• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور فوج میں تعلقات بہتر ہو رہے ہیں ۔ یہ خبر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ذرائع سے ایک اخبار نے دی تھی ۔ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ’’ آپریشن ضرب عضب ‘‘ کے حوالے سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف تسلسل کے ساتھ بریفنگ دے رہے ہیں اور اس بریفنگ کے بعد دونوں کی ون ٹو ون ملاقات بھی ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن کے حوالے سے فوج اور حکومت ایک ’’ پیج ‘‘ پر ہیں ۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اسے خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ہم جس بحرانی کیفیت سے دو چار ہیں ، اس میں ملک کسی بھی مسئلے پر حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ نہ صرف حکومت اور فوج بلکہ پوری قوم کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کی ضرورت ہے ۔ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔
روزانہ درجنوں بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں ۔ غربت ، بے روزگاری ، بھوک ، افلاس ، بیماریوں ، بجلی ، گیس اور پینے کے صاف پانی سمیت بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور دیگر کئی سنگین مسائل کا پاکستانی قوم کو سامنا ہے لیکن دہشت گردی کے مقابلے میں یہ مسائل بہت چھوٹے نظر آتے ہیں ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہو کیونکہ زندگی کے تحفظ کے بغیر باقی سب کچھ بے کار ہے ۔
پاکستانی قوم اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتی ہے کہ پاکستان میں قیام امن کے لئے مذاکرات ضروری ہیں یا فوجی آپریشن ؟ انہیں تو ہرحال میں امن چاہئے ۔ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پوری پاکستانی قوم کے نمائندہ سیاسی رہنماؤں نے اسے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ۔ ان مذاکرات کو جتنا وقت دیا جانا چاہئے تھا ، وہ قوم کی طرف سے دیا گیا اور کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی گئی ۔ جب پاکستانی افواج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا اور اس کا قوم کو پتہ بھی ذرائع ابلاغ سے چلا تو بھی قوم نے اس آپریشن کی بھرپور حمایت کی حالانکہ آپریشن کے حوالے سے قومی سیاسی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا ۔ اس کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں نے آپریشن کی حمایت میں پریس ریلیز اور بیانات جاری کرکے قومی یکجہتی کا اظہار کیا ۔ بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے فوج کے حق میں ریلیاں بھی نکالیں اور مظاہرے بھی کیے ۔
متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) نے فوج سے اظہار یکجہتی کے لئے کراچی میں ایک بڑا عوامی اجتماع منعقد کیا ۔ وہ مذہبی جماعتیں ، جو آپریشن کی مخالف ہیں ، انہوں نے بھی پراسرار خاموشی اختیار کی اور آپریشن کے خلاف کسی عوامی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ اس صورت حال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ قیام امن کے حوالے سے پاکستان کے عوام کی حکومت اور مسلح افواج سے کیا توقعات ہیں ۔ عوام کے لئے یہ خبر اطمینان کا باعث ہو گی کہ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کے عوام یہ بھی نہیں کریدنا چاہتے ہیں کہ حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کا تاثرکیوں پیدا کیا گیا تھا ۔ پاکستان کے عوام یہ بھی سوال نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کے حوالے سے کیا معاملات طے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ قیام امن ہے ۔ پاکستان کے عوام ان رپورٹوںمیں بھی نہیں الجھنا چاہتے ہیں ، جن میں کہا گیا ہے کہ آپریشن ضرب عضب امریکہ کے کہنے پر شروع کیا گیا اور آپریشن سے پہلے طالبان کے اہم جنگجو اس علاقے سے فرار ہوگئے ۔ یہ ساری باتیں پاکستان کے عوام کا مسئلہ نہیں ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اور ان کے پیاروں کی زندگیاں سلامت رہیں ۔
2009ء میں بھی سوات میں دہشت گردوں کے خلاف ’’ آپریشن راہ راست ‘‘ شروع کیا گیا تھا ۔ اس آپریشن میں حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوئی۔ سوات ، مالاکنڈ اور دیر میں بظاہر دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا اور نقل مکانی کرنے والے لوگوں ( آئی ڈی پیز ) کو واپس ان کے گھروں میں آباد کیا گیا ۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا ، جس پر دنیا حیران ہے ۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت اور فوج بھی ’’ ایک پیج ‘‘ پر تھیں کیونکہ پیپلز پارٹی کسی دوسرے پیج پر جانے کی ہمت بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ اس آپریشن سے اگرچہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا لیکن کوئی سوالات پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی دوسرے ’’پیج ‘‘کھلے ۔ اب لوگ دہشت گردی سے مکمل طور پر عاجز آ چکے ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔ اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کے علاوہ کسی دوسرے آپشن پر سوچا جائے ۔ پاکستان کے عوام یہ توقع کر رہے ہیں کہ صرف قبائلی علاقہ جات میں ہی نہیں بلکہ کراچی میں بھی امن قائم ہو گا ۔ کچھ سیاسی عناصر ایسے ہیں ، جو آپریشن کے باوجود ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی تھی کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے وہ اپنی تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کردیں ۔ پوری قوم اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرے لیکن اس اپیل کو درخوراعتناء نہیں سمجھ رہے ۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے بعض حلقے یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ حکومت اور فوج ’’ایک پیج ‘‘ پر نہیں ہیں ۔ اس مرتبہ آپریشن کی کامیابی کو پاکستان کے مستقبل کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔
آپریشن کے دوران اگر سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو یہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم کے اتحاد و یکجہتی کے لئے بہت بڑا دھچکا ہو گا اور قوم سیاسی طور پر تقسیم ہو سکتی ہے ۔ اس سے قیام امن کا خواب پورا نہیں ہو گا ۔ اگر خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہوا تو نہ صرف حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کا تاثر ختم ہو جائے گا بلکہ کئی اور ’’ پیج ‘‘بھی کھل جائیں گے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ بحران ہماری توقع سے بھی زیادہ سنگین ہو جائے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فوج اور سول حکومتوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کا از سر نو تعین کیا جائے تاکہ حکومت اور فوج ایک پیج پر رہیں اور ماضی کی طرح کوئی دوسرے پیج نہ کھل سکیں۔
تازہ ترین