• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہر چند برسوں کے بعد غیر جمہوری قوتیں ہمارے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کر ہمیں صدیوں پیچھے دھکیل دیتی ہیں اور ان کی پشت پناہی پر وہ عوام دشمن قوتیں ہوتی ہیں جو صرف آمریت کے گٹھن زدہ ماحول میں ہی پروان چڑھتی ہیں بلکہ اصل المیہ یہ ہے کہ وہ با شعور دانشورجو زمانہ آمریت میں جمہوریت کی بحالی کے سب سے بڑے نقیب ہوتے ہیں ، جمہوریت کے بحال ہوتے ہی جمہوریت کے سب سے بڑے نقاد بن جاتے ہیں اور اپنے قلم کی پوری طاقت جمہوریت کی بیخ کنی اور آمریت کی مدح سرائی میں صرف کرنے لگتے ہیں۔
صحافی اور دانشور چونکہ معاشرے میں رائے عامہ کو تشکیل دینے کے سب سے بڑے محرک ہوتے ہیں اس لئے اُن کا یہ روّیہ عوام الناس کے ذہنوں میں صرف کنفیوژن اور انتشار ہی پیدا کرتا ہے اور انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ ایسے دانشوروں کی جمہوریت دوستی کو درست سمجھیں یا آمریت پسندی کو۔ جو لوگ اپنے نظریات کے بارے میں خود واضح نہیں ہوتے وہ معاشرے کو ذہنی ابہام کے سِوا کچھ نہیں دے سکتے ۔اس میں شک نہیں کہ برسوں طویل آمریتوں کے بعد جنم لینے والی ہماری جمہوریت کا موازنہ اُن ممالک کی جمہوریت کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا جہاں صدیوں سے جمہوریت رائج ہے اور جہاں جمہوری نظام میں شخصیتوں سے زیادہ جمہوری کلچر برسرِاقتدار ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں اپنے سب سے بڑے حریف سوویٹ یونین کو شکست دینے والے رونالڈریگن کے مجسّمے بنا کر ان کی تعظیم نہیں کی جاتی اور نہ ہی امریکی آئین سے انحراف کرتے ہوئے اسے تیسری بار کرسی صدارت کے لئےالیکشن لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک میں آج بھی جمہوری نظام میں شخصیتوں اور سیاسی خاندانوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔جو اگرچہ کسی بھی لحاظ سے قابلِ تحسین بات نہیں لیکن جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے ۔ اگر اس کا تسلسل جاری رہے گا تو ایک دن اُن ممالک میں بھی شخصیتوں کی بجائے جمہوری کلچر کا راج ہوگا۔ لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ ہی اور ہے یہاں تو ابھی جمہوریت کی ابتداء ہی ہوئی ہے ۔ اسے پختہ اور بالغ ہونے میں کئی سال لگیں گے ۔ جمہوریت کی ایام طفلی کی فطری غلطیوں اور کوتاہیوںکو جواز بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دنیا ایسے ہی ہے جیسے کسی بچے کو محض اس لئےقتل کر دیا جائے کہ وہ ایک بالغ شخص کی فہم و فراست کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔
یہ صورتِ حال اس وقت اور زیادہ تکلیف دہ ہو جاتی ہے جب ایسے دانشور جمہوریت کی نا پختگی کا ماتم کرتے ہوئے اگلے ہی سانس میں آمریت کی حمایت کرنے لگتے ہیں اور جمہوریت کی حمایت کے اپنے سابقہ مؤ قف کے برعکس یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ آمروں کا جمہوریت پر شب خون مارنا اتنی بڑی بات نہیں جتنی یہ ہے کہ وہ ایسے سیاستدانوں کو اپنی نرسریوں میں تیار کرتے ہیں جو بقول ان کے نااہل ہوتے ہیں۔ کیا یہ جواز بذاتِ خود آمریت کے خلاف نہیں جاتا کہ اگر آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے سیاستدان برے ہوتے ہیں تو اس میں بھی تو قصور آمریت کا ہے کہ بُرائی کی کوکھ سے بُرائی ہی جنم لے سکتی ہے۔آمریت کے دور میں صرف وڈیرے ، سرمایہ داراور چوہدری ہی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ سکتے ہیں ۔ یہ صرف جمہوریت ہی ہے کہ جب وہ میچور ہوتی ہے تو اس میں اوباما اور کیجریوال جیسا عام آدمی بھی اقتدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ دنیا میں عملی طورپر دو نظام ِ سیاست ہی کارفرما ہیں ایک جمہوری اور دوسرا آمرانہ۔ اگر آمرانہ نظام عوام کے لئےاتنا ہی مفید ہوتا تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں فوج کی موجودگی میں منتخب ادارے پالنے اور اُن پر لاکھوں اربوں ڈالر صرف کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ؟ آمرانہ نظام کے حوالے سے پاکستان تو دنیا بھرمیں ایک کلاسیکل ملک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ جنرل ایوب خان کی دس سالہ اقتصادی ترقی کا جشن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ماتم کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور اس کے زمانے میں بوئی ہوئی علیحدگی کی فصل اس کے جانشین جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں کاٹنی پڑی۔ جنرل ضیا ء الحق کے زمانے کے معاشی استحکام نے پاکستان کوعالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور شدت پسندی کی ایسی دلدل بنا دیاجس سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے اور اس نے ہمارے وجود پر سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں جبکہ جنرل پرویز مشرف کے دور نے نہ صرف ہمیں اندھیروں میں دھکیل دیا بلکہ بلوچستان میں علیحدگی کی بنیادوں کو خوفناک حد تک گہرا کردیا۔ دراصل سامراجی طاقتوں کے آلۂ کار ہونے کی وجہ سے تمام آمروں کے دور میں ہونے والے عارضی معاشی استحکام کا سبب وہ غیر ملکی سرمایہ تھا جو ان کے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے معاوضے کے طور پر ادا کیا گیا ۔ جس کا عوام کی بجائے خواص کو زیادہ فائدہ ہوا جسکی وجہ سے ملک امن و امان اور حقیقی معاشی ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا۔ اپنی تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود پاکستان میں مستقل نوعیت کے مثبت کام صرف منتخب جمہوری حکومتوں کے دور میں ہی ہوئے ۔ جن میں 73کا متفقہ جمہوری دستور،پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے میگا پروجیکٹ اور آزادخارجہ پالیسی شامل ہے موجودہ جمہوری حکومت بھی بلوچستان اور طالبان کے مسئلے کو جس سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کررہی ہے آمرانہ دور میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ یہ بھی درست ہے کہ تحفظِ پاکستان جیسے متنازعہ بل کی مخالفت کی جائے اور ایسی مخالفت بھی جمہوری دور میں ہی بہتر طور پر کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیے بُری جمہوریت کا نعم البدل آمریت نہیں صرف اچھی جمہوریت ہے اور اچھی جمہوریت کوئی پکی پکائی ڈش نہیں کہ اسے کہیں سے درآمد کیا جا سکے ۔ یہ صرف جمہوریت کے تسلسل کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر ہم جمہوریت کے حامی ہیں تو ہمیں اسے مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح ایمان کا حصہ بنانا پڑے گا جس کا اظہار انہوں نے 1921میں مقدمہ بغاوت ہند میں عدالت کے سامنے اپنی معرکتہ آلارا تقریر میں یوں کیا تھا۔
’’ میں ایک مسلمان ہوں اور میرا ایمان ہے کہ میں اس اسلامی حکومت کی بھی مخالفت کروں جو قوم کی رائے اور نیابت سے منتخب نہ ہو۔ کیونکہ اسلام ایک مکمل جمہوری نظام ہے ۔ اگر کوئی ہمارے گھر پر طاقت کے زور سے قبضہ کرکے اچھے اچھے کام کرنے لگے تو کیا اس سے اس کا قبضہ جائز ہوجائے گا؟ ...مذہبی لحاظ سے بھی آمریت شرک کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ
آمر کسی قانون کے تابع نہیں ہوتا
اس کے تو اشاروں سے ہے قانون عبارت
یہ وصف ہے مخصوص مگر ربّ جہاں کا
اس واسطے اک شرک ہے آمر کی اطاعت
اگر بعض دانشوروں کی طرف سے آمریت کی حمایت کسی طے شدہ منصوبے کیوجہ سے کی جارہی ہے تو پھر قوم کو اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑنے کے لئےتیار رہنا چاہئےکہ پاکستان کسی نئے آمر کی طالع آزمائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
تازہ ترین