پورا ملک دو دھرنوں کی گرفت میں ہے۔ قومی معیشت میں آٹھ سو ارب کا خسارہ، تین دوست ممالک کے سربراہوں کے دوروں کی منسوخی، ملک میں مہنگائی کی نئی لہر جس نے سپلائی میں تعطل سے جنم لیا کہ ہزاروں کنٹینر حکومت نے قبضے میں لے کر راستے روک رکھے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کی بناء پر ریاستی اداروں کی بے عملی و بے یقینی۔
یہ ڈی چوک پر دیئے جانے والے دو دھرنے نہیں۔ یہ دونوں تو ایک ہیں یک جان دو قالب۔ انہیں ایک ہی سمجھئے۔ دوسرا دھرنا ہمارے منتخب عوامی نمائندوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے اندر دے رکھا ہے اپنے بچائو، دھاندلی زدہ انتخابات سے وجود میں آنے والی پارلیمان کی بقاء اور سٹیٹس کو کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے لئے۔
بس فرق صرف اس قدر ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری بظاہر جدا جدا ہیں مگر اندر سے دونوں سٹیٹس کو کے دشمن اور موجودہ آدم خور، بدبو دار استحصالی سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے خواہش مند جبکہ اندر بیٹھے جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے، پیر، ملا اور قبضہ گیر ، بھتہ خور اوپر اوپر سے ایک دوسرے پر صدقے واری جا رہے ہیں، میاں نواز شریف کی بلائیں لے رہے ہیں۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا غازی بگو کے ورد میں مصروف مگر دلوں میں وہی دیرینہ رنجشیں، بغض و عناد اور بدلہ چکانے کی خواہش۔ خورشید شاہ، اعتزاز احسن، رضا ربانی اور دیگر کی تقریریں اس باطنی کیفیت کا اظہار ہیں۔
چوہدری نثار علی خاں کا راجپوتی خون مصلحتوں اور دبائو کے سبب ٹھنڈا نہ پڑتا وہ ’’عزت کے لئے سیاست‘‘ کا اپنا سلوگن بھول نہ جاتے اور چند روزہ وزارت، میاں نواز شریف کی دوستی اور مسلم لیگ کے مفاد کی خاطر اعتزاز احسن اور خورشید شاہ کے سنگین نوعیت کے الزامات مثلاً آستین کا سانپ، غدار اور پٹواریوں، تحصیلداروں کا سرپرست ہضم نہ کرتے تو پیر کے اجلاس میں دونوں طرف کے گندے کپڑے بیچ پارلیمنٹ کے دھلتے اور اندرونی دشمنوں کا خوب کھل کر اظہار ہوتا مگر ڈی چوک پر جمع ہجوم اور ملک بھر میں ان کی خواہشات، ارادوں اور مطالبات سے ہمدردی رکھنے والے خاک نشینوں، متوسط طبقے کے مرد و زن اور اپنے حقوق سے آگاہ، مگر محروم نوجوانوں کے خوف سے یہ سب اکٹھے ہیں ایک دوسرے کی ڈھال اور اندر سے نڈھال؎
اپنے اپنے بیوفائوں نے تمہیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا!
پارلیمنٹ میں دھرنا دے کر بیٹھنے والوں کو اقتدار، اختیار اور وسائل کی سہولت تو روز اول سے حاصل ہے اور وہ اس کے بل بوتے پر کبھی عمران خان اور طاہر القادری کے پیروکاروں، ہمدرد اور بہی خواہوں کو خانہ بدوش، دہشت گرد، گھس بیٹھئے اور گندگی پھیلانے والے قرار دیتے ہیں اور کبھی فوج و آئی ایس آئی کو آنکھیں دکھاتے ہیں مگر انہیں عالمی ایسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی پر بھی ناز ہے جو افغانستان میں بری طرح سے پٹنے کے بعد دم رخصت پاکستان میں اپنے پسندیدہ مہرے برقرار رکھنے کی تگ و دو کر رہی ہے اور این آر او زدہ جمہوریت کو اپنے مفادات کا بہترین محافظ تصور کرتی ہے امریکہ کی طرف سے موجودہ دھاندلی زدہ نظام کو برقرار رکھنے کے لئے چار بار اصرار، نواز حکومت پر اعتماد اور بار بار تبدیلی کی مخالفت کا اس کے سوا سبب کیا ہے۔
پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کی غلطیاں، کمزوریاں اور علاقائی سیاست میں حماقتیں اپنی جگہ مگر خطے کی موجودہ صورتحال میں وہ امریکہ پر انحصار! بھارت کی بالادستی اور افغانستان میں برائے نام کردار کی اس پالیسی سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہےجو عرصہ دراز سے ہمارے گلے کا طوق بن چکی ہے اور جسے مزید پروان چڑھا کر ہم اپنے قومی و علاقائی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں نہ اپنا اقتدار اعلیٰ، نیو کلیئر پروگرام اور مسلم تشخص برقرار۔ بھارت میں میاں نواز شریف اور افغانستان میں محمود اچکزئی کی بعض ملاقاتوں نے مقامی ایسