاحب کی زمین پر کسی نے چار دیواری کر کے قبضہ کر لیا۔ عدالت گئے، کئی سال بعد فیصلہ آیا کہ زمین انہی کی ہے۔ انہوں نے قبضہ واپس لیا، مگر کچھ عرصے بعد وہی قابض دوبارہ آ گیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نیا قبضہ ہے، نیا کیس کریں یا توہین عدالت کا کیس دائر کر دیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک فیصلے کے بعد بھی مالک محفوظ نہیں تو پھر انصاف کہاں ہے؟ یہی وجہ ہے کہ زمینوں کے جھگڑوں نے قبضہ مافیا کو انتہائی طاقتور بنا دیا ہے۔ افسوسناک طور پر ہمارے سرکاری ادارے خصوصاً محکمہ مال کے ساتھ ساتھ سست عدالتی نظام حقیقت میں ان عناصر کو مضبوط کرتا رہا ہے جو طاقت، دھونس اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے دوسروں کی جائیداد پر قابض ہو جاتے ہیں۔ اسی پس منظر میں پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک قانون متعارف کرایاہے، جسکا مقصد یہی تھا کہ زمین کے تنازعات فوری طور پر ریکارڈ کی بنیاد پر حل کیے جائیں اور اصل مالک کو اس کا حق دلایا جائے۔ ابتدائی طور پر اس قانون کے تحت تیز رفتاری سے فیصلے ہونا شروع ہوئے، مگر پھر معاملہ عدالت میں چلا گیا اور لاہور ہائیکورٹ نے اس قانون کے نفاذ کو روک دیا۔ یہ معاملہ چونکہ زیرِ سماعت ہے، اس لیے قانونی پہلوؤں پر تبصرہ مناسب نہیں۔ تاہم ایک گزارش ضرور کی جا سکتی ہے۔ اگر اس قانون میں کوئی خامی ہے تو اسے ضرور درست کیا جائے، مگر اسکے ساتھ یہ سوال بھی سنجیدگی سے دیکھا جائے کہ کیا ہمارا موجودہ عدالتی نظام زمینوں کے تنازعات بروقت اور مؤثر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا اس نظام نے مظلوم مالک کو تحفظ دیا یا قابض کو مہلت پر مہلت؟ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا ردعمل بھی سامنے آیا۔ بہتر یہی ہوگا کہ عدلیہ اور انتظامیہ آمنے سامنے آنے کے بجائے مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ قانون سازی کا مقصد تصادم نہیں بلکہ عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا مؤثر، شفاف اور تیز نظام بنایا جائے جو یہ یقینی بنائے کہ جس کی زمین ہے، اسی کو ملے اور وہ بھی برسوں بعد نہیں بلکہ فوراً۔ اگر اس مقصد کیلئے قانون میں اصلاحات درکار ہیں تو وہ کی جائیں، نئے قانون میں کوئی خامی ہے تو اُسے دور کریں مگر زمینوں کے تنازعات کو لٹکانے کا سلسلہ اب مزید برداشت کے قابل نہیں۔ کیونکہ اگر مالک اپنی ہی زمین پر غیر محفوظ ہے، تو پھر اس ملک میں تحفظ کس چیز کا ہے؟