• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے محلے میں ایک بہت نیک دل اور غریبوں کی ہمدرد خاتون رخسانہ رہتی ہیں۔ پچھلے دنوں اُن کے بیٹے کی شادی کراچی میں ہوئی ٗ تو وہ اپنی تین بہوؤں اور بچوں کے ساتھ ملنے آئیں اور ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ اُن کی پوتی جس کی عمر بمشکل سات آٹھ ماہ ہو گی ٗ اُس نے اپنی ماں کی گود سے کہا: اﷲ مجھے عقل دے!۔ اُس کی زبان سے یہ الفاظ مجھے اتنے اچھے لگے کہ میرے اندر تحلیل ہوتے چلے گئے اور مجھے اسلام آباد میں دھرنے دینے والوں کا خیال آیا کہ اُنہیں بھی اپنے رب سے وہی دعا مانگنی چاہیے جو محترمہ رخسانہ نے اپنی پوتی کو سکھائی ہے ٗکیونکہ انسان کا اصل شرف عقل کی دولت اور اُس کا صحیح استعمال ہے۔ اب اسلام آباد میں دو ہفتوں سے جو طوفان بپا ہے اور عورتیں ٗ بچے اور جوان جس عذاب سے گزر رہے ہیں اور چھوٹے طبقوں کے کاروبارِ زندگی جس طرح مفلوج ہوتے جا رہے ہیں اور فضا میں ’’فتح یا شہادت‘‘ کے جو نعرے سنائی دے رہے ہیں ٗ اُن کے پیچھے عقل کے بجائے اَنا کی جہالت کارفرما نظر آتی ہے۔ ’’دھرنا قائدین‘‘ نے مذاکرات کے دروازے بند کر کے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اوپر توبہ کے دروازے بند کر لیے ہیں۔ یہ غالباً بدبختی کی انتہا ہے۔ آپ جب کالم پڑھ رہے ہوں گے ٗ تو غالب گمان یہ ہے کہ بدبختی کا نزول ہو چکا ہوگا یا دو چار دن بعد ہو جائے گا ٗ کیونکہ دھرنوں کے راستے اِسی طرف جاتے ہیں۔
سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے نتیجے میں جو ارتعاش پیدا ہوا ٗ وہ قابلِ فہم ہے کہ اِس ٹریجڈی نے انسانی ضمیر کو جھنجوڑ ڈالا ہے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی چار روزہ خاموشی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ٗ مگر جناب طاہر القادری نے جس طرح اُسے تلاطم شام و سحر میں ڈھال دیا ٗ وہ کسی اور طرف اشارہ کرتا ہے۔ سمجھ دار لوگ آگ بجھاتے اور عفوودرگزر سے کام لیتے ہیں اور ظلم اور جبر کا مقابلہ دانائی اور دوربینی سے کرتے ہیں جبکہ قادری صاحب آتشِ انتقام کو ہوا دیتے اور اپنے فدائین کو قتل پر اُکساتے چلے آ رہے ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم میں سے جو لوگ انقلاب مارچ سے اجازت کے بغیر لوٹ آئیں ٗ اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دو کہ اُنہوں نے مشن سے غداری کی ہے۔
قادری صاحب نے دسمبر 2012ء میں بھی اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دینے کے احکام جاری فرما دیے تھے۔ دسمبر کی شدید سردی میں اُن کے پیروکار جن میں بچے اور خواتین بڑی تعداد میں تھے ٗ کھلے آسمان تلے چار دن بیٹھے رہے جبکہ شیخ الاسلام آرام دہ کنٹینر میں سے ہدایات جاری کرتے رہے۔ آخر کار اُنہوں نے حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات کیے اور بے نیل و مرام واپس چلے آئے۔ اِس بار وہ انقلاب لانے کا عزم لے کر آئے ہیں اور دس ایسے مطالبات پیش کیے ہیں جو لوگوں کے دل کی آواز ہیں۔ تمام اصلاحی طاقتیں گزشتہ سات عشروں سے معاشرے اور حکومت میں یہی تبدیلیاں لانے کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہیں ٗ مگر سوال یہ ہے کہ کیا انقلاب ایک دن میں آ سکتا ہے۔ کیا انقلاب سے پہلے اِس کے لیے زمین تیار کرنے کی ضرورت نہیں؟ کیا ایک مضبوط کیڈر تیار کیے بغیر انقلاب آ سکتا ہے ٗ کیا ہم نے عوام کے اندر وہ صفات پیدا کر لی ہیں جو انقلاب کی کامیابی اور اِس کے استقلال کے لیے ضروری ہیں؟ کیا ہم نے بہت بڑی تعداد میں ایسے استاد تیار کر لیے ہیں جو نئی نسل میں انقلاب کی اُمنگ اور اِس کی حفاظت کی صلاحیت پیدا کر سکیں۔ کیا ہماری مذہبی جماعتوں نے لاکھوں کی تعداد میں ایسے تاجر ٗ صنعت کار اور کاروباری لوگ تیار کر لیے ہیں جن کے معاملات اخلاق ٗ دیانت اور امانت پر پورے اُترتے ہوں ٗ کیا ایسے سرکاری عمال دستیاب ہیں جن میں خدا خوفی ٗ خدمت شعاری اور قانون کی پاسداری کے اوصاف موجود ہوں ٗ ظاہر ہے اِن تمام سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دیا جا سکتا ٗ تو پھر علامہ قادری صاحب کس انقلاب کی بات کر رہے ہیں؟ اِس عظیم الشان کام کے لیے بہت زیادہ منصوبہ بندی ٗ غیر معمولی انداز میں ذہن سازی اور تدریجی عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی بجلی کا سوئچ نہیں کہ اُسے دبایا ٗ تو بلب روشن ہو گئے۔
