• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو شعبہ تعلیم میں ایک قومی بحران کا سامنا ہے جس پر ایک قومی ردعمل ظاہر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اس سے نمٹنے کی ذمہ داری صوبوں کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔
قومی ردعمل پر زور دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ترمیم کو واپس لینے کے حق میں دلائل دئیے جائیں جو کہ سیاسی طور پر ایک ناممکن سی بات ہے۔ بلکہ دراصل اس ضرورت پر زور دینا ہے کہ وفاقی حکومت (اول) اس نازک پالیسی محاذ پر قیادت کا مظاہرہ کرے (دوم) کلیدی امور کو قومی طور پر حل کرنے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کرے جس طرح تمام اچھے وفاقی نظام کرتے ہیں (سوم) اور تعلیم پر فوری عمل درآمد کرنے کے لئے صوبائی حکام کی رضامندی اور تعاون حاصل کرے۔پاکستان کی حالت اور قسمت کیلئے کوئی مسئلہ اتنا زیادہ اہم نہیں جتنا ہمارے بچوں کو فراہم کی جانے والی تعلیم کا معیار اور اس سے روا رکھے گئے سلوک میں تبدیلی کا معاملہ ہے۔ تعلیم کی موجودہ بدترین حالت زار کا مطلب ملک کا تاریک مستقبل ہے۔حقائق بہت ہولناک ہیں۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ڈھائی کروڑ بچے یا 5 سے 16 سال کی عمر کی بچوں کی تقریباً نصف تعداد اسکول نہیں جاتی۔ ان میں سے دو تہائی لڑکیاں ہیں۔جو بچے اسکول جاتے ہیں ان میں سے 46 فیصد بنیادی تعلیم مکمل کرنے سے قبل اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں داخلے کی مجموعی شرح 57 فیصد ہے، جو مڈل اسکول میں ڈرامائی طور پر 22 فیصد تک گر جاتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کی تعداد 50 فیصد ہے جنھوں نے اسکول کا منہ دیکھا ہے۔ جبکہ دیہی پاکستان میں 39 فیصد نے اسکول میں پڑھا ہے۔یہ سب کئی دہائیوں سے تعلیم کو نظر انداز کرنے اور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی جانب سے تعلیم پر بہت کم خرچ کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ آج جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم ہونا جنوبی ایشیا میں سب سے کم ترین سطح ہے۔ پاکستان ان ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔جب تک یہ صورتحال ختم نہیں ہوتی پاکستان کو دیگر چیلنجوں کے ساتھ ایک آبادیاتی بربادی کا سامنا ہوگا۔ آئندہ 20 سال میں ملک میں کام کرنے کی عمر والی آبادی (ورکنگ ایج) دگنی ہونے کی توقع ہے۔ ملازمت کی منڈی میں نوجوان تیز رفتاری سے داخل ہورہے ہیں لیکن منافع بخش روزگار کمانے کے لئے کئی نوجوانوں میں تعلیم اور صلاحیتوں کی کمی ہے۔ تعلیم کا معیار اور سطح بلند کئے بغیر ان نوجوانوں کو بیروزگار ی اور تاریک مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک ناکام آبادیاتی بدلاؤ ملک پر سنگین سماجی اور معاشی نتائج مرتب کرے گا۔ یہ ملک کے رہنماؤں کیلئے تعلیم میں ایک قومی ہنگامی صورت حال جیسا رویہ اپنانے کیلئے کافی وجہ ہونی چاہئے۔ لیکن ماضی کی حکومتوں نے تعلیم کے شعبے کو معمولی ترجیح دی ہے سوائے اس وقت جب ڈونر (عطیات دینے والے) سے کوئی گفتگو و شنید کا معاملہ ہو۔پاکستان کو تعلیم یافتہ بنانے کی سرکاری تقاریرکبھی تعلیم میں سرمایہ کاری کےلئے اطمینان بخش مالی وسائل مختص کرنے کے عزم میں تبدیل نہیں ہوئیں، کجا کہ ہر پاکستانی بچے کو تعلیم کا حق دینے کیلئے ایک جامع منصوبے پر عمل درآمد کیا جاتا۔