ہونی ہوکے رہتی ہے۔ برازیل کے ساتھ ’’ہونی‘‘ ہوگئی۔ دوسری طرف جرمنی کی فتح پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ بارہ سال بعد رب ’’روڑی‘‘ کی بھی سن لیتا ہے۔ یہ پنجابی محاورہ مجھے اس لئے یاد آیا ہے کہ جرمنی کا خواب بارہ سال بعد پورا ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جرمنی کی فرنٹ لائن نے برازیل کے دفاع کو تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا بلکہ جرمنی کے ٹونی کروس اور آندرے شرل چھلاوے بن کر برازیل کی گول پوسٹ پر حملہ آور ہوتے رہے۔ ایک اور جرمن کھلاڑی کلوسے نے برازیل کے رونالڈو کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ برازیل پر منگل کا دن بھاری رہا۔ برازیلین اپنے ہوم گرائونڈ پر بہت روئے۔ رونے کی واحد وجہ خوابوں کا چکنا چور ہونا تھا۔ ماہرین کا یہ خیال ہے کہ برازیل کی شکست کی بڑی وجہ دو شاندار کھلاڑیوں نیاگوسلوا اور نیمار کانہ کھیلنا تھی۔ پاکستانی لوگوں کی آسانی کیلئے میں اسے یوں لکھ دیتا ہوں کہ برازیل کے ساتھ ایسے ہی تھا جیسے مثال کے طور پر اگر یہ کہا جائے کہ 1984ء کے اولمپک گیمز میں حسن سردار اور کلیم اللہ ہاکی کا فائنل نہ کھیلتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پاکستان کے یہ دو کھلاڑی فائنل یا سیمی فائنل نہ کھیلتے تو پاکستان نہ جیت سکتا۔ بالکل اسی طرح کہ 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں یہ کہا جاتا کہ پاکستان کے دو ممتاز بائولرز عمران خان اور وسیم اکرم سیمی فائنل اور فائنل نہیں کھیلیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان نہ جیتتا۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ برازیل کی جیت میں قسمت حائل رہی۔ قسمت کا کھیل بھی عجیب ہوتا ہے، پہلے قسمت میکسیکو کے ساتھ ہاتھ کرگئی تھی سیمی فائنل میں برازیل کے ساتھ ہاتھ کرگئی۔ بس اسے ’’ہونی‘‘ سمجھ کر نظرانداز کردینا چاہئے۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت تک ہالینڈ اور ارجنٹینا کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ جیتنے والا جرمنی پنجہ آزمائی کرے گا اور ہارنے والا برازیل کے ساتھ کھیلے گا۔ فٹ بال اور روزوں کے موسم میں الطاف بھائی نے ایک بڑا اور شاندار جلسہ کرکے پاکستان دشمن قوتوں کو بہت بڑا پیغام دیا ہے۔ کراچی کے مختلف کونوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کیلئے بھی یہ ایک بڑا پیغام تھا۔ کراچی میں کم و بیش بیس لاکھ افراد ایسے ہیں جن کی شہریت غیرملکی ہے یا ان کا اتہ پتہ معلوم نہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے ہمیشہ ہی ان افراد کی بات کی ہے بلکہ طالبان شدت پسندوں کی بات بھی الطاف حسین ایک عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو ایم کیو ایم نے اپنے قائد کے فرمان پر جناح پارک میں ایک جلسہ کیا جس میں حاضرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اس جلسے کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں کم و بیش تمام جماعتوں کے وفود نے شرکت کی۔ ن لیگ، ق لیگ، فنکشنل لیگ ، آل پاکستان مسلم لیگ، عوامی مسلم لیگ یعنی پانچ مسلم لیگوں کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان پیپلز پارٹی نے شرکت کی۔ شیخ رشید احمد بڑے جوشیلے اور جہاندیدہ مقرر ہیں۔ آج کل ان کی موج لگی ہوئی ہے انہیں تیار جلسے ملتے ہیں جہاں وہ خطابت کے جوہر دکھا کر واپس آجاتے ہیں، آکر ٹی وی شوز سنبھال لیتے ہیں۔ ٹی وی شوز میں بھی وہ اکیلے مہمان ہوتے ہیں جیسے جلسوں میں اکیلے مہمان مقرر ہوتے ہیں۔ شیخ رشید نے کراچی میں بھی زبردست تقریر کی۔ اس جلسے میں ایک اور اہم تقریر روبینہ قائم خانی کی تھی۔ روبینہ قائم خانی سندھ کی سب سے متحرک وزیر ہیں۔ انہوں نے شاندار لفظوں میں فوج کو خراج تحسین پیش کیا۔ پیپلز پارٹی کو خواتین کے حوالے سے شاندار ریکارڈ حاصل ہے۔ خاتون وزیراعظم ، اسپیکر مختلف صوبوں اور قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکرز، وزیر اطلاعات کے علاوہ وزیر خارجہ یہ سب پی پی پی کے کھاتے میں ہے۔ اب شاید پیپلز پارٹی کا خیال ہو کہ قائم علی شاہ کے بعد ہم ایک اور مثال قائم کریں گے کہ ہم سندھ کی وزیراعلیٰ ایک خاتون کو بنا کر اس معاملے میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کریں گے۔ اس سلسلے میں روبینہ قائم خانی کی ٹریننگ جاری ہے۔ تھر میں سب سے زیادہ کام روبینہ قائم خانی نے کیا۔ اسٹریٹ چائلڈ فٹ بالرز بھی انہوں نے متعارف کروائے اور اب ایم کیو ایم کے لاکھوں افراد پر مشتمل جلسے کو خطاب کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
مرکزی خطاب الطاف حسین کا تھا، جنہوں نے حاضرین کے ساتھ مل کر پاک فوج کو سلیوٹ کیا۔ انہوں نے دل کھول کر فوج کی حمایت کی، دہشت گردوں کو خوب لتاڑا، آپریشن کی حمایت کی، آئی ڈی پیز کی مدد کیلئے پکارا ۔ الطاف حسین نے بڑی خوبصورتی سے پرویز مشرف کا مقدمہ بھی لڑا۔ میرے ایک دوست سید علی محسن پولیس افسر ہونے کے باوجود پڑھنے لکھنے پر یقین رکھتے ہیں ، بعض اوقات پتے کی باتیں بھی کر جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کہنے لگے کہ کام انسان کی پہچان ہے ایک اچھا صحافی تو وہی ہے جو اچھا لکھ سکتا ہو، اسی طرح ایک اچھا پولیس افسر وہی ہے جو انتظامی رٹ قائم کرسکتا ہو، اچھا فوجی وہی ہے جو دلیری اور بہادری سے لڑ سکتا ہو، جیسے آج کل ہماری فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔
افواج پاکستان کامیابی سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہی ہیں مگر آئی ڈی پیز کی حالت زار بڑی دردناک ہے۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں صرف نثار علی خان کی ناراضی ختم نہیں کرنی چاہئے اور بھی کام کرنے چاہئیں۔ ایک آپریشن پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا تھا، آپ جانتے ہیں کہ سوات آپریشن کے آئی ڈی پیز کو بڑی خوبصورتی سے سنبھالا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے زمرد خان نے تو پکا ڈیرہ وہیں لگا رکھا تھا۔ اب کیا ہے حکومت کی نااہلی سامنے آرہی ہے اسی لئے تمام سیاسی جماعتیں مدد کی اپیلیں کررہی ہیں، وہ سیاسی جماعتیں جو اپنی الیکشن مہموں پر کروڑوں خرچ کرتی ہیں، آئی ڈی پیز کیلئے چندہ اکٹھا کرتی پھر رہی ہیں جیسے ہر مشہور آدمی نے اپنا اپنا اسپتال، اسکول یا این جی او بنا کر قوم کے سامنے جھولی پھیلا رکھی ہو، شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں مشہور آدمیوں نے اتنی بڑی تعداد میں یہ کام کیا ہو۔ مخالف کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ پنجاب کے کسی ایک شہر سے میٹرو منصوبہ ختم کرکے آئی ڈی پیز پر لگادے، انسانوں کی اکثریت، چند لوگوں کی خوشی سے زیادہ اہم ہے۔ امن کے مستقبل کیلئے بھی یہ بہت ضروری ہے۔ کوئی بات نہیں، اگر پنجاب کا کوئی ایک آدھ شہر میٹرو سے بچ بھی گیا تو کوئی بات نہیں۔
نواز شریف سے دو ملاقاتوں کے بعد چوہدری نثار علی خان امریکی سفارت خانے میں ڈھائی گھنٹے گزار آئے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے ایک وضاحت خود ہی کردی ہے۔ انہوں نے میڈیا کے روبرو کہہ دیا ہے کہ ارسلان افتخار (مونٹی کارلوفیم) کی تقرری ان کے والد محترم کی خواہش پر ہوئی تھی۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ سے کیا تھا۔
خبریں ہیں بہت مگر کس کس کی خبر دی جائے۔ پتہ نہیں وہ کونسا وزیر ہے جس کے بارے میں چوہدری نثار علی خان نے بہت کچھ فرما دیا ہے۔ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کونسا افسر ہے جو پونے چار ارب کھانے کے چکر میں ہے۔ ایک اور محکمے میں گیارہ کروڑ کی بے ضابطگیاں پکڑی گئی ہیں۔ طاہر حنفی کا شعر ہے کہ
مصلحت سب کا تھا ایمان بھری بستی میں
سارے دانا تھے کوئی بات نہ سچی کہتا