• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکیم الامت علامہ اقبال نے کہا ہے
اے شاہ عرب و عجم کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا جنہیں عطا کی ہے تو نے شان سکندری
جناب سید سرفراز شاہ اس دور کی ایک ایسی روحانی شخصیت ہیں جو مستحق اوردکھی مخلوق میں ’’دعا کے موتی‘‘ بکھیرتے رہتے ہیں اور مجھ جیسے ہزاروں ایسے ہیں جو اس سے فیض ہی نہیں حاصل کرتے بلکہ رہنمائی بھی لیتے ہیں۔ لاہور ،راولپنڈی، کراچی ہی نہیں لندن میں بھی سید صاحب کی دعا کی محافل ہوتی ہیں جہاں سوال و جواب کی نشست ہوتی ہے ،ان کے معتدین نے ان لیکچروں کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور بلاشبہ یہ ایک ایسا کام ہے جس سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود سوالات ،خدشات کا جواب ملتا ہے بلکہ زندگی کے لئے’’صراط مستقیم‘‘ مہیا ہوتی ہے۔ سب سے پہلے مجموعہ کا نام’’کہے فقیر‘‘ تھا’’فقیر رنگ ’’،‘‘فقیر نگری‘‘ور اب’’لوح فقیر‘‘ کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ کیا خوبصورت ارشاد ہے کہ ’’جب تک انسان نیکی کرتا ہے اور اسے ا پنی نیکی کا ادراک نہیں ہوتا، تب تک وہ نیکی رہتی ہے لیکن جیسے ہی انسان کو اپنی اس نیکی کا احساس ہوگیا وہ تکبر میں چلا گیا‘‘ تصوف کے بارے میں کہتے ہیں کہ تصوف کا مقصد کشف و کرامات کا حصول نہیں بلکہ اللہ کے قرب اور دوستی کا حصول ہے، اور یہ کہ انسان بھوکے پیٹ بہت لگن سے عبادت کرتا ہے جب انسان کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہوتی ہیں تو اس کے دل میں گزار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ اب اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے‘‘۔
’’متاع فقیر‘‘ دین و دنیا کے لئے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے میرے خیال میں ایک مکمل مفصل تحریر ہے۔ قبلہ شاہ صاحب کے لیکچروں کا یہ مجموعہ ہمیں رب کائنات سے محبت ،سنت رسولﷺ کی پیروی اور مرید و مرشد کے احترام و ا ٓداب سے مکمل طور پر نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ بہتر صاف و شفاف ایسی زندگی بسر کرنے کے لئے رہنمائی کرتے ہیں جس میں انسان دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوسکے۔ اللہ کی محبت سے سرشار ہوسکے۔ غرضیکہ ان لیکچروں میں تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حضرت بابا تاج الدین ناگپوری ؒ کا بھی ذکر ہے اور انہیں’’زندہ ولی‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا کہ بابا تاج الدین اولیاء صاحب کو اللہ تعالیٰ نے یہ خاص انفرادیت بخشی کہ وہ بیک وقت مجذوب بھی تھے اور سالک بھی۔ بڑی شدت کا جذب ان پر طاری ہوجاتا اور پھر ہوش میں بھی رہتے۔ یہ صاحب امر تھے دنیا میں موجود جو اولیائے کرام امر ہوتے ہیں اپنی زبان سے جو ادا کرتے ہیں وہ ہوجاتا ہے، پروردگار اپنی رحمت کے صدقے اگر کسی شخص کو دعا کا وہ مقام عطا فرمادے کہ جہاں اس کی زبان سے نکلی ہر بات دعا ہے اور مستجاب ہے تو ایسی ولی اللہ صاحب امر کہلاتا ہے لیکن عموماً اولیاء اللہ کی یہ کیفیت ان کے دنیاوی طور پر پردہ کرنے کے بعد قائم نہیں رہتی بلکہ اس شخص کو ٹرانسفر ہوجاتی جو اس کی جگہ آکر بیٹھتا ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ حضرت بابا تاج الدین اولیاء پر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت کی کہ ان کو اجازت فرمادی کہ مرنے کے بعد بھی ان کی روح جو کچھ کہہ دے ہو جاتا ہے۔ ان کی روح بھی صاحب امر رہتی ہے۔ آج کے دور میں بہت سے صاحب نظر، روحانی شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے اس دور کی دو عظیم اولیاء سے روحانی فیض حاصل کیا۔ ان میں ایک حضرت حاجی وارث علی شاہ تھے جن کا مزار اودھ کے ضلع بارہ بنکی کے قصبہ دیوا شریف میں ہے جن کے مرید ’’احرام پوش ‘‘وارثی کہلاتے ہیں اور دوسری اہم ترین شخصیت حضرت بابا تاج ا لدین ناگپوریؒ کی ہے۔ جناب سید نعیم قادری اس دور کے ایک صاحب نظر ولی کامل تھے۔ ہر فقیر کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے جناب قادری کا حسن یہ تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو اپنی کوٹھی کی حدود میں قید کررکھا تھا اور تقریباً 35 سال اس خود ساختہ قید میں بسر کئے کہ یہاں تک جب وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے تب اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کے اصرار کے باوجود ہسپتال منتقل ہونے سے انکار کردیا۔ انہوں نے حاجی وارث پاک اور بابا تاج الدین ناگپوری سے فیض حاصل کیا۔ وہ فرماتے تھے کہ حضرت حاجی صاحب قبلہ اور حضرت بابا صاحب دونوں حیات ہیں ان سے’’ہم کلام‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بابا تاج الدین ناگپوری کی دعا اور فیض جاری ہے۔ بابا صاحب قبلہ کے ایک مرید خاص جناب حامد تاجی ہیں۔ جب بھی کوئی مستحق ،ضرورت مند حضرت بابا جی کی خدمت میں آتا تو آپ بابا صاحب، جناب حامد تاجی کو ہدایت کرتے کہ اس کی امداد کی جائے۔ جناب نعیم قادری کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کوئی ضرورت مند آج بھی اگر بابا جی قبلہ کی جانب توجہ کرکے ان سے مدد طلب کرے تو قبلہ حامد تاجی فوری طور پر متحرک ہوجاتے ہیں وہ کسی صاحب ثروت کے گھر جاکر اسے ہدایت کرتے ہیں کہ فلاں شخص ضرورت مند ہے اس کو اتنے پیسے بھجوانے کا انتظام کرو اور اس طرح کرو کہ دوسرے ہاتھ کو علم نہ ہو چنانچہ صاحب ثروت شخص کی جانب سے صاحب حکم رقم لے کر اس کا آدمی اس ضرورت مند کے دروازے پر دستک دیتا ہے اور رقم کا لفافہ گھر میں موجود مرد یا عورت کے حوالے کردیتا ہے۔ بابا تاج الدین ناگپوری کی یہ کرامت آج بھی جاری ہے اور میں نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے کہ بابا جی قبلہ صاحب امر ہیں۔ سید سرفراز شاہ صاحب کے مرشد حضرت سید یعقوب علی شاہ صاحب بھی بڑی ہی مضبوط روحانی شخصیت تھے۔ وہ مجذوب بھی تھے اور سالک بھی۔ سید نعیم قادری کی ان کے ساتھ نیاز مندی رہی وہ فرمایا کرتے تھے کہ یعقوب شاہ صاحب اپنے دور کے قطب تھے ان کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے سرفراز شاہ کو دے دیا اور یہ درست بھی ہے کہ جو شخص بھی قبلہ شاہ صاحب کے پاس دعا کے لئے جاتا ہے بامراد ہو کر ہی واپس آتا ہے۔ ان کا حسن یہ ہے کہ وہ ’’اجلے لوگوں‘‘ کے پیر ہیں، ان کے عقید ت مندوں میں اعلیٰ سول و فوجی حکام، صنعتکار، سیاستدان، تاجر اور سیاسی حکمران تو ہیں ہی سب سے اہم یہ ہے کہ بڑے چھوٹے صحافیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے پاس حاضر ہو کر علم و بصیرت سےفیض یاب ہوتی ہے۔ سجاد میر کا یہ کہنا کسی حد تک درست بھی ہے کہ حضرت شاہ صاحب کو رب تعالیٰ کی جانب سے اہل صحافت پر معمور کیا گیا ہے اور آخر میں لوح فقیر سے انتہائی خوبصورت حوالہ۔
یقین کیجئے کہ رب ہمارے لئے کافی ہے۔ رب پر بھروسہ رکھئے تمام قصوں کو چھوڑ دیجئے صرف ایک چیز پر نظر رکھئے کہ آپ کی ذات سے لوگوں کو فائدہ ملتا رہے اگر آپ کی ذات سے دوسروں کو فائدہ ملتا رہا اور آپ کی ذات سے لوگوں کو کسی قسم کا نقصان ،زحمت یا تکلیف نہ ہوئی تو میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ نہ صرف یہ دنیا آپ کی جگہ ہے بلکہ رب بھی آپ کا ہے۔ رب آپ پر مہربان ہوجائے گا انشاء اللہ اور جس پر وہ مہربان ہوتا ہے اسے اپنا دوست بنالیتا ہے اور جو اس کا دوست ہے اسے بہت کچھ عطا فرماتا ہے اس پر اس کی رحمتیں بے پایاں ہوتی ہیں۔
تازہ ترین