• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ہاکی کی بدحالی،عالمی معیار کے صرف دو ہاکی اسٹیڈیم

لاہور(رپورٹ:نعمان منصوری)چار دہائیوں تک دنیائے ہاکی پر راج کرنے والا پاکستان آج بدانتطامی ،غفلت اورحکومتی عدم توجہ کی  بدولت زوال کا شکار ہے۔ملک بھر میں عالمی معیار کے صرف د و ہاکی سٹیڈیم ہیں جبکہ 37ہاکی گراونڈز میں سے نصف قابل استعمال ہی نہیں اس کے بعد بھی غفلت کا یہ عالم ہے کہ اولمپکس 2016میں کوالیفائی نہ کرنے اور میڈیا پر موضوع بنے رہنے کے باوجود ملک میں موجود 2 میں سے ایک عالمی معیار کا سٹیڈیم جو کراچی میں قائم ہے وہاں گزشتہ دنوں ـہاکی ٹورنامنٹ کے اختتام پر 5کروڑ مالیت کی آسٹروٹرف پر موٹر سائیکلیں چلتی رہیں اورعالمی معیار کے اس ہاکی گراونڈ کی بربادی ہوتی رہی جبکہ حیدرآباد ہاکی سٹیڈیم میں میلہ لگا دیا گیا دوسری طرف پاکستان کا شہر گوجرہ جو ہاکی کی وجہ سے جانا جاتا تھا وہاں صرف ایک ہاکی گراوئڈ ہے جہاں پر عالمی معیار کے مطابق آسٹروٹرف ہی موجود نہیں ۔ قومی کھیل کے عروج و زوال کی وجوہات جاننے کے حوالے سے جنگ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل نے جو تحقیق کی اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہاکی کی موجودہ حالت کی بڑی وجہ ہاکی فیڈریشن کی بد انتظامی اورمالی معاملات ہیں جس کا اندازہ فیڈریشن کی جانب سے مہیا کردہ اعداد و شمار سے ہوتا ہے جس کے مطابق گزشتہ تین سالوں(2013-16) میں25کروڑ51لاکھ24ہزار کی حکومتی گرانٹ جو اوسطا ماہانہ 70لاکھ 86ہزار روپے کے لگ بھگ تھی اس پر ہی ہاکی کے معاملات چلتے رہے جبکہ فیڈریشن اپنے بل بوتے پر آمدن حاصل کرنے میں ناکام رہی دوسر ی جانب بھارت میں 2015 کے دوران انڈین ہاکی فیڈریشن کوسپانسرز اور اپنے دیگر ذرائع سے ایک ارب37کروڑ سے زائد کی آمدن ہوئی جس میں سے ایک ارب روپے ہاکی کے فروغ پر خرچ کیے گئے ۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہاکی کے کھلاڑیوں کے لیے کرکٹ کی طر ز کا کوئی مالی معاہد ہ (Central Contract) موجود نہیں ہاکی کے قومی کھلاڑیوں کو محض میچ کھیلنے کا معاوضہ دیا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالی ابتری کی وجہ سے نوجوانوں میں ہاکی سے رغبت کم ہو رہی ہے اسی طرح سفارشی کلچر بھی کھلاڑیوں کو قومی کھیل سے دور کر رہا ہے یہ ہی وجہ ہے کے ماضی کے چیمپئن آج کوالیفائنگ راونڈ جیتنے سے بھی قاصر ہیں ماضی کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان 4 ورلڈ کپ جیتنے والا دنیا کا آج بھی واحد ملک ہے اس کے علاوہ 3اولمپکس اور 3 چیمپئنزٹرافی بھی اپنے نام کر چکا ہے لیکن انتہائی افسوسناک امر ہے کہ پاکستان 2014کے ورلڈکپ میں جگہ بنا سکا نہ ہی جاری برازیل اولمپکس2016 سمیت رواں سال جون میں ہونے والی جیمپئنز ٹرافی کے لیئے کوالیفائی کرسکا جبکہ یہ ہی پاکستان تھا جو1971سے1994تک ہونے والے 8ورلڈ کپس میں سے 4میں فتحیاب جبکہ 2کے فائنل میں جگہ بنا پایا اسی طرح 1956سے1992تک ہونے والے10 اولمپکس مقابلوں میںپاکستان  نے 3سونے،3چاندی اور 2کانسی کے تمغے اپنے نام کیے ۔یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میںمختلف علاقائی سطح پر ہاکی کے چیمپئنزکیٹرافی چیمپیئن  آف چیمپئنز(کو متعارف  کرانے والا بھی پاکستان ہے اس نے نہ صرف ہاکی کے اعلی ترین معیار کے انتخاب کے لیے یہ ہاکی متعارف کرائی بلکہ خود بھی 3بار اس کا چیمپئن رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھیلوں کے مقابلے جہاں قومی یکجہتی اور خوداعتمادی کو فروغ دیتے ہیںوہیں اس سے ملک میں موجود علاقائی اور نسلی تعصب کو ختم کرنے کے ساتھ ایسے مواقع بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں جو قوم کو ہر تفریق سے بالاتر صرف ایک مقصد کے لیے یکجا کر دیں لیکن افسو س کہ لاپرواہی،بدانتطامی اور سفارشی کلچر نے قومی یکجہتی کے یہ نادر مواقع بھی گنوا دیے لیکن دوسری جانب پاکستان کے دشمن کھیل کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں یہ ہی وجہ ہے کے 2009میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کر کے پاکستان میں منعقد ہونے والے کھیلوں کے عالمی مقابلوں کو شدید دھچکا پہنچایا گیا جس کے جواب میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کے ملک بھر میںنہ صرف ہاکی بلکہ تمام کھیلوں کو ہنگامی بنیادوں پر فروغ دیا جاتا لیکن بدقسمتی سے 7سال گزرنے کے باوجود ہم ہاکی سمیت تمام کھیلوں میں پستی کا ہی شکار رہے۔ ہاکی کے زوال کے حوالے سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے حال ہی میں تعینات کیے گئے جنرل سیکرٹری اور ماضی کے عظیم کھلاڑی شہباز احمد سینئر نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے ہاکی کی تباہی کا ذمہ دار سفارشی کلچر اور کھلاڑیوں کے معاشی مسائل کوٹھرایا۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہاکی ٹیم کے انتخاب میںمیرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں جس کی وجہ سے کھلاڑیوں میں بد دلی پیدا ہوئی جس نے یہ تاثر پیدا کر دیا کے ٹیم میں جگہ بنانے کے لیئے کارکردگی سے زیادہ سفارش اہم ہے اس تاثر نے باصلاحیت کھلاڑیوں کو ہاکی سے دور کر دیا جبکہ دوسری طرف ہاکی فیڈریشن ہمیشہ ہی مالی مسائل کا شکار رہی ہے جس وجہ سے نوجوانوںمیں ہاکی کو بطور پیشہ اپنانے کا رجحان بہت کم ہو گیا ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہاکی کو بچانا ہے تو اس کے مالی معاملات درست کرنے ہوں گے اور کھلاڑیوںکا اعتماد بحال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا مالی مستقبل بھی محفوظ بنانا ہوگا۔انہوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کے وہ ماضی کی غلطیوں کا نہ صرف ازالہ کریں گئے بلکہ فیڈریشن اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں گے جبکہ سفارشی کلچر کا خاتمہ اور کھلاڑیوں کے مالی مستقبل کو محفوظ بنانا بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
تازہ ترین