• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلیم صافی کے نام کھلا خط ۔ایں جواب آں غزل ... محمود خان اچکزئی۔۔۔۔۔چیئرمین پشتونخواملی عوامی پارٹی

SMS: #NRC (space) message & send to 8001
محترم سلیم صافی صاحب !السلام علیکم !
منگل یکم جولائی 2014ء کے روزنامہ جنگ میں آپ کا کالم ’’یہ قوم پرستی اور میرا احتساب‘‘ نظر سے گزرا اور اس بات سے پہلی دفعہ آگاہی ہوئی کہ سیاسی اکابرین کی خبر لینا آپ جیسے درجہ اول کے پاکستانی صحافیوں کا جمہوری ،قانونی اور آئینی حق ہے اور پھر یہ بدقسمت پاکستانی سیاسی اکابرین کا نصیب ہوگا کہ ان کے حصے میں آپ لوگوں کے ’’آزاد ‘‘ قلم سے نکلے ہوئے کون سے نادر اور قیمتی موتی آتے ہیں۔ خداگواہ ہے کہ میں یہ خط باامر مجبوری لکھ کررہا ہوں اس لئے کہ آپ نے میرے متعلق بعض انتہائی اہم باتیں اپنے کالم کے آخر میں بغیر تحقیق کے ایک خاص انداز اور مخصوص پیرائے میں ایک بہت ’’باخبر‘‘ صحافی کی طرح لکھ دی جو روزنامہ جنگ جیسے موقر روزنامے کے قارئین کی نظر سے گزری ہوں گی۔ آپ کی بیش بہا قیمتی معلومات آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت نے پڑھ لیں ہوں گی تو ان پر میرا خاموش رہنا ’’خاموشی نیم رضا مندی‘‘ کے مترادف ہوتا جو میں نہیں کرسکتا۔آپ نے اپنے کالم کے پہلے حصہ میں ہمارے باہمی رشتوں کا انتہائی شریفانہ انداز میں ذکر کیا ہے جس کیلئے میں آپ کا مشکور ہوں۔ آپ کچھ یوں رقم طراز ہیں’’انہوں نے جیو ٹی وی کے دیگر اینکرز کے پروگرامز کا بائیکاٹ کر رکھا تھا لیکن میرے پروگرام میں تشریف لاتے تھے کیونکہ انہیں میں جینوئن صحافی نظر آتا تھا وہ بڑے بھائی کی طرح مجھے نصیحت بھی کیا کرتے تھے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کیخلاف زیادہ شدت سے نہ لکھوں کیونکہ ان کے بقول مجھے قتل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ صافی صاحب! آپ کے علاوہ میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے ایک دو پروگرام میں بھی گیا ہوں البتہ آپ اس سلسلے میں دو باتیں بھول گئے ہیں یا قصداً ان کا ذکر نہیں کیا پہلی بات یہ کہ جب میں نے آپ کو ایک جینوئن صحافی سمجھ کر آپ کو ایک گھنٹہ کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کرایا اکرم شاہ خان میرے ساتھ تھے، بڑے خوشگوار ماحول میں تفصیلی گپ شپ کے بعد آپ نے کہا کہ انٹرویو فلاں دن نشر ہو گا اور اس سے پہلے روزنامہ جنگ میں اس کی تشہیر کردی جائے گی بعد میں آپ کی اکرم شاہ خان کو کال آئی کہ میں وہ انٹرویو وعدے کے مطابق نشر نہیں کر سکتا کیونکہ میرا ادارہ مجھے ایسا کرنے سے منع کر رہا ہے کہ آپ محمود خان اچکزئی کا Exclusive انٹرویو نہیں چلائیں گے بلکہ اسی ریکارڈ شدہ انٹرویو میں کچھ اور لوگوں کو بھی شامل کریں گے آپ نے اکرم شاہ خان کو یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں ریکارڈ شدہ انٹرویو کے content کو نقصان پہنچائے بغیر ایک دو لوگوں کیلئے جگہ نکال لوں گا اور پھر وہ بادل نخواستہ آپ کے اس ’’جینوئن‘‘ کام کیلئے راضی ہوئے اور اس طرح ہمارے ریکارڈ شدہ انٹرویو میں مزید دو افراد کیلئے جگہ بنائی تب جاکر وہ انٹرویو نشر ہوا یقیناً وہ انٹرویو آپ کے ادارے اور ہمارے کارکنوں کے پاس محفوظ ہوگا ۔ مذکورہ انٹرویو کی اس طرح ’’جینوئن نشریات‘‘ کے بعد شاید پھر میں آپ کے پروگرام میں نہیں آیا۔ یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن پوری ایمانداری سے آپ کو لکھ رہا ہوں کہ میرے جذبات ابھی تک وہی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ سے متعلق آپ جس نصیحت کا ذکر کررہے ہیں سلیم بھائی یقین کیجئے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے آپ سے کچھ کہا ہو کیونکہ میں ایسی باتیں بہت کم ہی کیا کرتا ہوں لیکن آپ کی یادداشت پر بھروسہ کرتے ہوئے اس بات کو ownکرتا ہوں البتہ ایک بات آپ شاید بھول رہے ہیں کہ جب محترم مولانا فضل الرحمن صاحب کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی میں (جو فاٹا کے حالات کے حوالے سے اسلام آباد میں بلائی گئی تھی جس میں ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے علاوہ بہت سارے دیگر لوگوں نے شرکت کی تھی) میں نے اپنی تقریر ختم کی تو آپ میرے پاس آئے اور بڑے رازدارانہ اور محبت بھرے لہجے میں مجھ سے کہا ’’خدارا اس انداز میں نہ بولیں پشتون شہداء کی فہرست پہلے سے ہی بڑی طویل ہے‘‘۔ صافی صاحب! اب میں آپ کے کالم کے دوسرے حصے ‘جو پہلے حصے سے بالکل مختلف اور جذباتی انداز میں لکھا گیا ہے کی طرف آتا ہوں۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’حالانکہ گالی تو دینا درکنار میں نے تو کبھی یہ بھی نہیں لکھا کہ انتخابات سے قبل فوج اور ایجنسیوں کے کن کن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان میں کیا طے پایا‘‘۔جناب صافی صاحب !کیا آپ کی صحافت کا معیار یہ ہے؟ کہ ہر سنی سنائی بات پر بھروسہ اور بغیر تحقیق و تصدیق اس کی تشہیر؟
پاکستانی صحافت کے افق پر چمکنے والے باوقار اور سیاسی اکابرین کی ’’خبر‘‘ لینے کے تادم حیات حقدار صحافی سلیم صافی صاحب! آپ بھی اچھی طرح پڑھ لیں اور قارئین کرام کو اس کا گواہ بنالیں کہ زندگی میں کبھی بھی ’انتخابات سے پہلے یا بعد میں‘ اگر میں نے یا میرے کہنے پرہماری پارٹی کے کسی ساتھی یا میرے خاندان کے کسی فرد یا میری خواہش پر میرے کسی دوست یا شناسا نے کسی فوجی افیسر یا فوجی جاسوسی ادارے کے کرتا دھرتا کسی شخص سے اس ارادے سے رابطہ کیا ہو یا ملاقات کی ہو یا سیاسی معاملات کے بارے میں کوئی معاہدہ مستقیماً یا غیر مستقیماً کیا ہو تو جو چور کی سزا ہے وہ میری سزا ہوگی۔ دوسری بات آپ نے جذبات میں آکر یہ لکھ ڈالی کہ ’’میں نے تو اخبار میں لکھنا درکنار کسی کو نجی محفل میں بھی آج تک یہ نہیں بتایا کہ اپنے بھائی کو گورنر بنانے کیلئے میاں نواز شریف کو کس طرح منایا گیا اور پھر ان کی تقرری پر فوج کو راضی کرنے کیلئے کس کے ذریعے کس سے کیا بات ہوئی‘‘۔ ماشاء اللہ اسلوب کی یہ بلندی اور یہ پستی۔
جناب والا! عرض ہے کہ جناب میاں نواز شریف بقید حیات ہیں پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم بنے بیٹھے ہیں اسکے علاوہ بھی پاکستانی معاشرے میں ان کا ایک مقام ہے اپنے دعوے کے تناظر میں ان سے جاکر حلفیہ پوچھ لیں اگر وہ یہ کہہ دیں کہ میں نے یا میرے کسی دوست یا شناسا نے ایسی کوئی کوشش کی ہو، اسی دن میرا بھائی محمد خان اچکزئی گورنر کا عہدہ چھوڑ دیں گے اور میں سزا کے طور پر قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر ملک کے سارے سیاسی دوستوں، کارکنوں اور اپنی پارٹی کے اکابرین سے معافی مانگ کر اپنی چادر سمیت گھر چلا جائوں گا۔ رہی گورنر کی تقرری پر فوج کو راضی کرنے کی بات، سلیم صافی صاحب اگر آپ کے ذریعے یہ بات ہوئی ہو تو ہوئی ہو گی۔
