• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کی جدید دنیا میں جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں عوام کو نہ صرف شریک اقتدار کیا جاتا ہے بلکہ انہیں تحریر و تقریر کی آزادی دی جاتی ہے اقوام متحدہ کے تحت ایک چارٹر بھی مرتب کیا گیا ہے جس کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ بھی دیا گیا ہے اور اسلام وہ عالمگیر دین ہے جس نے سب سے پہلے انسانی بنیادی حقوق دیئے اور یہ حقوق اتنے مکمل اور معتبر ہیں کہ ان کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد بنایا گیا۔ ان جمہوری اور بنیادی حقوق کے تحت ہر شہری کو اپنی بات کہنے اور منوانے کا حق حاصل ہے۔ اچھی حکمرانی وہی کہلاتی ہے جو نہ صرف عوام کو ان کے حقوق دے بلکہ ان کا تحفظ بھی کرے۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہر سیاسی جماعت و تنظیم کو اپنے مطالبات کے حق میں جلسے، جلوس اور دھرنے کا حق حاصل ہے اور اس میں رکاوٹ کو غیر ’’جمہوری اقدام‘‘ کہا گیا ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ اس بارے میں آئین و قانون کا احترام کیا جائے پاکستان میں پہلے دن سے ہی جمہوری اقدار کی پاسداری نہیں کی گئی۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد ہم سے بچھڑ گئے اور پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو انتہائی پراسرار انداز میں شہید کر دیا گیا۔ انہیں کیوں گولی ماری گئی یہ بھید ابھی تک کھل نہیں سکا۔ اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی گئیں ان دو قائدین کے رخصت ہونے کے بعداقتدار کی ’’سانپ و سیڑھی‘‘ کا کھیل شروع ہو گیا۔ کیا کچھ ہوتا رہا ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ جمہوریت اور جمہوری نظام کی باتیں تو ہوتی رہیں لیکن جمہوری طرز حکمرانی کبھی بھی اختیار نہیں کی گئی۔ صرف ایک مثال پیش ہے کہ جب صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلیٰ عبدالقیوم خان کو مرکز میں وزیر بنایا گیا تو ان کی جانب سے یہ شرط عائد کی گئی کہ ان کا نامزد کردہ شخص صوبہ میں ان کا جانشین ہوگا۔ عبدالقیوم خان صوبہ کے مرد آہن کہلاتے تھے ان کے دور میں پیر صاحب مانکی شریف سمیت متعدد نامور مسلم لیگیوں کو صوبہ بدر کر دیا گیا تھا۔ یقین کیجئے کہ مرد آہن نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کے لئے سرحد اسمبلی کا کوئی رکن نہیں بلکہ سرحد کے انسپکٹر جنرل پولیس کو نامزد کیا۔ اگرچہ اس وقت ملک میں آئین موجود نہیں تھا لیکن قانونی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق ایک سرکاری افسر وزیر نہیں بن سکتا لیکن قیوم خان کی جانب سے نامزد آئی جی عبدالرشید صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے اور ان کی کابینہ میں خان صاحب کا ایک ذاتی ملازم وزیر ہوا۔ اس طرح اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہوئے اور جب 1954ء میں مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں عام انتخابات کرائے گئے تو برسراقتدار مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہوئی اس وقت صوبہ کے وزیر اعلیٰ نور الامین مرحوم ایک طالب علم لیڈر سے ہارگئے اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد جگنو فرنٹ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا۔ اس انتخاب کے نتائج ملکی سیاست پر اثر انداز ہوئے۔ دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ کو اکثریت حاصل تھی جگنو فرنٹ کی کامیابی سے یہ اکثریت سیاسی طور پر چیلنج ہو گئی۔ اگرچہ دستور ساز اسمبلی قانون کے تحت اس وقت تک برقرار تھی جب تک آئین مرتب نہیں ہو جاتا کیونکہ اس ایوان کا مقصد صرف اور صرف ملک کو دستور دینا تھا جب تک یہ کام مکمل نہ ہوا اسے معطل یا منسوخ نہیں کیا جا سکتا لیکن بعض حکمرانوں نے جو ہر قیمت اپنے ’’راج سنگھاسن‘‘ کو برقرار رکھنا چاہتے تھے اور جن کا مقصد اقتدار کو طول دینا تھا انہوں نے مشرقی پاکستان کے الیکشن کو بہانہ بنایا۔ سید حسین شہید سہروردی ملک کے ایک نامور رہنما تھے جنہوں نے حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں تحریک پاکستان میں قابل قدر کردار ادا کیا تھا اور قیام پاکستان سے قبل بنگال کے ’’وزیراعظم‘‘ بھی تھے ان مفاد پرست افراد نے کسی نے کسی طرح اپنے ’’اقتدار کے جال‘‘ میں پھنسا لیا۔ سہروردی صاحب اس وقت علیل تھے اور سوئٹزر لینڈ میں زیر علاج تھے جہاں ان سے ایک صحافی کے ذریعہ ملک کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے رابطہ کیا۔ جناب زیڈ اے سلہری نے یہ سارا واقعہ اپنی سوانح عمری میں درج کیا ہے کہ پہلے سہروردی صاحب نے ملاقات سے ہی انکار کر دیا اور بعد میں بڑی مشکل سے دستور ساز اسمبلی توڑنے کے بارے میں بیان دینے پر تیار ہو گئے اور ملک کی تاریخ کا یہ سیاہ ترین باب ہے کہ گورنرجنرل نے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے دستور ساز اسمبلی توڑ دی۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کر دی اور امریکہ میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ یہ وہی معروف اور مشہور کابینہ تھی جس میں بری فوج کے سپہ سالار جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع اور جناب سہروردی سینئر وزیر تھے۔ اگرچہ سندھ چیف کورٹ نے دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسمبلی بحال کر دی تھی لیکن فیڈرل کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر نے جی جی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ ایسا کیوں کیا گیا اس بارے میں بہت سی باتیں کی گئیں لیکن زیادہ معتبر یہ ہے عدالت اعظمیٰ ملک کو مارشل لاء سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی اس لئے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا ہتھیار استعمال کیا گیا۔ اگر چیف جسٹس یہ فیصلہ نہ کرتے تو آج ملک کے حالات بہت ہی مختلف ہوتے۔ ملک تقسیم نہ ہوتا اور جمہوریت اور جمہوری ادارے نہ صرف مستحکم اور مضبوط ہوتے بلکہ تناور درخت بن چکے ہوتے۔ کہتے ہیں اوردرست بھی ہے کہ حکمران کی ایک معمولی سی غلطی سارے ملک پر ایسے منفی اثرات مرتب کر دیتی ہے کہ اس کی سزا قوم کو ایک مدت بھگتنی پڑتی ہے جس سے آج پاکستانی قوم دوچار ہے۔
یہ ساری روئیداد بیان کرنے کا مقصد اول تو یہ ہے کہ حکمران کوئی بھی ہو اسے تحمل، بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں عوام کو بنیادی حقوق نہ صرف دینے چاہئیں بلکہ ان کا تحفظ ان پر ’’جمہوری فرض‘‘ ہے۔ تحریک انصاف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے ملک میں ’’سیاسی تبدیلی‘‘ کی بنیاد رکھی ہے ’’اوپر کی کلاس‘‘ کے افراد کو جو سیاست سے دور تھے انہیں ’’ووٹنگ بوتھ‘‘ پر لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ جناب عمران خان سے سو اختلافات اپنی جگہ لیکن ان کا یہ کریڈٹ ہے انہوں نے ’’اشرافیہ‘‘ میں جمہوری شعور پیدا کیا ہے انہیں الیکشن کے بعد سے ہی یہ شکایت تھی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے جبکہ پروفیسر علامہ طاہر القادری کا موقف یہ ہے کہ ملک میں ’’نیا سیاسی نظام‘‘ لایا جائے تاکہ بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور ایک طبقہ کی حکمرانی ختم کی جا سکے۔ ایم کیو ایم کا سیاسی منشور بھی اس سے ملتا جلتا ہے اور ظاہراً تمام سیاسی جماعتوں کا بھی منشور ہے۔
جناب عمران خان اور پروفیسر طاہر القادری نے اپنے مطالبات کے حق میں ریلی نکالی اور 14؍اگست کو اسلام آباد پہنچے جہاں دونوں جماعتوں نے اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دیا۔ دونوں فریق نے اپنے جمہوری حق کا مظاہرہ کیا جبکہ حکومت نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ مطالبات پر زور دینے کے لئے ’’وزیراعظم کا استعفیٰ‘‘ اس میں شامل تھا۔ سول سوسائٹی اور عوام کو یقین تھا کہ بات بن جائے گی انتخابی اصلاحات، کرپشن کے خاتمے کے مطالبات تسلیم ہو جائیں گے۔ وزیراعظم کی واضح ہدایات تھیں کہ ’’غیر جمہوری‘‘ اقدام نہ کئے جائیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار بار بار یہ کہتے رہے کہ ہم طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ چاہے یہ تھا کہ اس تمام معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جاتا لیکن بات وہاں تک جا پہنچی جو کسی صورت نہ ہی درست ہے اور نہ ہی اس کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ اسے درست تسلیم کر لیا جائے کہ دھرنے والوں کو آگے نہ بڑھنا چاہئے تھا لیکن حکومت کی حیثیت تو ’’بڑے بھائی‘‘ کی ہوتی ہے اس سے ہرممکن طور پر گریز کرنا چاہئے تھا اور اب بھی وقت ہے کہ آگ پر ’’مکالمہ‘‘ کا پانی ڈالا جائے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہئے اور ایک مشترکہ فارمولا مرتب کرنا چاہئے جس پر حکومت، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو اتفاق ہو یہ بات حتمی ہے کہ طاقت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس سے آگ لگ تو سکتی ہے بجھ نہیں سکتی!!
تازہ ترین