آپ سب کو حالیہ انقلاب سے پیدا ہونے والا نیا پاکستان مبارک ہو۔ میری معذرت قبول کیجیے کہ میں اس جشن آزادی کی تقریب میں شرکت نہ کر سکا کیونکہ ایک دقیانوسی گھرانے سے تعلق کی بنا پر اپنے پرانے راگ اور راگنیوں میں مصروف ہوں اور خاصا خوش ہوں۔ آج رات جب کالم لکھنے بیٹھا تو اُس وقت علامہ صاحب ریاستی عمارات پر چڑھائی کی خاطر کُوچ سے پہلے دعا فرما رہے تھے۔ اگلی صبح جب میں نے کالم ختم کرنے کیلئے لکھنا شروع کیا تو کُوچ کا اختتام اور قوم کا کام تمام ہو چکا تھا۔جو مناظر گذشتہ کئی ماہ سے دیکھنے کو ملے ،ان کا اختتام قومی نشریاتی ادارے کی عمارت پر قبضے کی صورت میںہوا۔ اِن مناظرمیں پُر امن،مہذب ڈنڈابردار مست قلندروں کی مستی دیکھ کرمَیں ششدر رہ گیا اور یُوں لگتا ہے جیسے میری آنکھوں میں موتی کی بجائے موتیا اتر آیا ہے جس کی وجہ سے کچھ اور دیکھنے کی ہمت باقی نہیں رہی۔ اس صورتِ حال میں لکھوں تو کیا لکھوں البتہ یہ جِی ضرور کرتا ہے کہ بازو کی بجائے گلے میں کالی پٹی باندھوں یا پھر شاہراہِ دستور پر ایک چھوٹی سی سروس لین میں اپنے ہم خیال کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ دھرنا دے کر اس قومی سروس میں حصہ ڈالوں۔ یہ خواہش شاید پوری نہ ہوسکے کیونکہ موجودہ دھرنا دھر لئے جانے کے قریب لگتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو ہماری بے رونق شامیں اور بھی ماند پڑ جائیں گی۔قارئین کرام! آج تو میرے کالم کو دھرنا ہی سمجھیے مگر پھر بھی کچھ کہنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ بدقسمتی سے جو کچھ بھی ہوا یہ ہونا ہی تھا کیونکہ ہمارے قائدین نے تاریخ سے کو ئی سبق نہیں سیکھا بلکہ تاریخ ان سے سبق سیکھنے کی طالب ہے۔ میرے جیسے کم علم لکھاری نے ان حالات کی نشاندہی اپنے گذشتہ کئی کالموں میںان عنوانات’’ آئین سے انکار کی خطرناک روش‘‘ ’’ بادشاہت کس کو کہتے ہیں‘‘ ’’ انوکھا انقلاب‘‘ اور’’ باکمال لوگ اور لاجواب پرواز‘‘ میں کر دی تھی۔ قاری اگر ان عنوانات کو ایک ہی سانس میں اسی ترتیب سے ایک ہی جملے کی صورت میں پڑھے تو حملوں اور حملہ آوروں کی نشاندہی کرنے میں آسانی ہو گی۔ اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج ہم جس نہج پر کھڑے ہیں اس کی وجہ فقط خلوص نیت کا فقدان اور قول و فعل کا تضاد ہے ۔ جب تک ہم ان بنیادی تضادات سے نہیں نکلتے ہم کسی طرح بھی اس ملک اور قوم کو آگے نہیں لے جا سکتے اور اگر آگے لے جانا مقصود نہ ہو تو پھر موجودہ روش جاری رکھیں۔ خدارا میری تمام قائدین سے التجا ہے کہ اس ملک کو اپنی ذاتی جاگیر نہ سمجھیں اور قوم کی بقا کو فقط فٹ بال بنا کر ٹُھڈے نہ ماریں۔ آخرمیں کچھ اور کہنے کی بجائے سید ضمیر جعفری کے اس شعر پر اکتفا کروں گا۔ ہم لوگ جو اَب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم