دنیا اس وقت امیگریشن کے ایک غیر معمولی بحران سے گزر رہی ہے۔ یورپ ہو یا امریکہ، آسٹریلیا ہو یا مشرقِ وسطیٰ، ہر خطہ غیر قانونی نقل مکانی کے دباؤ کا شکار ہے۔ اٹلی نے سمندری راستوں پر سخت نگرانی بڑھائی، یونان نے سرحدی باڑیں مضبوط کیں، برطانیہ نے روانڈا ماڈل جیسے متنازع مگر سخت فیصلے کیے، آسٹریلیا نے آف شور پروسیسنگ کے ذریعے پیغام دیا کہ غیر قانونی داخلہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان تمام مثالوں میں ایک قدر مشترک ہے ریاست نے جذباتی دباؤ کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دی۔وزیر داخلہ محسن نقوی کے اقدامات بھی اسی عالمی سوچ سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ تھا کہ برسوں تک غیر قانونی امیگریشن کو محض ایک سماجی المیہ سمجھا گیا۔ غربت، بیروزگاری اور نوجوانوں کے خوابوں کا حوالہ دے کر ریاستی کمزوری کو جواز بنایا جاتا رہا۔ مگر جب سعودی عرب میں بھیک مانگنے کے واقعات عالمی میڈیا کی زینت بنے، جب دبئی اور دیگر خلیجی ممالک میں جرائم سے جڑی خبروں میں پاکستانی پاسپورٹ نمایاں ہونے لگا، اور جب یورپ کی سرحدوں پر گرفتار ہونے والوں میں پاکستانیوں کا تناسب بڑھا، تو یہ واضح ہو گیا کہ مسئلہ صرف فرد کا نہیں، ریاست کی ساکھ کا ہے۔
یہی وہ مقام تھا جہاں وفاق نے معاملے کو محض انتظامی نہیں بلکہ ریاستی وقار کے مسئلے کے طور پر دیکھا۔ یورپی یونین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے حالیہ باہمی اجلاسوں اور جائزہ رپورٹس میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ پاکستان سےیورپ کی جانب غیر قانونی امیگریشن کی کوششوں میں تقریباً سینتالیس فیصد کمی آئی ہے۔ یہ کمی 2025ء کے دوران ریکارڈ کی گئی اور اسے یورپی کمشنر نے باقاعدہ طور پر سراہا۔ بین الاقوامی سفارت کاری میں اعداد و شمار محض نمبر نہیں ہوتے، یہ اعتماد کی زبان ہوتے ہیں، اور یہ اعتماد پاکستان نے ایک طویل عرصے بعد دوبارہ حاصل کیا ہے۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ کامیابی کسی ایک حکم نامے کا نتیجہ نہیں۔ دنیا میں جہاں بھی غیر قانونی امیگریشن پر قابو پایا گیا، وہاں تین چیزیں مشترک رہیں:سخت قانون، مؤثر نفاذ، اور قیادت کی ذاتی دلچسپی۔ وزیر داخلہ کے اقدامات میں یہ تینوں عناصر واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے محض اجلاسوں میں ہدایات جاری نہیں کیں بلکہ خود ایئرپورٹس پر جا کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ کبھی اسلام آباد، کبھی لاہور، کبھی کراچی ایک ایک مسافر کے کاغذات دیکھے گئے، قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو یقین دہانی کرائی گئی، اور مشکوک یا جعلی دستاویزات پر سفر کرنے والوں کو روکا گیا۔
بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو یہی ماڈل ہمیں دیگر ممالک میں بھی نظر آتا ہے۔ سنگاپور میں امیگریشن کنٹرول کو ریاستی سلامتی سے جوڑا جاتا ہے، جہاں ایک معمولی دستاویزی خامی بھی داخلے یا اخراج کو روک سکتی ہے۔ جاپان میں سخت ویزا نگرانی کے باوجود قانونی مسافروں کو مکمل احترام دیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے حالیہ برسوں میں امیگریشن قوانین کو مزید سخت کیا اور غیر قانونی قیام پر زیرو ٹالرنس اپنائی۔ ان تمام مثالوں میں ریاستی پیغام ایک ہی ہے: قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں، مگر قانونی شہری کے ساتھ مکمل تعاون۔ وفاقی پالیسی اسی اصول کی عکاس ہے۔پاکستان میں اس پالیسی کے نفاذ کے دوران سب سے بڑا چیلنج سوشل میڈیا کا دباؤ تھا۔ چند یوٹیوبرز اور وی لاگرز نے آف لوڈنگ کے ہر واقعے کو جذباتی رنگ دے کر پیش کیا۔ آدھی ویڈیوز، ادھوری کہانیاںاور مکمل الزام ریاست پر۔ مگر یہاں بھی محسن نقوی نے وہی روش اپنائی جو مضبوط قیادت کی پہچان ہوتی ہے۔ انہوں نے تنقید کو سنا، تسلیم کیا کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے، مگر غیر قانونی امیگریشن کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو وقتی مقبولیت اور دیرپا ریاستی مفاد کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔
اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ایف آئی اے اور دیگر اداروں نے انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف غیر معمولی کارروائیاں کیں۔ ہزاروںسہولت کار گرفتارہوئے،جعلی ویزوں اور دستاویزات پر مبنی درجنوں نیٹ ورکس توڑے گئے، اور بارڈر مینجمنٹ کو مؤثر بنایا گیا۔ یورپی یونین کے تعاون سے RAPAKجیسے منصوبوں نے پاکستان کی بارڈر سیکورٹی، مسافر پروفائلنگ اور رسک اسیسمنٹ کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ انفارمیشن شیئرنگ، انٹیلی جنس اشتراک اور سینٹرلائزڈ چینلنگ نے اس پالیسی کو محض ردعمل کے بجائے ایک مستقل نظام بنا دیا۔بین الاقوامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی ملک نے غیر قانونی امیگریشن کے معاملے میں کمزوری دکھائی، اس کی قیمت اسے عالمی سطح پر چکانی پڑی۔ لیبیاہو یا لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک، جہاں غیر قانونی نقل مکانی نے ریاستی کنٹرول کو کمزور کیا، وہاں عالمی دباؤ بڑھا اور اندرونی عدم استحکام پیدا ہوا۔ اس کے برعکس، وہ ممالک جنہوں نے بروقت سخت فیصلے کیے، آج اپنی مضبوط امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر قانونی امیگریشن کے پیچھے معاشی مسائل موجود ہیں، مگر دنیا کی کوئی ریاست ان مسائل کا حل غیر قانونی راستوں کو کھلا چھوڑ کر نہیں نکالتی۔ اصل حل توازن میں ہے:اندرون ملک اصلاحات، روزگار کے مواقع، اور ساتھ ہی سرحدوں پر نظم و ضبط۔ وزارت داخلہ کے اقدامات اسی توازن کی ایک عملی مثال ہیں۔
اگر پاکستان اس راستے پر قائم رہتا ہے تو غیر قانونی امیگریشن میں آنے والی یہ کمی محض ایک عدد نہیں رہے گی بلکہ ایک مثال بن جائے گی۔ ایک مثال کہ کس طرح ایک ریاست نے بروقت فیصلہ کر کے اپنی عالمی ساکھ کو بچایا، اور کس طرح قیادت نے تنقید کے شور میں بھی درست سمت کا انتخاب کیا۔ تاریخ میں قومیں اسی طرح پہچانی جاتی ہیں اور پاکستان آج اسی پہچان کی طرف ایک قدم اورآگے بڑھا ہے۔