• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مرتبہ پھر 27دسمبر کادن آگیاہے، یہ صرف تاریخ نہیں، یہ کبھی نہ بھرنے والا زخم ہے،یہ دن کیلنڈر پر نہیں، ہمارے دِلوں پر نقش ہے۔یہ ہماری قومی تاریخ کا وہ المناک دن ہے جب ہرسال پورا پاکستان رنج و غم میں ڈوب جاتا ہے، اس دن تاریخ تھم جاتی ہے اور ہر محب وطن پاکستانی کی نظروں کے سامنے آج سے اٹھارہ برس پہلے کا وہ ناقابل فراموش منظر گھومنے لگتا ہے جب جمہوریت کے علمبرداروں کے قافلے کی دلیر و دبنگ سالار محترمہ بےنظیر بھٹو کوراولپنڈی میں ایک عظیم الشان عوامی جلسے سے خطاب کے بعد دن دہاڑے شہید کر دیا گیاتھا، جتنے لوگ تاریخی جلسے میں شریک تھے اس سے کہیں زیادہ ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے محترمہ کا ولولہ انگیز خطاب سننے میں محو تھے، جامنی ملبوس زیب تن کیے دخترمشرق اورعالم اسلام کی پہلی خاتون منتخب وزیراعظم کے اعزازکی حامل محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے عظیم والد قائد عوام ذولفقارعلی بھٹوکو خراجِ تحسین پیش کررہی تھیں اور جلسے میں شریک لاکھوں لوگ جیے بھٹو کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے تھے ،ہر طرف پیپلزپارٹی کے جوشیلےترانے گونج رہے تھے، جب وہ جلسے سے خطاب کے بعد پنڈال سے روانہ ہوئیں تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنی عظیم لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے سڑکوں پر اُمنڈ آیا تھا، یہی وہ المناک لمحات تھے جب دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو صرف پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم نہیں تھیں بلکہ آمریت کے اندھیروں میں جلنے والا وہ چراغ تھیں جسکی روشنی نے پورے ملک کو راستہ دکھایا، پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی ایک ایسی بہادر بیٹی جس نے باپ کی ناحق پھانسی، قید و بند کی صعوبتیں، جلاوطنی کی تنہائی اور اپنی جان کو لاحق مسلسل خطرات کے باوجود ہار نہیں مانی۔ انہوں نے طاقت کے سرچشمے عوام کے بل بوتے پر وزارتِ عظمی ٰ کے بلند ترین منصب پر فائز ہوکر ثابت کیا کہ انکا دورِ اقتدارایک روشن صبح کا آغاز ہے، انہوں نےسیاست کو عوام کی خدمت کا نام دیا، معاشرے کے پِسے ہوئے طبقات کی خدمت کا بیڑا اُٹھایا، خواتین کوبااختیار کیا، میڈیا کو آزادی دی، اور سفارتی سطح پر عالمی برادری کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ عالمی امن و استحکام میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔اصولوں پر ڈٹ جانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو نے کبھی ڈر اور خوف کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا ، انہوں نےمقدمات کا سامنا کیا، جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کیں، اپنے بہادر شوہر کو پابند سلاسل ہوتے دیکھا ،اپنے معصوم بچوں کو مشکلات کا شکار ہوتے دیکھا، اپنی ذات پر بلاوجہ الزامات کو بوچھاڑ دیکھی مگر باطل کے سامنے جھکنے سے ہمیشہ انکارکیا، جب ملک و قوم نازک دوراہے سے گزر رہا تھا تو انہوں نے جمہوریت بچانے کادلیرانہ فیصلہ کیا، انکی وطن واپسی نے پورے ملک میں جوش و جذبے کی ایک نئی لہر دوڑا دی تھی، لیکن پھر27دسمبر 2007ء کا نہ بھولنے والاالمناک دن آگیا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا شہید بھٹو اور شہید رانی کا عوام کی خدمت کا مشن جاری رہ سکے گا؟