9 اگست 11 بجکر 51 منٹ۔ ۔ امریکی ریاست مزوری کے شہر فرگوسن میں پولیس نے ایک سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن کو روکا۔ پولیس کے مطابق نوجوان سڑک پر چل رہا تھا جس کی وجہ سے ٹریفک میں رکاوٹ پیش آرہی تھی۔ پولیس افسر ولسن نے نوجوان کو فٹ پاتھ پر چلنے کے لئے کہا۔ سیاہ فام نوجوان اور گورے پولیس افسر کے درمیان بحث شروع ہوگئی جو تلخی اور پھر ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ سیاہ فام نوجوان بھاگا تو پولیس اہلکار نے اس پر چھ گولیاں فائر کی۔ نوجوان موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ اگلے روز پولیس نے موقف اختیار کیا کہ نوجوان کے بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک مقامی اسٹور سے چوری کرکے نکلا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس کا موقف جھوٹ پر مبنی ہے۔ جب پولیس اہلکار نے براؤن پر گولی چلائی وہ اپنے ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ براؤن کے جسم پر لڑائی کے کوئی آثار نہیں ملے۔ جیسے ہی واقعہ کی خبر پھیلی سیاہ فام آبادی میں نہتے لڑکے کی ہلاکت پر علاقے کی سفید فام اکثریت والی پولیس کے خلاف اشتعال پھیل گیا۔ نسلی فسادات پھوٹ پڑے لوٹ مار کے واقعات شروع ہوگئے۔ شہر میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی۔ گورنر کی جانب سے کرفیو کا اعلان کردیا گیا۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پولیس اہلکار کو گرفتار کیا جائے اور مقدمہ چلاکر سزا دی جائے۔ امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر سے لے کر صدر اوباما تک سب مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کررہے ہیں لیکن پولیس اہلکار کو گرفتار کرنے مقدمہ چلانے اور سزا دینے کے مظاہرین کے مطالبے کوتسلیم نہیں کیا جارہا۔ تاحال پویس افسر کو محض معطل کیا گیا ہے۔ اس کی تنخواہ روک لی گئی ہے اور تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کردیا گیا ہے۔
17 جون پاکستان کا شہر لاہور، علاقہ ماڈل ٹاؤن۔ پولیس نے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹیریٹ سے برسوں سے قائم تجاوزات ہٹانے کے لئے آپریشن آغاز کیا۔ دفتر میں موجود افراد خصوصاً خواتین نے شدید مزاحمت کی۔ پولیس کی طرف سے نشانہ لے کر مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے 14 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوگئے۔ ہلاکتوں کو دوماہ سے زائد گزرگئے احتجاج جاری ہے لیکن حکومت کی طرف سے واقعہ کی ایف آئی آر درج کی گئی نہ متعلقہ پولیس اہلکاروں اور ذمہ داران کوگرفتار کیا گیا اور نہ سزا دی گئی۔ اسلام آبادکے انقلاب مارچ کے شرکاء کے مطالبات میں یہ مطالبہ سرفہرست ہے۔
دوسو برس سے زائد عرصے پر محیط امریکہ کی حقیقی جمہوریت ہو یا تیسرے عشرے میں سانسیں گنتی پاکستان کی جمہوریت، جمہوریت مظلوم عوام کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ امریکی جمہوریت ہو یا پاکستانی، ریاست پولیس اسٹیٹ نظر آتی ہے۔ پولیس جس کے ساتھ جو مرضی کرے اس کے خلاف کوئی داد فریاد نہیں۔ مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور نہ سزا دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے نام پر ہر جگہ طبقاتی نظام نافذ ہے۔ جو ایک طرف پاکستان جیسے ممالک میں عوام کوروٹی چھت کپڑا چادر اور چاردیواری کا تحفظ انصاف روزگار تعلیم صحت اور عزت نفس فراہم کرنے سے انکار کررہا ہے تو دوسری طرف پژ مردہ یورپ میں فلاحی ریاست کی تمام مراعات چھینتا چلا جارہا ہے۔ ریاستی کٹوتیاں عوام کا معیار زندگی اور قوت خرید شکار کررہی ہیں۔ قومی خزانے میں عوام کا حصہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ 1993ء سے 2011ء تک امریکہ کی مجموعی آمدنی میں 13.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے میں ننانوے فیصد عوام کا حصہ 5.8 فیصد رہا باقی تمام حصہ ایک فیصد امیر ترین افراد کا تھا۔ جمہوریت عوام پر عوام کے ذریعے حکومت کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ کہیں عوام پر پولیس کے ذریعے حکومت کی جارہی ہے اور کہیں سویلین کے بجائے اصل قوت نافذہ اور طاقت کا منبع فوج ہے۔