تعلیمی اصلاحات کا چمپئن بن کر بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔ بلکہ اور برا یہ ہوا کہ تعلیم اقربا پروری کی سیاست کی نذر ہوگئی۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کرنے کیلئے کئی دہائیوں سے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی قابلیت کا معیار گرا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اینٹ اور گارے کی روش اپنائی گئی جس کے تحت اسکولوں کو تعمیر کیا گیا جو بمشکل ہی چل سکے کیونکہ وہاں استاد سمیت بنیادی ضروریات ہی موجود نہیں جن میں سے زیادہ تر عرف عام میںگھوسٹ اسکول بن چکے ہیں۔ عدم احتساب کے کلچر نے بھی صورت حال کو مزید خراب کیا کیونکہ سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار مسلسل گر رہا ہے۔اگرچہ اس صورتحال کے ردعمل کے طور پر نجی شعبے کے متاثر کن اقدامات سامنے آئے ہیں لیکن انہوں نے سرکاری اسکولوںسے محروم بچوں کی اکثریت کی بجائے زیادہ تر امیر طبقے کو ہی فائدہ پہنچایا ۔ کسی بھی صورت یہ اقدامات تعلیم کی بڑھتی ہوئی عوامی ضروریات اوراس شعبے میں سرکاری لاپروائی کے درمیان پائے جانے والے خلا کو پر نہیں کرسکتے تھے۔
سرکاری غفلت اور ناگفتہ بہ حالت کا شکار ان سرکاری اسکولوں کے پس منظر میں، 18 ویں ترمیم نےکھلی چھٹی دیتے ہوئے وفاق کے تمام بچے کھچے تعلیمی فرائض کو بھی صوبوں کے حوالے کردیا، اگرچہ اسکولوں اور کالجوں کو چلانے اور اساتذہ کی بھرتی و تربیت کے امور کافی عرصے سے صوبائی حکومتوں کے پاس ہی تھے۔اس کا فوری اور مضر رساں نتیجہ یہ نکلا کہ وفاقی حکومت معاملے سے ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور ترمیم کو ایک عذر کے طور پر پیش کیا یہ دعویٰ کرنے کیلئے کہ سوائے اعلیٰ تعلیم کے اس شعبے میں اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔دنیا کا کوئی بھی وفاق اس انتہائی اہم شعبے میں اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹتا ۔ اور کوئی بھی وفاقی حکومت متوازن تعلیمی ترقی کو یقینی بنانے، اس کا معیار بلند کرنے اور سارے عمل کی نگرانی کرنے کیلئے جامع معاون کردار ادا کرنے کی ضرورت سے خود کو بری الذمہ نہیں کرتی تاکہ واضح بیان کردہ قومی معیارات کو قائم کیا جاسکے۔
تعلیم سے ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہٹنے کی وفاقی حکومت کی کوشش 18 ویں ترمیم کی جانب سے تفویض کردہ آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے: یعنی ہر بچے کو تعلیم کا حق۔ آئین کا آرٹیکل 25 اے ریاست پر 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو لازمی تعلیم مفت فراہم کرنے پر زور دیتا ہے۔اگر اس شق کی خلاف ورزی کے روزانہ ڈھائی کروڑ واقعات ہورہے ہیں تو کس کی ذمہ داری ہے کہ اسے روکے؟ یقینا یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آگے بڑھے اور صوبوں سے اس شق کی پاسداری کرائے، اس کے ساتھ ہی ہر بچے کو تعلیم دلانے کیلئے دونوں کو مشترکہ ضمانتی بھی بننا چاہئے۔تعلیم کیلئے مختص فنڈ میں اضافے سے ہٹ کر وفاقی حکومت کو زیادہ بڑے امور پرکردار ادا کرنا ہوتا ہے جن میں قومی نصاب تشکیل دینا، قومی بینچ مارکنگ (نقطہ حوالہ) کیلئے ڈیٹا جمع کرنا ،نگرانی کرنا اور مشترکہ پیمانے وضع کرنا تاکہ ملک بھر میں معیار کو یقینی بنایا جاسکے۔ ڈونرز کے تعاون کو بھی وفاقی سطح پر مرکزی دھارے میں لانا ہوگا تاکہ بین الاقوامی ترقیاتی امداد میں الجھن اور غلط ترجیحات سے بچا جاسکے۔