قادری صاحب بلاشبہ ایک بہت بڑے عالم اور مذہبی اسکالر ہیں ٗ مگر اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ نے اسلامی انقلاب کے لیے 23برسوں تک لوگوں کے ذہنوں کی آبیاری کی تھی اور اپنے اسوۂ حسنہ سے قلوب و اذہان مسخر کیے تھے۔ اُن کی صداقت اور امانت کی اہلِ مکہ گواہی دیتے تھے۔ اُنہوں نے انقلاب اخلاق و کردار کی مستحکم بنیادوں پر برپا کیا تھا جبکہ ہم لوگ اسلامی انقلاب کی بات کرتے ہیں ٗ لیکن ہماری زندگیاں روحانی اور اخلاقی عظمت سے خالی ہیں۔ مصلحتاً ہم جھوٹ بھی بول لیتے ہیں اور دھوکا سازی کو جنگ کا ایک مؤثر جرم خیال کرتے ہیں۔ ہم تھوتھے چنے کی مانند ہیں جو بجتا بہت ہے ٗ ہم وحشیوں کی طرح دھاڑتے اور بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں ٗ ایسے میں انقلاب کیسے آئے گا۔ قادری صاحب ہزاروں لوگوں کو سراب میں لے آئے ہیں۔ ایک ایسا سراب جس میں ذاتی خواہشات کے بگولے اُٹھ رہے ہیں۔ وہ نواز شریف اور شہبازشریف کو سولی چڑھانا چاہتے ہیں کہ اُنہوں نے کبھی اُن کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا تھا۔ حضرت علیؓ کا یہ قول ہر عہد میں ایک زریں اصول کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس شخص پر احسان کیا جائے ٗ اُس کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ شر کئی طرح کا ہوتا ہے۔ پنجاب حکومت کو بھی اپنی اَنا کا مسئلہ بنا کر سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے ورثاء کو انصاف سے محروم نہیں رکھنا چاہیے۔
معلوم نہیں کہ اسلام آباد کا ڈراپ سین کیا ہوگا۔ ہماری نظر میں ’’ہجوم‘‘ کی طاقت کے آگے جناب وزیراعظم کو پوری استقامت کے ساتھ ڈٹا رہنا چاہیے۔ یہ اُن کے اقتدار کا مسئلہ نہیں ٗ بلکہ پاکستان میں عوام کی طاقت سے حکومت کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ عدالتِ عظمیٰ ٗ وکلاء ٗ دانش ور ٗ سول سوسائٹی کے تمام فعال عناصر اور سیاسی اور دینی زعماء ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ ایک بار ہجوم کے دباؤ کے تحت وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کی ریت پڑ گئی ٗ تو آئندہ کوئی مستقل حکومت قائم نہیں ہو سکے گی۔ وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی میں ایک بڑی متوازن تقریر بڑے اعتماد کے ساتھ کی ہے اور وہ خوش نصیب ہیں کہ اُنہیں پارلیمان اور وفاق کی تمام اکائیوں کی حمایت حاصل ہے۔ اِس پر اُنہیں اپنے رب کا شکر اور اپنے عوام کا شکریہ انکسار کے ساتھ ادا کرنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کو عجز و انکسار سب سے زیادہ پسند ہے۔ اُنہیں اپنی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کرنا اور عوام کو بااختیار بنانا ہو گا۔ وہ اگر اِن عظیم اہداف کے لیے سرگرم رہیں گے ٗ تو طوفان گزر جائیں گے۔
عمران خاں شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے اور نوجوانوں نے ایک فاتح کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے اُنہیں اپنا ہیروبنایا ٗ لیکن سیاست میں اُترتے ہی وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے ٗ اُنہیں ہوسِ اقتدار نے بدحواس کر دیا ہے۔ وہ جب فوجی انقلاب کے بعد جنرل پرویز مشرف کی آغوش میں جا بیٹھے ٗ تو اُنہوں نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ میں وزیراعظم بننے والا ہوں۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے لندن گئے تو اپنے بیٹوں سے کہہ کر آئے کہ تم اب پاکستان میں مجھ سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کرو گے۔ انتخابات میں اُن کا خواب پورا نہیں ہوا اور اِس لیے وہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور وزیراعظم کے استعفے پر اصرار کر رہے ہیں۔ اُنہیں ننھی بچی والی دعا مانگنی چاہیے کہ اﷲ مجھے عقل دے۔ ہم نے اقتدار کے حریص کو نامراد اور ذلیل وخوار ہوتے دیکھا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ فوج اور عدالتِ عظمیٰ اِس انداز سے مداخلت کرے گی کہ بحران کا ایک اطمینان بخش حل نکل آئے گا۔
تازہ ترین