ہماری موجودہ بھی حکومت سول بالادستی پر یقین رکھتی ہے ہرچند کہ اس کےکا انداز قانون کی حکمرانی، گڈگورننس، جمہوریت اور اس طرح کے کئی الفاظ کے گرد سوالیہ نشان لگادیتا ہے۔ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا تعلق سیاست سے نہیں ہے بلکہ یہ عوامی جذبات کی طاقت کو اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کا نام ہے۔ اس کے جواب میں وزیراعظم نوازشریف پارلیمان کے پاس گئے ہیں۔ سیاسی قوتوں سے رجوع کیا ہے۔ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور وکلاء بار ایسوسی ایشن میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سڑکوں پر طاقت کے مظاہروں کے ذریعے حکومت کی تبدیلی ایک غلط روایت کی جانب پیش قدمی ہوگی۔ وزیر اعظم جتنی لچک دکھا سکتے تھے دکھا چکے۔ لیکن کپتان اور شعلہ بیان مقرر کسی سیاسی حل پر راضی نہیں۔ مذاکرات کا تیسرا دور بھی ناکام ہوچکا ہے۔ عمران نے دھرنوں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلا دیا ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کیا جائے۔ لیکن سب کے دل کی گہرائیاں ایک جانب ضرور اشارہ کررہی ہیں۔ اصل فیصلہ کن قوت کی طرف۔ آمریت ہویا جمہوریت یا پھر انقلابیوں کی پیش قدمی اور دھرنوں سے نجات تبدیلی کے ہر نقطے کا مرکز و محور فوج ہے۔ طرفین کے اسٹینڈنگ پوائنٹس وزیراعظم کے استعفے کے جس نقطے پر آکر رک گئے ۔ اس تمام منظرنامے میںبے یقینی سائے گہرے ہوتے رہے ہیں۔ الیکشن کے ذریعے تبدیلی بھاری مینڈیٹ کا حق حکمرانی کا جواز جیسے الفاط گزشتہ دس پندرہ دنوں میں یہ الفاظ بے معنی ہوکررہ گئے۔
معاملات کے جمود میں ماہ آزادی اپنے اختتام تک اعصاب شکن رہا ۔ اس مہینے میں ہم نے عمران خان کو کھودیا ہے۔اس خیال سے جھرجھری آتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں عمران کی آمد دوپارٹی سسٹم کے لئے چیلنج تھی۔ انہوں نے ’’باری کی سیاست‘‘ کو بہت خوبی سے للکارا تھا۔ ان کے ریاستی اداروں کی اصلاح، کرپشن کے خاتمےاور تبدیلی کے نعرے اور ان کے جذبوں نے سب کو متاثر کیا لیکن وہ جس طرح تضادات کا شکار ہوئے وہ المیہ ہے۔ وزیراعظم بننے کی جلدی میں وہ جس طرح موجودہ حکومت کا گلا دبانا، پورے ملک کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں وہ کسی کے لئے بھی پسندیدہ نہیں۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی کہیں زیربحث نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے گرد ایسے لوگ جمع کئے ہیں جو ان کے نئے پاکستان کے نعرے کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ وہ بڑے بڑے جاگیردار، پیر اور سرمایہ دار ہیں جو غریب عوام کو اپنے ساتھ کھڑا ہوتا دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ اس ملک کو تبدیلی کی اشد ضرورت ہے پوری قوم ایک ایسے و نظام کی غلام ہوچکی ہے جو کارپوریٹ سرمائے اور سودی بینکاری کے شکنجے میں جکڑا ہوا۔ نوازشریف رہیں، عمران آجائیں یافوج جمہوریت کی آڑ سے نکل کر پیش منظر پر آنے پر مجبور ہوجائے عوام کو کچھ فرق نہیں پڑتاسب نے سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے ہی حکومت کرنی ہے۔