میری طرف یا ہماری پارٹی کی طرف سے جو میری دانست میں ہو یا کسی دوست یا شناسا کے ذریعے کسی سے کوئی بات ہوئی ہو تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ آپ کی اس بات کو بھی میں حرف غلط کی طرح رد کرتا ہوں۔
افواج پاکستان اور ان کے ادارے جو ملکی سیاست میں غیر آئینی طور پر ملوث ہوتے رہے ہیں کے ساتھ میرے تعلقات کی نوعیت کیا ہے اس سلسلے میں باامر مجبوری 3افراد کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
.iمرحوم ڈاکٹر شیرافگن نیازی نے کئی بار قومی اسمبلی کے فلور پر صرف مجھے ہی اس گناہ سے پاک کہا۔(ii)نج پیر سے تعلق رکھنے والے خفیہ ادارے کے ایک ذمہ دار شخص نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں صرف مجھ کو ہی ایک سیاسی Credibleکارکن کہا۔(iii) آپ کے ’’جرگہ‘‘ پروگرام میں ملک کے آخری سابق فوجی حکمران نے بھی مجھ ناچیز کو ایک باکردار سیاسی کارکن کہا۔
انتخابات کے دوران بلٹ پروف گاڑیوں کا ذکرخیر بھی آپ کے کالم کی زینت بنا اس ضمن میں عرض کرتا چلوں کہ محترم یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران میں نے اپنے قلم سے ان کو درخواست دی جو اس وقت کابینہ کے روبرو پیش ہوئی، کابینہ کی منظوری کے کافی مدت بعد جو Copy مجھے بھیجی گئی اس میں واضح طور پر درج تھا کہ اس کی نقول فوجی اسٹیبلشمنٹ اور دوسرے متعلقہ اداروں کو بھی بھیجی گئی ہے۔ انتخابات کے دوران جب یہ گاڑیاں قانونی طور پر یہاں پہنچیں تو بہت سارے لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق اس پر کافی چہ میگوئیاں کیں آپ کو ایک چیز بتاتا چلوں کہ آپ کی طرح کسی دوست نما ’’دوست‘‘ نے ان گاڑیوں کا ذکر خیر پارلیمان کی کسی کمیٹی میں بھی کردیا تھا مجھے تب پتہ چلا جب پردے کے پیچھے کچھ تحقیقات ہو چکی تھیں۔
میرے دورہ کابل کے دوران کس سے کیا باتیں ہوئیں؟سلیم صافی صاحب !میں تفصیل بتانے سے تو قاصر ہوں البتہ ان ملاقاتوں کے دوران پاکستانی وزارت خارجہ کے ذمہ دار افسرصاحبان موجود تھے، باتوں کے 2ادوار ہوئے سیکرٹری خارجہ کے علاوہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر صاحب اور ان کا ایک مددگار تمام مذاکرات میں موجود رہے تفصیلات جاکر ان سے پوچھ لیجئے باقی اس دورے کے دوران میرا دنیا کے کسی فرد سے بلواسطہ یا بلاواسطہ کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا البتہ رات کو کھانے پر اور صبح میرے ساتھیوں کے آنے سے پہلے جناب حامد کرزئی سے وزیرستان آپریشن ‘پاک افغان تعلقات ‘آئی ڈی پیز کو درپیش مشکلات سمیت دیگر بہت کچھ زیر بحث آیا جن کی تفصیلات آپ کو بتانے کا میں پابند نہیں۔
القاعدہ ،طالبان ،ٹی ٹی پی ،وزیرستان اور وہاں کے مسائل کے بارے میں ہماری پارٹی پشتونخواملی عوامی پارٹی کی شروع دن سے ہی اپنی ایک رائے ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق سے بتارہا ہوں کہ ہماری سیاسی رائے کسی بیرونی عنصر یا مشورے کے قطعاً تابع نہیں، ہم نے تو اپنی رائے کا اظہار اکتوبر 2011ء میں روزنامہ جنگ میں ایک مضمون کے ذریعے اس وقت بڑے واضح انداز میں کردیا تھا جب کسی کو اس بارے میں لب کشائی کرنے کی ہمت نہ تھی اس مضمون کا عنوان تھا ’’ فاٹا میں امن کیسے قائم ہو‘‘۔ میرا ایمان ہے کہ اگر اس وقت ہماری تجاویز کو آپ جیسے ’’باخبر‘‘ صحافی ،مقتدر فوجی قوتیں اور حکمران سنجیدہ لیتے تو فاٹا کے لوگوں کو جن تکالیف، مشکلات اور بربادیوں کاسامنا کرنا پڑرہا ہے تو یقیناًآج یہ سلسلہ اتنا شدیدنوعیت کا نہ ہوتا۔