• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس پرتو تقریباً اجماع موجود ہے کہ ملک میں جمہوریت ہونی چاہئے۔ لیکن کیا پاکستان کے سیاسی اکابرین اس مسئلے پر جس طرح بظاہر متفق نظر آتے ہیں، کیا باطنی طور پر بھی ان کا عمل ان کی اس سوچ کا عکاس ہوتا ہے؟ مگر اس کا جواب اکثرنفی ہی میں آتا ہے۔ بظاہر اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مقتدر سیاسی اکابرین کے خلاف کہیں نہ کہیں کوئی تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ کبھی اس کے ڈانڈے اسٹیبلشمنٹ تک بھی جا پہنچتے ہیں تو بعض اوقات بیرون ملک تک بھی چلے جاتے ہیں۔
بعض اوقات سیاست دانوں میںبھی اس حوالے سےاجتماعی فراست اجتماعی کا فقدان محسوس ہونے لگتا ہے کہ کیا وہ اپنے اس حق پر حقیقی معنوں میں متفق ہیں کہ ملک پر حکمرانی سیاست دان کریں گے؟ یا وہ طالع آزما یا غیر سیاسی قوتوں کے زیر اثر فیصلے کریں گے۔ ایک اطلاع کے مطابق عمران خان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ کی یہ تحریک کیا مارشل لا پر منتج ہوسکتی ہے؟ تو انہوں نے جواباً کہا کہ ہمیں فلاں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک میں مارشل لا نہیں آئے گا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ دونوں کی کامیابی کے امکانات اس لئے نہیں ہیں کہ پاکستان میں کوئی تبدیلی کبھی بھی عوامی طاقت کے بل پر نہ آسکی اور نہ ہی اس کا کوئی طریقہ کار دستورِ پاکستان میں وضع کیا گیا ہے کہ کسی حکومت کو عوامی طاقت سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیاجائے۔
یقینا عمران خان جو یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ 14اگست کو اس حکومت سے نجات ملے گی اور ایک نئے پاکستان کا سورج طلوع ہوگا، یہ دعویٰ اپنے معنوں میں تو بڑا پرکشش ہے لیکن عملی طور پر اسے روبہ عمل لانا جوئے شیر لانے کے برابر ہوگا۔ جبکہ دوسری جانب انقلاب مارچ کے دعویدار ڈاکٹر طاہر القادری فرماتے ہیں کہ وسط مدتی انتخابات ان کے مسائل کا حل نہیں بلکہ انقلابی اصلاحات لازمی ہیں تاکہ عوام کو ان کے حقوق مل سکیں۔ لیکن وہ یہ پروگرام دینے میں ناکام ہیں کہ انقلابی اصلاحات کا دورانیہ کتنا ہوگا اور انتخابات کی راہ کب تک ہموار ہوسکے گی؟ یہ وہ سوال ہیں جو بڑے ابہام کو جنم دے رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اسی ابہام سے تیسری قوت فائدہ اٹھا لے ۔ عمران خان انتخابی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ شد ومد سے کررہے ہیں۔ اس ضمن میں پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی تشکیل پاچکی ہے جس کے سربراہ بھی بن چکے ہیں۔ملک میں آئینی ترامیم پرعمل کے حواے سے اب تک جو بھی ہوتا رہا ہے، اسے دیکھ کرمحض قانون سازی کافی نہیں لگتی کیونکہ تیرہویں اور چودھویں آئینی ترامیم پلک جھپکتے میں منظور ہوئیں مگر وہ بھی عوامی مسائل کا حل نہ دے سکیں ۔ عرصے تک آٹھویں ترمیم نزع کا باعث بنی رہی اور بالآخر ختم ہوئی۔
سیاست دانوں کی فراست اجتماعی کا ایک امتحان اس وقت بھی تھا جب وہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پاکستان کے آئین میں وسیع البنیاد اصلاحات لانے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھے اوربالآخر 100سے اوپر ترامیم کے ذریعے دستورِ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم متفقہ طور پر منظورہوئی۔ بہت سے معاملات میں بہتری ہوئی لیکن خرابیاں زیادہ پیدا ہوئیں۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل ، نگراں وزیر اعظم کے تقرر سمیت بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں الجھائو بڑھ گیا ، جس کی وجہ سے گڈ گورننس کی منزل حاصل نہیں کی جاسکی۔
اب بھی آئینی ترامیم کو اکثریت سے جوڑا جاتا ہے، جبکہ دنیا بھر کا مسلمہ اصول ہے کہ قانون سازی عقلی ، منطقی اور ہمارے ہاں قرآن و سنت کو سامنے رکھ کر کی جانی چاہئے لیکن ہمارے قانون ساز شاید مطلوبہ فہم و فراست نہیں رکھتے کہ وہ آئین میں مضبوط ترامیم کرکے نظام کو تبدیل کرلیتے اور عوامی اقتدار کو دوام عطا کرتے۔ تمام تر آئینی ترامیم اور سیاسی اتحاد کے باوجود سیاسی انتشار بدستور برقرار ہے اور آج بھی لوگ غیر سیاسی عناصر کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ شاید وہی ملک کو ان بحرانوں سے نکال سکتے ہیں ۔ اگر اب ایسا ہوتا ہے تو یہ نہ صرف سیاست دانوں کی شکست ہے بلکہ یہ اس امر کا ایک اور ثبوت ہوگا کہ ہمارے سیاسی اکابرین سیاسی فراست سے بے بہرہ ہیں۔ لہٰذا آج احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بننے والی جماعتوں سمیت سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔
یوں تو ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین نے بھی ان خطرات سے آگاہ کیا ہے کہ ملک کسی بھی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا او ر معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیاجائے اور یہ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ بحیثیت حکمراں ان کے کاندھوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا کردار خاصا معنی خیز ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں آپس میں یہ اتحاد کر کے بیٹھی ہیں کہ ایک دوسرے کے اقتدار میں مداخلت نہیں کریں گی جس کو وہ مفاہمت کا نام دیتی ہیں۔
ہر سیاست کا طالب علم اس امر سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ محض مفاہمت جمہوریت کی ضد ہوتی ہے اور یہ خرابیوں کو جنم دیتی ہے جس کے باعث نظام پراگندہ ہوتا ہے۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں اگر کوئی غیر سیاسی تبدیلی رونما ہوتی ہے جو ہوسکتا ہے کہ کسی قومی حکومت کی شکل میں ہو یا ٹیکنوکریٹس پر مشتمل کوئی حکومت تشکیل پائے یا براہِ راست طالع آزما مداخلت کریں تو یہ پاکستان کے سیاسی نظام کے لئے کسی بڑے نقصان کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر سیاسی جماعتیں اپنی فراست اجتماعی کا مظاہرہ کریں۔ ملک کو بحران سے نکال کر جمہوری نظام کو بچانے کے لئے کوئی قابل عمل اور باوقار حل تلاش کریں۔
تازہ ترین