اس سوال کا جواب کھوجنے کیلئے پوری قوم نے ایک ہی شخص کی طرف دیکھا اور وہ تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کا صاحبزادہ بلاول بھٹو زرداری۔ بھٹو گھرانے کے چشم و چراغ بلاول نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی عظیم ماں کا مشن کبھی نہیں چھوڑے گا۔ حالات نے اسے قوم کی رہبری کی بھاری ذمہ داری سونپ دی تو اس نے نفرت و انتقام کی بجائے ڈائیلاگ کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا،جب وہ پاکستان کا نوجوان وزیرِ خارجہ بنا تو ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو گیا،اقوام متحدہ سمیت دنیا کے طاقتور ایوانوں میں اس نے پاکستان کا مقدمہ باوقار انداز میں لڑا،اقوامِ متحدہ میں کشمیر ایشوپر بات ہو،اسلاموفوبیا کے خلاف دو ٹوک مؤقف ہو،دہشت گردی کا عفریت یا ترقی پذیر ممالک کے مسائل کو اجاگر کرنا، بلاول نے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار، بردبار اور بصیرت رکھنے والے رہنما کے طور پرمنوایا ، پاکستان کے سفارتی وفد کی قیادت کرتے ہوئے وہ عالمی افق پر ایک روشن سفارتی ستارے کی مانند جگمگائے، انہوں نے ہر جگہ ہر موقع پر پاکستان کا مؤقف ایسے زبردست مدلل اور مہذب انداز میں پیش کیاکہ عالمی برادری بلاول کے موقف کو سنجیدگی سےسننے پر مجبور ہوگئی،بلاول بھٹو کے بیانات پڑوسی ملک سمیت عالمی میڈیا میں شہ سرخیوں میں جگہ پانے لگے، دنیا کو بلاول کی سفارتکاری میں وہی وقار نظر آیا جو کبھی محترمہ بینظیر بھٹو کی پہچان تھا ، بلاول کے الفاظ میں سچ تھا،ذمہ داری تھی، ماں کی شاندار تربیت تھی اور شہیدوں کا لہو شامل تھا۔ آج پاکستان کی عالمی برادری بالخصوص مغربی ممالک میں وسیع پیمانےپر پذیرائی کی بنیادی وجہ بلاول بھٹو زرداری کی موثر، متحرک اورذمہ دارانہ سفارت کاری ہے۔میری نظر میں 27دسمبر کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم محترمہ بینظیر بھٹو کے عوامی مشن کو کبھی فراموش نہ کریں، بینظیر بھٹو کل بھی زندہ تھیں آج بھی زندہ ہیں،کسی جیالے کے نعرے میں،کسی مظلوم کے آنسو میں اور کسی بلاول کے حوصلے میں، محترمہ بے نظیرہر اُس آواز میں زندہ ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف اٹھتی ہے، ہر اس پاکستانی میں زندہ ہیں جو ووٹ کی طاقت پر یقین رکھتا ہے،محترمہ نے ہر پاکستانی کوعزت سے جینا سکھایا،اصولوں کی خاطر لڑنا سکھایا، اور سر اٹھا کر مرنا سکھایا۔ مجھے فخر ہے کہ میں عوام کی خدمت کا جذبہ دل میں لئے سیاست کے کٹھن سفر میں پیپلز پارٹی کی صورت میں ایک ایسے کاروانِ جمہوریت کا حصہ ہوں جس نے قدم قدم پر پاکستان کی بقاء و سلامتی اور جمہوریت کے تسلسل کیلئے بے دریغ قربانیاں دی ہیں، آج اگرچہ شہیدرانی کی کمی ہم سب کو محسوس ضرور ہوتی ہے لیکن میرے لیے یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ محترمہ کا مشن آگے بڑھانے کیلئے صدر پاکستان آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری عکسِ بے نظیر ہمارے درمیان موجود ہیں۔آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی روح کو سکون پہنچانے کا بہترین طریقہ انکے فرزند بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔

تازہ ترین