گلاسگو (طاہر انعام شیخ) گلاسگو کے ایک پاکستانی دکاندار کو مذہبی بنیادوں پر قتل کرنے پر دوسرے پاکستانی کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ جس میں ان کو کم از کم25سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔ 32سالہ تنویر احمد نے24مارچ کو گلاسگو کے اسد شاہ کو چاقو کے پے در پے وار کرکے ان کی دکان میں قتل کردیا تھا۔ اسد شاہ نے فیس بک اور یو ٹیوب پر اپنے مخصوص مذہبی عقائد کے متعلق ویڈیوز پوسٹ کر رکھی تھیں، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں انہوں نے پیغمبری کے دعوے کیے تھے۔ تنویر احمد کو ان کے ایک دوست نے ان ویڈیوز کے متعلق بتایا، جن کو دیکھ کر وہ شدید اشتعال میں آگئے اور بریڈ فورڈ سے آکر اسد شاہ کو قتل کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتول نے اسلام کی بے حرمتی کی ہے۔ گزشتہ ماہ تنویر احمد نے گلاسگو ہائی کورٹ میں اپنی ابتدائی پیشی میں ہی قتل کے جرم کا اعتراف کرلیا تھا۔ منگل کو عدالت کی جج لیڈی رے نے تنویر احمد کو سزا سناتے ہوئے کہا کہ تم نے انتہائی ظالمانہ اور بہیمانہ طور پر ایک امن پسند شہری کو قتل کردیا ہے اور تم کو اپنے اس جرم پر کوئی ندامت نہیں، بلکہ تم اس پر فخر کرتے ہو۔ اسد شاہ یولک شاز میں گروسری کی دکان چلاتے تھے۔ وہ فیس بک پر مختلف قسم کے پیغامات پوسٹ کرتے رہتے تھے۔ اپنی موت سے چند گھنٹے قبل بھی انہوں نے فیس بک پر اپنے پیغام میں عیسائی بھائیوں کو ایسٹر اور گڈ فرائی ڈے کی مبارک دی تھی۔ اسد شاہ نے اپنے مخصوص مذہبی نظریات پر مبنی سیکڑوں کی تعداد میں ویڈیو بنا رکھے تھے۔ ان میں زیادہ تر دکان کے کائونٹر کے پیچھے تیار کیے گئے تھے۔ عدالت کو بتایا کہ ان ہی چند میں اسد شاہ نے خودکو پیغمبر ظاہر کیا تھا۔ بریڈ فورڈ کے ٹیکسی ڈرائیور تنویر احمد کو ان کے ایک دوست نے جب اسد شاہ کی ان ویڈیو ٹیپس کے متعلق بتایا تو وہ طیش میں آگئے اور اس کے ساتھ گلاسگو آئے اور رات قیام کیا۔ اسد شاہ کے متعلق معلومات حاصل کرکے اگلے روز واپس بریڈ فورڈ چلے گئے۔ 24مارچ کو وہ دوبارہ اکیلے گلاسگو آئے اور رات نو بجے کے قریب اسد شاہ کی دکان میں داخل ہوئے۔ اسد شاہ اس وقت اپنے ایک ورکر سٹیفن میکفیڈن کے ساتھ کام میں مصروف تھے۔ تنویر احمد نے دکان کا ایک چکر لگایا اور بعد میں پولیس کو دیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق انہوں نے اسد شاہ کو بتایا کہ کیا تم نبوت کے دعوے دار ہو۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے آیا ہوں۔ اسد شاہ نے اصرار کیا کہ وہ پیغمبر ہونے کے دعویدار ہیں، لیکن انہوں نے خیر سگالی کے طور پر تنویر احمد سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی۔ تنویر احمد نے مصافحہ کرنے سے انکار کردیا اور جیب سے چاقو نکال کر ان کے سر، چہرے اور جسم کے اوپر والے حصوں پر مسلسل وار کرنا شروع کردیے۔ ان کے ملازم میکفدن اور ساتھ والی دکان سے ان کے بھائی نے ان کو بچانے کی بے حد کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اسد شاہ جان بچانے کے لیے دکان سے باہر بھاگے، لیکن تنویر احمد نے اسد شاہ کو جکڑے رکھا اور چاقو مارتے رہے۔ فرانزک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسد شاہ کی کھوپڑی ایسے ٹوٹی ہوئی تھی جیسے کہ کار ایکسیڈنٹ میں ٹوٹتی ہے۔ حملے کے بعد تنویر احمد بڑے اطمینان سے سامنے بس سٹاپ پر گئے اور وہاں سر جھکاکر عبادت کرتے رہے۔ انہوں نے موقع واردات سے بھاگنے کی قطعاً کوئی کوشش نہ کی۔ جب پولیس نے گرفتار کیا تو انہوں نے بالکل کوئی مزاحمت نہ کی، بلکہ کہا کہ تم اپنی ڈیوٹی ادا کررہے ہو اور میں آپ کی اس کوشش کا احترام کرتا ہوں۔ میری آپ سے کوئی مخاصمت نہیں۔ میں نے قانون توڑا ہے اور آپ میرے ساتھ جو برتائو کررہے ہو وہ قابل تعریف ہے۔ اسد شاہ کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا، لیکن دس بجے رات ان کو مردہ قرار دے دیا گیا ہے، گرفتاری کے بعد تنویر احمد نے جیل سے اپنے وکیل کے ذریعے ایک خصوصی پیغام دیا کہ اسد شاہ کو قتل کرنے کی وجہ ان کی طرف سے جھوٹے نبی ہونے کا دعویٰ کرنا تھا۔ اسد شاہ ربوہ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ بعدازاں ان کا خاندان برطانیہ آگیا تھا اور یہاں انہوں نے اسائلم حاصل کرلیا تھا۔ تنویر احمد کے توہین رسالت کے متعلق بیان پر سکاٹ لینڈ کی احمدیہ کمیونٹی کے لیڈروں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ توہین رسالت پر کسی کو قتل کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسد شاہ کے والدین، بھائیوں اور بیوی نے کہا کہ اس خوفناک واقعہ کے بعد وہ اب زندگی کبھی نارمل طور پر نہیں گزار سکیں گے اور چند نے تو سکاٹ لینڈ چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ تنویر حسین کے وکیل جان ریفری نے عدالت کو بتایا کہ وہ قتل کے اس واقعہ سے پہلے قانون کا احترام کرنے والے شہری تھے اور معاشرے میں ان کی بڑی عزت تھی۔ وہ بریڈ فورڈ سے اسد شاہ کو قتل کرنے کے ارادے سے نہیں آئے تھے، لیکن نبوت کے دعوے کے متعلق پوچھے جانے پر مقتول کے جواب سے وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ جج لیڈی رے نے کہا کہ یہ قتل احمدیہ کمیونٹی کے خلاف نہیں، لیکن اس کے محرکات مذہبی تھے۔ جب تنویر احمد کو عدالت نے سزا سنائی تو انہوں نے اپنے ہاتھ بلند کرکے کہا کہ ’’پیغمبر ایک ہی ہیں اور وہ عظیم ہیں۔‘‘ اس پر عدالت میں آنے والے لوگوں نے بھی ان کے نعرے کا ساتھ دیا۔