• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سول نا فرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور پاکستان کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومت کو بجلی اور گیس کے بلز سمیت کوئی ٹیکس ادا نہ کریں۔ اگر کوئی بلوچ ، سندھی یا پختون سیاسی رہنما سول نافرمانی کا اعلان کرتا تو اسے فوراً غدار قرار دے دیا جاتا لیکن یہ بات پنجاب کے ایک لیڈر نے کہی ہے تو اس کے بارے میں سب خاموش ہیں ۔ عمران خان سے پہلے اس خطے کی تاریخ میں سول نافرمانی کی تحریک مہاتما گاندھی نے چلائی تھی ، جسے انہوں نے ’’ ستیہ گرہ ‘‘ کا نام دیا تھا ۔گاندھی جی کی یہ تحریک ایک نو آبادیاتی حکومت کے خلاف اور ہندوستان کی آزادی کے لئے تھی ۔ یہ ایک پر امن بغاوت تھی ۔ سول نافرمانی کسی بھی ریاست کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کا دوسرا نام ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ چھوٹے صوبوں کے سیاست دانوں کو نو آباد مملکت کی اسٹیبلشمنٹ کے رویوں سے زبردست شکایات رہیں ، اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی سول نافرمانی کا اعلان نہیں کیا ۔ یہاں تک کے بنگالیوں کے خلاف خونریز آپریشن کے دوران بھی شیخ مجیب الرحمن یا کسی بھی بنگالی لیڈر کی طرف سے اس طرح کا اعلان سامنے نہیں آیا ۔ بلوچستان میں آپریشن کے دوران بھی کسی بلوچ لیڈر نے اس طرح کی بات نہیں کی ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ایک مرتبہ بیان دیا تھا کہ آئرلینڈ میں برطانیہ کی فوجیں کارروائی کر سکتی ہیں تو سندھ میں فوج کشی کیوں نہیں ہو سکتی ۔ اس بیان میں انہوں نے سندھ کو واضح طور پر پاکستان کی ’’ نو آبادیات ‘‘ ( کالونی ) قرار دیا مگر کسی سندھی لیڈر کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان نہیں ہوا ۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کو سب سے بڑی شکایت یہ رہی کہ پنجاب نے ملک میں جمہوریت کو نہیں پنپنے دیا۔ اگرچہ ان صوبوں میں شدید غم و غصہ بھی رہا اور بعض حلقوں نے علیحدگی کی باتیں بھی کیں لیکن کسی نے سول نافرمانی کی تحریک کی صورت میں ریاست کے خلاف باقاعدہ مزاحمت یا بغاوت کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان صرف یہی مطالبہ کرتے رہے کہ یہ صوبے وفاق پاکستان کی اکائیاں ہیں ۔ انہیں وفاقی اکائیوں کے طور پر حقوق دیئے جائیں اور پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے ۔ اس مطالبے پر انہیں غدار قرار دیا گیا ۔ عمران خان خوش قسمت ہیںکہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے ۔ انہوں نے نہ صرف سول نافرمانی کا اعلان کیا ہے بلکہ وہ منتخب جمہوری حکومت کو بھی غیر آئینی طریقے سے ہٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ چھوٹے صوبوں کے نزدیک جمہوری نظام کو ڈی ریل کرنا ایسا اقدام ہے ، جس پر چھوٹے صوبے ہمیشہ ناراض رہے ہیں ۔
متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے قائد الطاف حسین ، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر جان مینگل سمیت کوئی بھی سیاسی رہنما اس طرح کا اعلان کرکے دیکھیں ، انہیں پتہ چل جائے گا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ۔ موجودہ رہنماؤں میں الطاف حسین پر تو کئی مرتبہ غداری کے الزامات لگ چکے ہیں ۔ انہوں نے تو کبھی ایسی بات نہیں کی ۔ ان کا سیاسی اثر و رسوخ ایک ایسے شہر میں ہے ، جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے ۔ کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے ، جو ریاست پاکستان کے کل ریونیو میں اکیلا 65 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے ۔ سب سے زیادہ ٹیکس دہندگان اس شہر میں رہتے ہیں اور ان ٹیکس دہندگان سے ایم کیو ایم کے بحیثیت سیاسی جماعت بہت گہرے رابطے ہیں کیونکہ ایم کیو ایم اس شہر کے تاجروں ، صنعت کاروں اور دیگر ٹیکس دینے والے لوگوں کے حقوق کے لئے ہمیشہ جدوجہد کرتی رہی ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ اگر ایم کیو ایم ٹیکس نہ دینے کی اپیل کرے تو کراچی میں اس اپیل پر مثبت رد عمل آئے گا اور شاید ایم کیو ایم پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے ، جو عمران خان کی طرح سول نافرمانی کی تحریک چلائے تو اس تحریک کے دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں نتائج سامنے آئیں گے ۔ صرف کراچی سے ٹیکسوں کی وصولی بند ہو جائے تو اس کے اثرات کا اندازہ صرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر ) کے لوگ ہی لگا سکتے ہیں لیکن ایم کیو ایم نے سیاسی جدوجہد کی احتجاجی مظاہرے بھی کیے ، بڑے بڑے اجتماعات بھی منعقد کیے اور دھرنے بھی دیئے لیکن ایم کیو ایم کی قیادت اس انتہا پر کبھی نہیں گئی ، جس انتہا پر عمران خان گئے ہیں ۔ ایم کیو ایم نے اپنے سیاسی مطالبات منوانے کے لئے ہڑتالیں بھی کیں ، جن کے دوران یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ کراچی شہر کے بند ہونے سے ملک کو معاشی طور پر بہت نقصان ہوتا ہے ۔ اس بات کے پیش نظر ایم کیو ایم نے بعض اوقات ہڑتالوں کی کال واپس بھی لی حالانکہ ہڑتال کرنا بھی ہر ایک کا جمہوری حق ہے ۔ ایم کیو ایم نے ہمیشہ کوشش کی کہ کراچی پاکستان کا معاشی انجن ہے لہٰذا اسے چلتا رہنا چاہئے ۔
عمران خان کے سول نافرمانی کے اعلان کو پاکستان کے تاجروں اور صنعت کاروں کی تنظیموں نے یکسر مسترد کر دیا اور انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کی ریاست کو معاشی طور پر مفلوج نہیں بنائیں گے ۔ عمران خان کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ لوگوں نے ان کی سول نافرمانی کی اپیل پر کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔ اس کے باوجود وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ وفاقی حکومت سے نمٹنے کے بعد سندھ اور بلوچستان کا رخ کریں گے ۔ ان کا ایک بیان یہ بھی آیا ہے کہ وہ کراچی کا رخ کریں گے اور وہاں لوگوں سے نمٹیں گے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپر مڈل کلاس کے چند ہزار لاڈلوں کے زور پر وہ جمہوری حکومتوں کو بھی ہٹا دیں گے اور بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت کو بھی روند ڈالیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔ ایم کیو ایم ان سے زیادہ لوگ جمع کر سکتی ہے اور ایم کیو ایم کے لوگ بہتر طور پر سیاسی مقابلہ بھی کر سکتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مارچز اور دھرنوں کے عوامی حق کے لئے نہ صرف ہر فورم پر وکالت کی بلکہ دھرنوں کے شرکاء کے لئے کھانا اور پانی بھی فراہم کیا ۔ عمران خان پنجاب سے تعلق ہونے کی بنا پر غداری کے ان الزامات سے بچ گئے ہیں ، جو چھوٹے صوبوں کے سیاست دانوں پر بلا وجہ لگتے رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سیاست میں فیئر پلے کے تمام اصولوں کو روند ڈالیں ۔
تازہ ترین