• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا کلچر کوئی عام سی چیز نہیں، یہ ایک مکمل ایڈونچر ہے۔ یہاں رہنا صرف رہنا نہیں، بلکہ روزانہ ایک نیا تجربہ جھیلنا ہے۔ دنیا کے باقی ممالک میں کلچر میوزیم میں رکھا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں کلچر چائے کے کپ، ڈرائنگ روم، شادی ہال، دفتر اور فیس بک اسٹیٹس میں گھومتا پھرتا نظر آتا ہے۔ہم وہ قوم ہیں جو سلام کے بعد فوراً پوچھتی ہے:’’اور سنائیں، سب خیریت؟‘‘

اور جواب میں سامنے والا پورے خاندان کی میڈیکل ہسٹری سنا دیتا ہے۔ پاکستان میں حال چال پوچھنا محض اخلاقی فقرہ نہیں، ایک باقاعدہ انٹرویو ہوتا ہے۔

ہمارے کلچر میں رشتے دار وہ نعمت ہیں جن کے بغیر زندگی ادھوری ہے، اور جن کے ساتھ زندگی پوری طرح آزمائش بن جاتی ہے۔ ایک رشتے دار ایسا ضرور ہوتا ہے جو ہر ملاقات پر یہ یاد دلاتا ہے کہ ’’ہم نے تمہیں بچپن میں گود میں اٹھایا تھا‘‘، گویا اس احسان کا بدلہ اب زندگی بھر قسطوں میں ادا کرنا ہے۔ہمارے کلچر میں رشتے دار وہ خاص مخلوق ہیں جو دور ہوں تو یاد آتے ہیں اور قریب ہوں تو صبر آزمایا جاتا ہے۔ ہر خاندان میں ایک رشتے دار ایسا ضرور ہوتاہے جو ہر ملاقات پر کہتا ہے: ’’ارے یہ تو وہی بچہ ہےناجس نے بچپن میں بہت رلایا تھا؟‘‘گویا ہماری پوری زندگی کا خلاصہ اسی ایک فقرے میں بند ہے۔

پاکستانی شادی ہمارے کلچر کی سب سے شاندار نمائش ہوتی ہے۔ دلہا دلہن سے زیادہ اہمیت بریانی، قورمہ اور ویٹر کو حاصل ہوتی ہے۔ دلہا بے شک تھکا ہارا بیٹھا ہو، لیکن اگر بریانی میں آلو کم نکل آئے تو پورا خاندان صدمے میں چلا جاتاہے۔ یہاں شادی کا اصل مقصد دو لوگوں کو ملانا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ’’ہم نے کھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔‘‘

ہمارے کلچر میں مشورہ دینا قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے پوچھا ہو یا نہ پوچھا ہو، مشورہ ضرور ملے گا۔ خاص طور پر شادی شدہ افراد، بچوں کے بغیر ہوں تو مشورہ ملتا ہے، بچے ہوں تو تربیت پر مشورہ، اور اگر سب ٹھیک چل رہا ہو تو بھی مشورہ کہ ’’زیادہ خوشی بھی اچھی نہیں ہوتی۔‘‘

پاکستانی کلچر میں وقت کی بڑی اہمیت ہے، خاص طور پر دوسروں کے وقت کی۔ ہم وقت پر پہنچنے کا وعدہ ضرور کرتے ہیں، مگر پہنچتے ہمیشہ ’’راستے میں ہیں‘‘ کہہ کر ہیں۔ہمارے ہاں وقت ایک نہایت لچکدار چیز ہے۔ اگر کوئی کہے کہ وہ پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ابھی گھر سے نکلنے کا سوچ رہا ہے۔ شادی کا کارڈ سات بجے کا ہو تو دلہا نو بجے تیار ہونا شروع کرتا ہے، اور مہمان دس بجے شکایتیں شروع کرتے ہیں۔ شادی کا کارڈ شام سات بجے کا ہو تو اصل تقریب نو بجے شروع ہوتی ہے، اور دلہا گیارہ بجے آ کر قوم کو صبر کی تلقین کرتا ہے۔

ہمارا کلچر چائے کے بغیر مکمل نہیں۔ خوشی ہو یا غم، سیاست ہو یا فلسفہ، چائے کے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی۔ پاکستان میں چائے صرف مشروب نہیں، ایک معاہدہ، ایک دلیل اور کبھی کبھی رشوت بھی ہوتی ہے۔ ’’چائے پی لیں پھر بات کرتے ہیں‘‘کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل بات شاید کبھی ہو ہی نہ۔

ہماری سیاست بھی ہمارے کلچر کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان میں ہر شہری پیدائشی طور پر سیاسی تجزیہ کار ہوتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ملک کیسے چلانا ہے، بس مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ان سے پوچھتا نہیں۔ چائے کے کھوکھے سے لے کر ڈرائنگ روم تک، ہر جگہ ملک کے مسائل پانچ منٹ میں حل کر دیے جاتے ہیں۔پاکستانی کلچر میں مہمان نوازی حد سے زیادہ ہے۔ مہمان اگر ایک بار آ جائے تو جانے کا نام نہیں لیتا، اور میزبان دل میں دعا کرتا ہے کہ ’’یا اللّٰہ اس کو ہدایت دے‘‘ مگر زبان پر یہی کہتا ہے’’ارے نہیں نہیں، ابھی تو چائے بھی نہیں پی!‘‘

ہمارا کلچر تضادات کا حسین مجموعہ ہے۔ ہم مغربی لباس پر تنقید بھی کرتے ہیں اور خود اسے بڑی شان سے پہنتے بھی ہیں۔ ہم سادگی کی تعریف کرتے ہیں اور شادی پر آتش بازی بھی کرتے ہیں۔ ہم صبر کا درس دیتے ہیں اور ٹریفک سگنل پر تین سیکنڈ میں صبر کھو بیٹھتے ہیں۔

پاکستانی ماں ہمارے کلچر کا ستون ہے۔ وہ بچے کو ایک طرف ڈاکٹر، دوسری طرف عالم، تیسری طرف انجینئر اور چوتھی طرف فرماں بردار بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ آخر میں صرف موبائل ایکسپرٹ بن کر رہ جاتا ہے۔ باوجود ان سب باتوں کے، سچ یہ ہے کہ ہمارا کلچر ہمیں بے حد عزیز ہے۔ مشکلات، تضادات اور طنز کے باوجود، یہی وہ کلچر ہے جو ہمیں ہنسنا سکھاتا ہے، جینا سکھاتا ہے اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے۔

آخر میں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا کلچر کوئی کتابی مضمون نہیں، یہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس میں شور بھی ہے، محبت بھی، شکایت بھی اور خلوص بھی۔

اور شاید اسی لیےہم سب اس کلچر پر ہنستے بھی ہیں، لڑتے بھی ہیں، مگر چھوڑ نہیں سکتے۔

تازہ ترین