شام کا وقت ہے، تھانہ ڈبن پورہ کا ایس ایچ او انسپکٹر بہار عالم سارادن اشتہاری ملزمان کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے سلسلے میں جگہ جگہ چھاپہ زنی کرنے کے بعد تھکا ہارا تھانے میں واپس لوٹتا ہے اورابھی دفتر میں بیٹھتا ہی ہے کہ تھانے کا محرر تقریباً بھاگتا ہوا ایس ایچ او کے دفتر میں داخل ہوتا ہے۔
ایس ایچ او: او کیا ہوگیا، خیریت تو ہے؟ کیوں حواس باختہ ہورہے ہو؟
محرر: سر مسئلہ بن گیا ہے، بس دعا کریں اللہ خیر کرے۔
ایس ایچ او: (محرر کی بات کاٹتے ہوئے) کچھ بتا بھی دے، کوئی ڈاکہ پڑ گیا ہے یا قتل ہوگیا ہے؟
محرر: سر ڈاکہ یا قتل ہوتا تو پھر کیا پریشانی تھی، ٹیکر چل گیا ہے، ٹی وی پر، ٹیکر۔
ایس ایچ او: او بے وقوف پتہ تو چلے کس چیز کا ٹیکر چل گیا ہے۔
محرر: سر جی ٹی وی پر ابھی ابھی ٹیکرچلا ہے کہ تھانہ ڈبن پورہ کے علاقہ میں چار اوباشوں نے لڑکی سے زیادتی کر ڈالی ہے۔
ایس ایچ او: ایسے بول ناں،، یہ ٹیکر نہیں بھائی، ہمارے گلے پر تلوار چلی ہے، تلوار منشی بس دعا کر دعا۔ دعا ہی ہے جو آئی مصیبت کو ٹال سکتی ہے۔اس دوران تھانے کے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ ایس ایچ او کا رنگ اڑ جاتا ہے۔ اپنا ایک ہاتھ فون کی طرف بڑھاتا ہے اور محرر سے کہتا ہے کہ چل جلدی کر باہر کا ذرا ’’فضائی‘‘ جائزہ لے کر آ۔
ایس ایچ او(ریسیور کان کے ساتھ لگا کر) : ہیلو سر، جی سر (دوسری طرف ایس پی صاحب لائن پر ہوتے ہیں)
ایس پی : پھر چلوا دیا ناں ٹیکر، پھر کرا دی ناں لڑکی کے ساتھ زیادتی!نالائق کہیں کے۔ ابھی پچھلی زیادتی کی انکوائریاں ختم نہیں ہوئیں کہ دوسری کرا ڈالی۔ لگتا ہے خود تو جیل کی سیر کرو گے، میری نوکری بھی خراب کرو گے۔
ایس ایچ او: سر میں نے سارے حقائق معلوم کرلئے ہیں۔ دراصل لڑکی کا پچھلے دو سال سے ایک لڑکے کے ساتھ افیئر چل رہا تھا۔ پچھلے دنوں لڑکی کے باپ کو ساری بات کا علم ہوگیا تو اس نے لڑکی کے آشنا اور اس کے دو بھائیوں پر زیادتی کا الزام لگا کرتھانے میں درخواست دے دی ہے۔
ایس پی: او تو زیادہ حقائق کا ماما نہ بن، فوراً ایف آئی آر درج کر اور ملزموں کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر، سمجھے۔
ایس ایچ او: رائٹ سر، رائٹ، ابھی تعمیل ہوتی ہے۔ ایس ایچ او فون رکھ کر محرر اور تھانیدار رحمت کو آواز دیتا ہے۔
ایس ایچ او: محرر، فوراً ایف آئی آر کاٹو اور ہاں رحمت تک فوراً چھاپہ مار ٹیم تشکیل دے کرملزمان کو گرفتار کرو۔
رحمت تھانیدار: یس سر ابھی تعمیل ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد رحمت تھانیدار تین نوجوانوں کو پکڑ کر لاتا ہے اور حوالات میں بند کردیتا ہے، اور ایس ایچ او سے مخاطب ہوتا ہے۔
رحمت تھانیدار: سر یہ تو تین بھائی ہیں۔ مدعی کوشاید غلط فہمی ہوئی ہے کہ اس نے چار بھائی لکھوائے ہیں۔
ایس ایچ او: مدعی کو گولی مار، ٹیکر میں کتنے بندوں کا ذکر تھا؟
رحمت تھانیدار: سر ٹیکر میں تو چار بندوں کا لکھا تھا۔
ایس ایچ او: یہ میرا سر درد نہیں کہ وہ چار کی بجائے تین بھائی ہیں۔ مجھے نہیں پتہ، مجھے چاربندے پورے کر کے دو۔ جہاں سے مرضی لائو۔تھوڑی دیر بعد رحمت تھانیدار ایک ڈھلتی عمر کے بندے کو پکڑ کر لاتا ہے اور اسے حوالات میں بند کردیتا ہے۔
ایس ایچ او: ہاں مل گیا ناں پھر ان کا چوتھا بھائی؟
رحمت تھانیدار: سر بھائی تو تین ہی تھے، ان کا چوتھا بھائی تو ہے ہی نہیں۔ ان کا باپ پکڑ کر لایا ہوں، چلو ہمارا کوٹہ تو پورا ہو جائے گا۔
ایس ایچ او: شاباش، ویلڈن، اسے پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں۔ ’’آوٹ آف دی باکس‘‘ سوچ
ایس پی صاحب اپنے دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ ان کا ریڈر ان کے دفتر میں داخل ہوتا ہے۔
ریڈر: سر ایس ایچ او ڈبن پورہ نے ابھی ابھی اطلاع دی ہے کہ اس نے زیادتی کیس کے چاروں ملزم گرفتار کرلئے ہیں۔
ایس پی: ویلڈن، اسے شاباش دو، اوراس کی اطلاع ایک سپیشل رپورٹ کے ذریعے اوپر بھی کردو۔
ریڈر: رائٹ سر۔ اور سر ابھی ابھی ایس ایچ او منحوس پورہ نے اطلاع دی ہے کہ ٹی وی پر ایک ٹیکر چلا ہے کہ ان کے علاقے میں بھی ایک آوارہ لڑکے نے ایک لڑکی سے زیادتی کر ڈالی ہے۔ مگر سر ایس ایچ او کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تصدیق کی تو پتہ چلا کہ جس لڑکے سے منسوب زیادتی کا ٹیکر چلا ہے وہ تو لڑکا بھی نہیں ہے بلکہ خواجہ سرا ہے اس محلے کا۔ لگتا ہے کہ رپورٹر نے غلط فہمی کی بنیاد پر ٹیکر چلا دیا ہے۔ اس لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ خواجہ سرا کے خلاف تو اب پرچہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایس پی: اسے کہو زیادہ خواجہ سرا کا ماما مت بنے، زنا کا پرچہ کاٹے، پرچہ۔ شاباش فوراً۔ زیادہ حقائق معلوم کرنے کی دنیا میں مت الجھے۔ اسے پتہ ہونا چاہئے کہ ٹیکر چل چکا ہے۔
ریڈر: رائٹ سر، ابھی تعمیل ہوتی ہے۔