• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی کی کشمیر پالیسی :داخلی اور عالمی سطح پر مسترد

کشمیر ی عوام کی جانب سے بھارت کے ناجائز تسلط اور قابض فوج کے مظالم کے خلاف جاری تحریک نہ صرف عالمی سطح پر تنازع کشمیر کی سنگینی اور اس کے منصفانہ حل کی ضرورت کا احساس پیدا کرنے میں واضح طور پر کامیابی حاصل کررہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں خود بھارت کے اندر بھی سراسر بے انصافی پر مبنی مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کے خلاف توانا آوازیں بلند ہورہی ہیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کی جانب کشمیر میں بھارتی مظالم پر انتہائی تشویش اور مسئلے کے جلداز جلد منصفانہ حل کی ضرورت کے اظہار کے فوراً بعد گزشتہ روز ستاون مسلم ملکوں پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل ایاد امین مدنی نے بھی غیرمبہم الفاظ میں کشمیریوں کے حق خود ارادی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بھارت کا داخلی معاملہ نہیں اور عالمی برادری کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے مقبوضہ وادی میں ماورائے عدالت قتل و غارت گری کو انتہائی قابل تشویش قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کی جانب سے اس کے خلاف آواز اٹھائے جانے پر زور دیا۔ایاد امین کا کہنا تھا کہ کشمیر میں صورت حال ریفرینڈم کی طرف جارہی ہے لیکن کسی کو اس سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مسئلے کے پائیدار، پرامن اور منصفانہ حل کا یہی ایک راستہ ہے ۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھی وزیر اعظم مودی کی کشمیر پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدا مودی کو جہالت سے نجات دے جبکہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں کے وفد نے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی سربراہی میں بھارت کے صدرپرناب مکھرجی سے ہفتے کو نئی دہلی میں کی گئی ملاقات میں کشمیر کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا ۔وفد کے ارکان نے صدر پر واضح کیا کہ طاقت کے استعمال سے کشمیر کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھالا نہیں جاسکتا۔ وفد کا موقف تھا کہ یہ انتظامی نہیں انسانی مسئلہ ہے اور اس کے حل کیلئے انسانی نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے۔ اس موقع پر عمر عبداللہ نے بھارتی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ وادی میں جاری مودی حکومت کے غیرانسانی رویے کو بند کرانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ نریندر مودی کی مرکزی حکومت اور محبوبہ مفتی کی ریاستی حکومت دونوں صورت حال کو بہتر بنانے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا پرامن سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔تنازع کشمیر کے منصفانہ سیاسی حل کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کے بیان کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل ایادا مین مدنی کی جانب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے کرائے جانے کی ضرورت کے اظہار اورخود بھارت کے اندر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کے خلاف شدید ردعمل سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بھارت کے لیے فوجی طاقت کے بل پر اب زیادہ دیر کشمیر پر غاصبانہ تسلط قائم رکھنا ممکن نہیں۔ کشمیریوں کی قربانیاں بالآخر رنگ لارہی ہیں اور تنازع کشمیر کے ضمن میں پاکستان اور کشمیری عوام کے جائز موقف کے حق میں فضا تیزی سے ہموار ہورہی ہے۔کشمیر کوبھارت کا اٹوٹ انگ قراردینے کا سوفی صد دھاندلی پر مبنی موقف عالمی سطح پر بھی مسترد کیا جاچکا ہے اور بھارت کے اندر بھی جس کا ناقابل تردید ثبوت بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پرامن سیاسی حل کے حق میں اٹھنے والی آوازیں ہیں۔نریندر مودی نے کشمیر کی صورت حال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بلوچستان کی دہائی دینے کی جو شاطرانہ چال چلی تھی، اس کے خلاف خود بلوچ عوام کے پرزور احتجاج سے یہ چال خود اُن ہی پر الٹ گئی ہے۔ اس فضا میں کشمیری عوام کے خلاف ظلم و تشدد کا بازار گرم رکھنا مودی حکومت کے لیے یقینا روز بروز زیادہ مشکل ہوتا جائے گا اور آخرکار کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق انہیں دینا پڑے گا۔ وزیر اعظم مودی چاہیں نہ چاہیں اس نوشتہ دیوار کو بالآخر انہیں ماننا ہی ہوگا۔


.
تازہ ترین