ایک شریف النفس پشتون اور پاکستانی کی حیثیت سے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ نے جو حلالی وغیرہ کی بات کی ہے اس سے بہت سارے لوگوں کی توہین تو کیا،بڑی دل آزاری بھی ہوئی ہوگی ممکن ہو تو ان سے معافی مانگ لیں۔80ء کی دہائی میں اس خطے میں ایک خطرناک جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں لاکھوں انسان اور گھر بار برباد ہوئے، ہرذی شعور انسان اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اس خطرناک طوفان میں اپنی بساط کے مطابق مصروف عمل ہے۔ ہم بھی ایک سیاسی پارٹی کے طور پر اس میں شامل تھے اورہیں ضمناً ایک بات عرض کرتا چلوں کہ پشتونخوامیپ سے لوگ اسی لئے ناراض ہیں کہ ہمارے اکابرین اور ہم نے ہر دور میں اپنے ضمیر اور عقل و فہم کے مطابق اپنی سیاسی روش اپنائے رکھی اور جب ایک بار کوئی فیصلہ کیا تو پھر اس پر پوری ایمانداری سے نتائج کی پروا کئے بغیر چل پڑتے ہیں۔ اس خطے اور ملک کے حالات کے تناظر میں ہماری پارٹی کے ذمہ دار ساتھی کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی سوچ اور ضمیر کے مطابق کئی بار یورپ گئے جب موجودہ سیٹ اپ کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا کہ آنے والا کل کیسا ہوگا اور کس طرح ہوگا۔ ہم نے مرحوم اعلیٰ حضرت محمد ظاہر شاہ اور ان تمام افغانوں سے جن تک ہماری رسائی ممکن تھی، ملنے کی کوششیں کی اور ہم ان سے کئی بار ملے بھی اسی سلسلے میں آپ کے دوست حامد کرزئی صاحب سے لندن میں تفصیلی ملاقات ہوئی اس کے بعد یہ سلسلہ جنبانی کبھی بلواسطہ اور کبھی بلاواسطہ جاری رہا۔ سیاست میں مستقل دشمنیاں کم ہی ہوتی ہے کل کے بدترین مخالف آج کے دوست بلکہ کبھی کبھی ساتھی بھی بن جاتے ہیں۔ کرزئی صاحب کا تعلق کس تنظیم سے تھا یا افغانستان کے دیگر سیاسی اکابرین کن کن جہادی تنظیموں سے منسلک رہے میرا اس وقت بھی بعض حضرات سے رابطہ رہتا تھا شہید استاد ربانی ،ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور استاد سیاف صاحب سے وہی تعلق آج بھی ہے۔ مرحوم جنرل قاسم فہیم کے خانوادے سے ان کی وفات پر تعزیت کرنے کابل گیا وہاں پر بہت سے سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں ایک ملاقات استاد سیاف صاحب سے ان کے دینی مدرسے میں ہوئی جو اس وعدے پر ختم ہوئی کہ اگر زندگی رہی تو ان کے گھر پغمان میں ایک نشست ضرور ہوگی الغرض حامد کرزئی سمیت دنیا کے ہر فرد سے ہمارے تعلقات کی بنیاد کو صرف اور صرف سیاسی اہداف کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے،کسی بھی قسم کے مادی وسیلے کا محض تصور کرنا کم از کم مجھ جیسے سیاسی طالب علم اور کارکن کیلئے ممکن نہیں ۔
خزانوں کی چمک دمک ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی جھنکار اور ظالم حکمرانوں کی توپ وتوپنگ کی گھن گرج ہمیں اپنے نظریات سے ہٹا سکی اور نہ انشاء اللہ کبھی ہٹا سکتی ہے۔ دوسروں کی ایماء پر یا دوسروں کے مقاصد کا آلہ کار بن کر کوئی بھی مراعات لینے یا ان کی طرف دیکھنے کو میں کفر کے برابر یا اس سے بھی بدتر گناہ سمجھتا ہوں اور ایسا کرنے والوں کا دنیا کے انتہائی بدقماش اور گرے ہوئے لوگوں میں شمار کرتا ہوں۔ البتہ اپنے مقاصد، پارٹی منشور اور سیاسی پروگرام کیلئے آپ جیسے صحافی سے لیکر دنیا کے کسی بھی انسان سے ہر قسم کی جائز امداد و معاونت لینے کا روا دار تھا، ہوں اور رہوں گا۔
تازہ ترین