• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق صدر آصف علی زرداری کی واشنگٹن آمد کئی طرح کے سازشی نظریوں کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔ ان افسانہ طرازیوں میں سب سے اہم بات یہ کی جارہی ہے کہ صدر آصف علی زرداری جمہوری نظام کی بقا کے لئے امریکہ کو اس ضمانت کے بارے میں یاد دہانی کرانے آئے ہیں جو اس نے این آر او کے تحت دی تھی۔ دریں اثناء حکومت کے دوسرے اعلی حکام بھی امریکہ سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ بظاہر تاثر یہی ہے کہ بہت عرصے کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں استحکام آیا ہے اور چند شکوک کے باوجود طرفین میں کوئی بہت بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی ملاقات امریکہ کے نائب صدر جوزف بائیڈن کے ساتھ ہوئی جس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ یہ ملاقات ایک افطار پارٹی پر ایک پاکستانی امریکی رفعت محمود کے گھر پرہوئی۔ رفعت محمود امریکی سرکاری حلقوں کے بہت قریب ہیں اور ماضی میں بھی اس طرح کی اعلی شخصیات کی میزبانی کرتے رہے ہیں۔ اس افطار پارٹی میں میڈیا کا داخلہ بند تھاجس کی وجہ سے کسی طرح کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ جو رپورٹیں سامنے آئیں ان کے مطابق اس افطار پارٹی میں کافی پاکستانی اور امریکی مدعو تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق صدر نے امریکی نائب صدر اور کچھ کانگریس ممبروں سے باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی لیکن اس طرح کی افطار پارٹی میں کوئی اہم پالیسی معاملات کے بارے میں گفت و شنید محال ہے۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے انکشاف کیا ہے کہ این آراو میں یہ طے پایا تھا کہ تین الیکشنوں یا پندرہ سال کے لئے کوئی مارشل لا نہیں لگے گا اور اس کی ضمانت امریکہ اور کچھ دوسرے دوست ملکوں نے دی تھی۔ یہ دعوی کئی پہلووں سے مضحکہ خیز ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ یہ ضمانت کیسے دے سکتا ہے کہ پاکستانی فوج مارشل لا نہیں لگائے گی۔ گویا کہ پہلے لگنے والے مارشل لا امریکہ کے کہنے پر یا اس کی رضامندی سے لگائے گئے۔ اس میں یہ مفروضہ بھی انتہائی بے بنیاد ہے کہ امریکہ پاکستان کی فوج کی فیصلہ سازی کو کنٹرول کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر مارشل لا اندرونی عوامل اور اداروں کی کشمکش کے نتیجے میں لگائے گئے۔ آخری مارشل لا جنرل مشرف نے لگایا تھا جس کے بارے میں تقریباً وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں امریکی رضامندی شامل نہیں تھی۔ بلکہ یہ کہا جا سکتاہے کہ یہ امریکی خواہشات کے خلاف تھا کیونکہ جنرل مشرف کارگل کی فوجی مہم جوئی کر چکے تھے جو امریکہ کے لئے درد سر بن گئی تھی۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کوہنگامی دورہ واشنگٹن میں صدر بل کلنٹن سے ملاقات کرنا پڑی تھی تاکہ بھارت کو پاکستان کے خلاف کارروائی سے باز رکھا جا سکے۔ صدر کلنٹن نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ کس طرح انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کی جان بچانے کے لئے اہم کردار ادا کیاتھا۔ گویا کہ جنرل مشرف کے مارشل لا میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔یہ مفروضہ بے بنیاد ہے کہ پاکستانی فوج امریکی حکم کی تابع ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ کو تو شکایت ہی یہی ہے کہ پاکستانی فوج اپنی من مانی کرتی ہے اور علاقے میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچاتی ہے۔ امریکہ 2001 کے بعد سے یہ مطالبہ کرتارہا ہے کہ پاکستان افغان طالبان اور القاعدہ کے رہنماؤں کے خلاف کاروائی کرے لیکن پاکستان نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یہ راز سب کے علم میں ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہیں کرتا رہا تو کم از کم وہ ان کو نظر انداز ضرور کرتا رہا ہے۔ اب جب کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوج کشی کررہا ہے تو بہت سے ناقدین اب بھی کہتے ہیں کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کو پیشگی اطاعات فراہم کرکے محفوظ مقامات پر منتقل کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کے سرکاری حلقے حقانی نیٹ ورک کے معاملے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یا پاکستان کی ان یقین دہانیوں کو وزن دے رہے ہیں کہ فوجی اپریشن بلا تمیز سب طالبان اور جہادی تنظیموں کے خلاف ہو رہا ہے اور یا پھر وہ اس معاملے کواس وقت ثانوی سمجھتے ہوئے نظر انداز کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔
عمومی طور پر پاکستانی فوج اپنے معاملات میں امریکی مداخلت کو بالکل برداشت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے جب کیری لوگربل میں فوج کے بارے میں کچھ شرائط رکھی گئیں تو اس پر بہت واویلا مچایا گیا۔ کیری لوگر بل میں کہا گیا تھا کہ فوج ہر پہلو سے سویلین حکومت کی تابع رہے اور اپنے تمام معاملات جمہوری حکومت کے احکامات کے مطابق کرے۔ فوج نے اسے اپنے معاملے میں درندازی سمجھا اور اس کی اتنی مخالفت کی کہ کیری لوگر بل تبدیل کرنا پڑا۔ اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ہو یا میمو گیٹ، فوج امریکہ کی مداخلت کے بارے میں بہت حساس ہے۔ غرضیکہ یہ کہنا واجب ہوگا کہ پاکستان میں امریکہ کے کہنے پر نہ تو مارشل لا لگ سکتا ہے اور نہ ہی رک سکتا ہے۔
اس وقت امریکی توجہ افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف مرکوز ہے۔ امریکہ پاکستان سے اس سلسلے میں تعاون کا خواہاں ہے۔ امریکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی اور طالبان کا خاتمہ کرے تاکہ خطے میں استحکام آئے۔ امریکہ اس سال کے آخر تک اپنی زیادہ تر فوجیں افغانستان سے نکال لے گا جس کے بعد سیکورٹی کی ذمہ داری افغان سیکورٹی اداروں کے ہاتھ میں ہوگی۔ امریکہ کی آٹھ سے دس ہزار تک فوجی افغانستان میں مقیم رہیں گے جس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی اعانت کی شدید ضرورت رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے لئے کولیشن سپورٹ فنڈ کو کسی نہ کسی شکل میں قائم رکھے گا۔پاکستان کو افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ پاکستان کو خوف ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغان حکومت گرسکتی ہے اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ افغانستان کی خانہ جنگی کے پاکستان کے لئے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ نہ صرف افغان مہاجرین کا ایک سیلاب آسکتا ہے بلکہ پاکستانی طالبان افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں بنا کر پاکستان پر حملے کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند ہفتے پیشتر پاکستان کے سیکرٹری دفاع ، آصف یاسین ملک ، نے امریکیوں سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ افغانستان سے انخلاء 2016 تک ملتوی کردے۔
امریکہ کے طویل دورے پر آئے ہوئے وزیر اعظم کے خصوصی اسسٹنٹ برائے خارجہ امور سید طارق فاطمی نے سیکرٹری دفاع کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ سے انخلاء کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کا داخلی مسئلہ ہے کہ وہ افغانستان سے کب اور کیسے فوجوں کا انخلاء کرتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ پاکستان کے عسکری ادارے اور حکومت ایک ہی صفحے پر نہیں ہیں۔ یا یہ ہے کہ حکومت عسکری قیادت کی فکر کو عوامی سطح پر تسلیم نہیں کرنا چاہتی۔ بہرحال سیکرٹری دفاع اور طارق فاطمی صاحب کے حالیہ دوروں کا مقصد کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقوم کا جلد از جلد اجراء ہے۔ ظاہر بات ہے کہ پاکستان کو شمالی وزیرستان میں فوجی اپریشن کے لئے بے پناہ وسائل درکار ہیں جس میں امریکی امداد کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
تازہ ترین