صوبائی طرز حکمرانی کی استعداد اور علاقوں کے مابین آمدنی و تعلیم کے سطحوں دونوں میں موجود عدم مساوات ایک بھرپور وفاقی کردار ادا کرنے پر ابھارنے والا معاملہ ہے۔تعلیم میں صوبائی عدم مساوات کا مضبوط ہونا 18 ویں ترمیم کے غیر ارادی مضمرات میں سے ایک تھا۔ الف اعلان اور ایس ڈی پی آئی کی جانب سے ضلعی تعلیمی رینکنگ کا کرایا جانے والا حالیہ سروے اس حوالے سے تاریک منظر کشی کرتا ہے۔سروے سے پتہ چلا ہے کہ صوبوں اور ضلعوں کے درمیان تعلیم کے معیار میں وسیع تفریق ہے۔ ٹاپ رینکنگ والے اضلاع کی اکثریت پنجاب سے ہے۔ خاص طور پر ملک بھر کے ٹاپ 20 اضلاع میں خیبر پختون خوا اور سندھ کےکسی ضلع کا نام نہیں تھا۔تعلیمی رینکنگ میں شمالی پنجاب کے اضلاع کا غلبہ ہے جن کے بعد مرکزی اضلاع آتے ہیں۔تاہم جنوب کی کارکردگی خراب جارہی ہے۔ کراچی کو ہٹاکر سندھ کی کارکردگی بھی اتنی ہی خراب ہے جتنی بلوچستان کے اضلاع کی ہے۔ خیبر پختون خوا کے چند اضلاع میں بہتری آئی ہے لیکن مجموعی طور پر تعلیم کی تصویر کامیابی کے اسکور اور صنفی برابری میں انحطاط کو ظاہر کرتی ہے۔یہ نتائج یقیناً مطابقت رکھتے ہیں اور صوبوں کے مابین سماجی معاشی ترقی کی سطحوں میں تغیر کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن اس نے محض اسی موقف کو تقویت بخشی ہے کہ تعلیم کی سطحوں میں صوبائی عدم مساوات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فرق کو مٹانے یا کم کرنے کیلئے پوری تندہی سے کام کرے اور غیر مساوی رسائی اور صنفی عدم توازن کو ٹھیک کرے۔تو پھر وفاقی حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟ سب سے پہلے ایک طریقہ کار وضع کرے یا پھر موجودہ ادارے مثلا مشترکہ مفادات کونسل کو ہی بروئے کار لاتے ہوئے قومی پالیسی کے اہداف پر ایک سمجھوتہ تیار کرے جس میں علاقائی عدم مساوات کو ختم کرنے کے اقدامات بھی شامل ہوں۔ قومی معیارات وضع کرنے کیلئے ایک مشترکہ نصاب تشکیل اور انتظامات ترتیب دئیے جائیں۔
صوبے وفاقی حکومت سے ملنے والا پیسہ خرچ کرتے ہیں (وہ بمشکل ہی خود سے کوئی وسائل جمع کرتے ہیں)، تو مرکز کو چاہئے کہ وہ اس مالیاتی حقیقت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ صوبائی حکام ان وسائل کا بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کریں۔
اگلے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کیلئے جاری بات چیت مستقبل قریب میں شروع ہونی ہے جس میں صوبوں کو وفاقی ٹرانسفرز کا تعین کیا جائے گا۔ یہ ایک اہم ذریعہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مرکز تعلیم پر ہونے والے اخراجات کیلئے اضافی ٹرانسفرز کو مشروط کرکے صوبوں کے تعلیم پر زیادہ اخراجات کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت کو متحرک کیا جائے تو اس کے پاس ایسے کئی طریقے اور راستے ہیں جن کے ذریعے وہ پاکستان کی قومی تعلیمی ایمرجنسی پر ایک قومی ردعمل کو جنم دے سکتی ہے یا ایسا کرنے کے لئے سیاسی قوت ارادی کی ہمت پیدا کرسکتی ہے۔اور درحقیقت یہ تعلیم میں سرمایہ کاری ہی ہے جو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے نہ کہ لیپ ٹاپ کی تقسیم یا حکومت کی جانب سے اسی طرح کے اقدامات جو چیلنج کو حل کرنے کی بجائے فی الوقت اس کی اہمیت کو کم کردیتے ہیں۔
تازہ ترین