• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر میں بحیثیت مسلمان یہ فیصلہ کر لوں کہ میں ہندوؤں کے ساتھ رواداری اور بھائی چارے کے اظہار کیلئے ان کے مذہبی تہوار ہولی میں شریک ہو جاؤں، تو کیا میں یہ توقع رکھ سکتا ہوں کہ بدلے میں جب عیدالاضحیٰ آئے تو وہی ہندو میرے ساتھ گائے ذبح کریں اور اس کا گوشت بھی کھائیں؟ ظاہر ہے یہ توقع نہ صرف غیر معقول ہوگی بلکہ ناجائز اور ناقابلِ قبول بھی ہوگی۔ یہی نکتہ اس پوری بحث کی بنیاد ہے جسے ہم عموماً جذبات، نعرے اور سطحی دلائل کی نذر کر دیتے ہیں۔ تمام مذاہب کی اپنی اپنی ایمانیات، عبادات اور مذہبی رسومات ہوتی ہیں۔ یہ رسومات محض ثقافتی سرگرمیاں نہیں ہوتیں بلکہ ان کا براہِ راست تعلق عقیدے سے ہوتا ہے۔ رواداری اور بھائی چارے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایک مذہب کا پیروکار دوسرے مذہب کی مذہبی رسومات کو اختیار کرنا شروع کر دے، یا اپنے عقائد کو ایک سماجی تجربہ بنا دے۔ اگر ہم ایسا کریں تو نہ رواداری باقی رہتی ہے اور نہ ہی عقیدہ۔ بدقسمتی سے آج رواداری کا تصور اس حد تک مسخ ہو چکا ہے کہ اسے عقیدے پر سمجھوتے کے مترادف بنا دیا گیا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے کسی دوسرے مذہب کے تہوار پر مبارکباد نہیں دی، یا اس کی مذہبی اصطلاح استعمال نہیں کی، تو گویا آپ تنگ نظر، انتہاپسند یا غیر مہذب ہیں۔ حالانکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ اصل رواداری یہ ہے کہ آپ دوسرے کے عقیدے کا احترام کریں، اس پر حملہ نہ کریں، اس کی عبادت میں رکاوٹ نہ ڈالیں، مگر ساتھ ہی اپنے عقیدے پربھی مضبوطی سے قائم رہیں۔ اگر ہم پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک کی بات کریں تو یہاں ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب

سے تعلق رکھنے والے شہری موجود ہیں۔ ان کے مذہبی تہوار، عبادات اور رسومات ان کا آئینی اور اخلاقی حق ہیں۔ ایک مسلمان معاشرے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں محفوظ، باوقار اور سازگار ماحول فراہم کریں تاکہ وہ اپنے مذہبی فرائض آزادی کے ساتھ ادا کر سکیں۔ ان کے گرجا گھروں، مندروں یا مذہبی اجتماعات میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنا نہ اسلامی ہے اور نہ انسانی۔ لیکن یہ ذمہ داری اس بات کا تقاضا ہرگز نہیں کرتی کہ ہم خود ان رسومات کا حصہ بن جائیں جو براہِ راست ان کے عقیدے سے جڑی ہوئی ہیں۔ عیسائیت میں کرسمس محض خوشی کا دن نہیں بلکہ ایک مخصوص عقیدے کی علامت ہے۔ ایک مسلمان کیلئے، اس عقیدے کی توثیق کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ’’میری کرسمس‘‘ کہنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ باقی کسی کو مسئلہ پوچھنا ہے تو علماءکرام سے رابطہ کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ کسی کو ’’میری کرسمس‘‘ نہ کہنا بدتمیزی نہیں، نفرت نہیں اور تعصب بھی نہیں۔ یہ محض ایک عقیدے پر مبنی حد بندی ہے۔ جیسے ایک غیر مسلم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہمارے مذہبی شعائر کو اپنائے، ویسے ہی مسلمان سے یہ توقع رکھنا بھی درست نہیں کہ وہ دوسرے مذاہب کی مذہبی اصطلاحات استعمال کرے۔ اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم دوسروں کے تہواروں کا مذاق اڑائیں یا ان کی تضحیک کریں۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم نرم گفتار ہوں، انصاف کریں اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ لیکن اسلام یہ بھی سکھاتا ہے کہ عقیدہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، کوئی رسمی معاملہ نہیں جسے حالات کے مطابق بدلا جا سکے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ مذہبی حدود برقرار رکھتے ہوئے بھی ہم اچھے انسان، اچھے شہری اور اچھے ہمسائے بن سکتے ہیں، تو یہی دراصل رواداری کی اصل روح ہے۔ بھائی چارہ اس بات کا نام نہیں کہ سب ایک جیسے بن جائیں، بلکہ اس بات کا نام ہے کہ فرق کے باوجود ایک دوسرےکے حق کا احترام کیا جائے۔’’میرے لیے میرا دین، تمہارے لیے تمہارا دین ‘‘یہ وہ اسلامی اصول ہے جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی اصول کی بنیاد پر بہت سے لوگ ’’میری کرسمس‘‘ نہیں کہتے، مگر ساتھ ہی سب کیلئے امن، خوشی اور سلامتی کی دعا ضرور کرتے ہیں۔ یہی توازن، یہی فہم اور یہی رویہ ایک صحت مند اور باوقار معاشرے کی بنیاد بنتا ہے۔

تازہ ترین