اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار)پارلیمنٹ ہائوس کی مرکزی گزرگاہ سے متصل میڈیا انکلوژر میں بدھ کی سہ پہر مختلف پارلیمانی گروپس کے حزب اختلاف کے رہنما جس وقت اپنے اتحاد اور حکومت کے خلاف کندھے سے کندھا جوڑ کر مزاحمت کا پرچم بلند کررہے تھے عین انہی لمحات میں کراچی سے متحدہ قومی موومنٹ اس پارلیمانی کمیٹی سے علیحدگی کا اعلان کررہی تھی جس کے سرخیل سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزازاحسن تصور ہوتے ہیں اور جسے ٹی او آر کمیٹی کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر متحدہ کے سینیٹ سے تعلق والے ایک رکن بھی تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی اور اعتزاز احسن کی پشت پر کھڑے تھے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے اس دم توڑتی کمیٹی میں زندگی کی رمق برقرار رکھنے کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائدین حزب اختلاف سے سلسلہ جنبانی استوار کیا تھا اور یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ کمیٹی جلد ہی اپنا اجلاس منعقد کرکے کوئی لائحہ عمل مرتب کرے گی اور اس طرح احتساب کے لئے مطلوبہ قانون سازی کی راہ ہمو ار ہوجائے گی حکومتی ٹربل شوٹر وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ایک ر وز قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ سے ملاقات کرکے بعض یقین دہانیاں حاصل کرلی تھیں اس دیروزہ ملاقات میں یہ طے پاگیا تھا کہ احتسابی قانون میں بنیادی تبدیلیاں روبہ عمل میں لائی جائیں گی جس کے لئے لائحہ عمل کی ترتیب پر اتفاق ہونا باقی تھا۔ بدھ کو قومی اسمبلی کے اسپیکر سے ملاقات کے بعد اپنی گفتگو میں بیرسٹر اعتزاز احسن اور شاہ محمود قریشی نے تاثر دیا کہ فریقین میں رابطے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی شاہ محمود قریشی نے کمیٹی کے آٹھ بے نتیجہ اجلاس کے بعد اپنے تاریخی تبصرے کو پھر دھرایا کہ ’’صورتحال جوں کی توں ہے‘‘ دونوں رہنمائوں نے یہ تاثر ضرور دیا کہ اسپیکر نے ان کے موقف سے حکومت کو آگاہ کرنے کا یقین دلایا ہے جس کے جواب سے وہ حزب اختلاف کی قیادت کو مطلع کرینگے اس طرح رابطے برقرار رہنے اور گفت و شنید کے امکان کے موجود رہنے کا تاثر ملا ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن جب زور و شور سے تقاضا کررہے تھے کہ احتساب کا عمل وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ سے شروع ہونا چاہئے ان سے دریافت کیا گیا کہ احتساب سرے محل اور سوئس بینکوں کا بھی رخ کرے گا تو انہوں نے سنی ان سنی کردی۔ کوئٹہ کے گزشتہ ہفتے کے خوفناک خودکش دھماکے کے تناظر میں پیدا شدہ نئے تنازع میں جہاں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چادر پوش رہنما محمود خان اچکزئی اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان تصادم ناگزیر ہوچکا تھا اور مہمانوں کی گیلری میں رونق بھی زیادہ تھی لیکن اسپیکر سردار ایاز صادق نے آگ بجھانے کا کردار ادا کیا انہوں نے محمود اچکزئی کو اظہار خیال کا موقع دینے سے صاف انکار کردیا اس طرح چوہدری نثار علی خان کو اپنے ترکش کو سیدھا کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ حزب اختلاف کے بعض بزجمہروں کو توقع تھی کہ چوہدری نثار علی خان اور قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کے درمیان یدھ وقتی طور پر ٹل گیا تھا تاہم اچکزئی اور نثار کا اٹ کھڑکا ہو کر رہے گا جس سے حکمران اتحاد میں بڑا شگاف پڑنے کا اندیشہ تھا۔ سردار ایاز صادق نے اپنی دور اندیشی سے اس صورتحال کو بگڑنے سے بچالیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سترہ روز جاری رہنے کے بعد اب غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہوگیا ہے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف ایک مرتبہ رونق افروز ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، پاکستان مسلم لیگ قاف کے پارلیمانی گروپ لیڈر چوہدری پرویز الٰہی اورسابق اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مر زا نے ایک مرتبہ بھی ایوان کو اپنا منہ نہیں دکھایا۔ متحدہ کے ڈاکٹر فاروق ستار کی محض ایک روز جھلک دیکھی گئی۔ ان کی توجہ کا محور کراچی کی صورتحال رہ گئی ہے۔ حزب اختلاف کے پارلیمانی گروپ لیڈرز کے اجلاس میں شیخ رشید احمد اور سید خورشید احمد شاہ کی جھڑپ کا بہت چرچا رہا جس میں اعتزاز احسن نے بیچ بچائو کرایا شیخ رشید احمد نے خورشید احمد شاہ کا حکومت کے بارے میں رویہ نرم ہونے کی پھبتی کسی تو خورشید شاہ نے شیخ رشید پر چوہدری نثار علی خان کی طرفداری کا الزام جڑ دیا۔ شکوک و شبہات کی فضا نے تقریباً ہر سیاسی گروپ کو گھیر رکھا ہے۔ متحدہ کے اقبال محمد علی نے متحدہ کے کارکنوں کی کرا چی میں گرفتاریوں پر احتجاج کیا اور ان حالات سے آگاہ کیا جن میں اس کے کارکن پکڑے جارہے ہیں انہوں نے سندھ حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ ہوش کے ناخن لے اس پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وفاقی حکومت کا موقف پیش کردیا اور کہا کہ جن حالات کا ذکر متحدہ کے رکن نے کیا ہے وہ اگر درست ہیں تو یہ قابل مذمت ہے وہ سندھ حکومت اور ر ینجرز کے سربراہ سے بات کرینگے ہر چند یہ صوبائی معاملہ ہے وہ رپورٹ لینے کے بعد ہی ایوان کو اصل صورتحال سے آگاہ کرسکیں گے انہوں نے واضح کیا کہ مجھے جہاں سے بھی شکایت ملتی ہے میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے کارروائی کرتا ہوں کراچی میں پولیس اور رینجرز سندھ حکومت کے تابع اپنی کارروائیاں کرتی ہیں قانون و انصاف کے وفاقی وزیر زاہد حامدکی پیش کردہ تحریک ایوان نے اتفاق رائے سے منظور کرلی جس میں اسپیکر کو دونوں ایوانوں کے بیس ارکان پر مشتمل کمیٹی بنانے کا اختیار دیا گیا ہے جو قومی ایکشن پلان کے حو الے سے قانون سازی میں ترامیم کرے گی اسپیکر اس سلسلےمیں چیئرمین سینیٹ سے صلاح مشورہ کرکے نامزدگیاں عمل میں لائیں گے۔