یہ اعصاب کی جنگ تھی جو بالآخر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے جیت لی۔ ریڈ زون کے کنٹینروں اور گرین بیلٹس پرشب و روز گزارنے والے قائدین اور ان کے پیروکار موسمی حالات،سیاسی دبائو اور میڈیا کی بے رحمانہ تنقید سے متاثر ہوئے نہ ناکامی کے امکان نے انہیں بددل کیا جبکہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ گنگنانے والے حکمران ہمت ہار بیٹھے۔جمہوریت روایات، پارلیمنٹ کی بالادستی اور سول حکومت کے اختیار کی مالا جپنے والوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے دست بستہ مدد کی درخواست کی اور فوج کو سیاست میں ملوث کردیا۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟
جنگ سیاسی ہو، قانونی یا اعصابی جیتنے کے لئے اہم ترین ہتھیار اپنے موقف کی صداقت اور اخلاق ساکھ ہوتی ہے جس سے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان روز اول سے محروم تھے۔ انتخابات میں دھاندلی کے حجم پر دو رائے ہوسکتی ہیں نفس دھاندلی پر تنازعہ ہرگز نہیں مجھے مسلم لیگ(ن) کے رہنما لیاقت جتوئی نے بہ نفس نفیس بتایا تھا کہ سندھ میں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو آر اوز سے ہرایا۔ پنجاب میں اس بار مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو جس طرح ووٹ پڑے اپنے قائد سے بسا اوقات ڈیڑھ گنا دو گنا زیادہ وہ بذات خود دھاندلی کے تاثر کو نمایاں کرتے ہیں۔
طرز حکمرانی پر اگر بادشاہت نہیں تو خاندانی حکمرانی کارنگ غالب ہے اور خاندان کے بیس بائیس افراد کو اہم عہدوں پر فائز کرکے میاں نواز شریف نے اپنے پیروکار کارکنوں اور مخالفین دونوں کی نظر میں اپنی ساکھ مجروح کی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کےبجائے جس طرح پردہ پوشی کی کوششیں ہوئیں ، مقتولوں کو قاتل اور قاتلوں کو معصوم و مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی اور خوف خدا سے عاری بعض اینکر پرسنز، کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور کیا گیا۔ اس نے عام آدمی کے غم و غصے میں اضافے کیا۔ صاف نظر آنے لگا کہ حکمران سیاسی مقاصد کے لئے اپنے اختیارات اور قومی وسائل کو استعمال کرنے کے علاوہ بے گناہ شہریوں کے خون کی ہولی کھیلنے کو بھی درست سمجھتے ہیں اور کسی مظلوم، مقتول کے وارثوں کی داد رسی کے لئے تیار نہیں۔
پسپائی کا آغاز 14اگست سےہوگیا تھا جب بلند و بانگ دعوئوں، بے پناہ رکاوٹوں اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو بالآخر مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ ہوا، اجازت کیا دینی تھی مزاحمت کی پالیسی ترک کرنا پڑی۔ پھر ریڈ زون میں داخلے اور پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پڑائو کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا اور دونوں سے مذاکرات کی نوبت آئی۔ حکمران ہو یا عام انسان ایک قدم پیچھے ہٹانا مشکل ہوتا ہے جب یہ مرحلہ طے ہوجائے تو پچھلے پائوں دوڑنے میں بھی جھجک محسوس نہیں ہوتی یہی میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے کیا اور بالآخر اس فوج کے سربراہ سے مدد مانگنا پڑی۔
میاں صاحب نے اپنے سیاسی حلیفوں اور نام نہاد جمہوریت کے ہیضے میں مبتلا دانشوروں کو بھی اندھیرے میں رکھا وہ بے چارے سول بالادستی کا علم تھام کر’’منتخب حکومت‘‘ اور ’’عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ‘‘ کی حفاظت کے نعرے لگاتے اور صف بستہ فوجی مداخلت کی روک تھام کے منصوبے بناتے رہے مگر میاں صاحب نے صرف اپنے خاندان سے مشورہ کرکے جنرل راحیل شریف سے مدد اور مداخلت کی درخواست کردی۔ الزام ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان پر ملی بھگت کا لگتا رہا مگر جمعرات کی شام یہ راز کھلا کہ 1993ء اور 1999ء کی طرح فوج کی مداخلت کا راستہ منتخب وزیر اعظم نے ہموار کیا۔ حلف یاد رہا نہ آرٹیکل 6 اور نہ اپنے حلیف جو گلا پھاڑ پھاڑ کر جنرل راحیل شریف کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کی تلقین کررہے تھے۔
سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیری حربے، باقر نجفی کمیشن رپورٹ کو کئی روز تک دبائے رکھنے اور آخری روز ایف آئی آر کے اندراج کے معاملے پر طاہر القادری سے لین دین کی کوششیں دال میں کالا کی نشاندہی کرتی تھیں اور حکمرانوں کے اندرونی خوف کی علامت ،مگر آرمی چیف کے دبائو پر ایف آئی آر کے اندراج میں جس طرح دو نمبری کی گئی اور میڈیا کے علاوہ فوجی قیادت کو جس طرح گمراہ کیا گیا وہ آرمی چیف کے لئے بھی یقیناً حیران کن اور تکلیف دہ ہوگا۔ اس قدر فریب کاری و جعلسازی بھلا کوئی تصور کرسکتا ہے۔ طاہر القادری نے ایف آئی آر کو فراڈ اور دھوکہ دہی کی واردات قرار دیا تو کسی کو یقین نہ آیا۔ میڈیا پر جعلی ایف آئی آر کا عکس چلا تو بہت سوں نے طاہر القادری پر طنز و تعریض اور دشنام طرازی کے تیر چلائے مگر اب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوچکا۔ میری ذاتی رائے میں تو یہی ایک وجہ بتاتیہے کہ ایسے لوگ باقی قومی معاملات میں کس قدر فریب کاری کے مرتکب نہ ہوتے ہوں گے۔
آرمی چیف کے سیاسی قیادت سے مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ان سطور کی اشاعت تک واضح ہوجائیگا۔ اب اگر کسی دبائو، انڈرسٹینڈنگ یا مصلحت کے تحت میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ اور میاں شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہتے بھی ہیں تو ان کی حیثیت لنگڑی بطخ کی ہوگی۔ اپنے ماتحتوں اور کولیگز پر اخلاقی برتری نہ ہونے کے سبب کاروبار ریاست چلانا مشکل اور ریاستی اداروں سے معاملہ فہمی امر محال۔ اعتبار اور اعتماد کون کریگا اور معلق حکومت کی بیرونی دنیا، عالمی اداروں میں ساکھ کیا ہوگی؟ جس وزیر اعظم کا حکم مانتے ہوئے بیوروکریٹس، سفارتکار، خود مختار اداروں کے سربراہان سوبار سوچیں اور پولیس افسر ان تحریری ہدایات طلب کریں وہ صرف پروٹوکول کے مزے تو لے سکتا ہے اختیار استعمال نہیں کرسکتا۔ رعب و دبدبہ طاہر القادری اور عمران خان کے لانگ مارچ ا ور دھرنے نے ختم کیا، اخلاقی ساکھ سانحہ ماڈل ٹائون اور ایف آئی آر کے ا ندراج میں جعلسازی کے سبب بری طرح مجروح اور باقی ماندہ کسر آرمی چیف کی منت سماجت اور مخالفین سے جان چھڑانے کی التجا نے پوری کردی۔ اس سے بہتر استعفیٰ ہے پسپائی کی آخری منزل مگر اس کے لئے بھی جرأت رندانہ درکار ہے۔
مسلم لیگ ن ،سیاسی جماعت سے زیادہ خاندانی وفاداروں کا ٹولہ ہے اگرچہ اس میں بعض نیک نام اور ایثار پیشہ رہنما و کارکن شامل ہیں ا گر یہ سیاسی جماعت ہوتی تو اس کی پارلیمانی پارٹی اور جنرل کونسل اب تک اپنے اجلاس میں قائد محترم اور ان کے قریبی ساتھیوں بالخصوص چودھری نثار علی خان، خواجہ آصف ،پرویز رشید اور اسحاق ڈارکا سختی سے محاسبہ کر چکی ہوتی کہ آخر ہر بار سابقہ غلطیاں دہرا اور جلد بازی کا مظاہرہ کرکے عوامی مینڈیٹ سے ہاتھ کیوں دھوبیٹھتے ہیں اور ہماری ساری محنت، عوام کی بھرپور محبت پر پانی کیوں پھیر دیتے ہیں اور اب ہماری جان چھوڑتے کیوں نہیں مگر کسی میں یہ جرأت کہاں؟یہ جرأ ت ہوتی تو پوری قوم کو یہ دن کیوں دیکھناپڑتا؎
بس اتنے ہی جری تھے حریفان آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آگئے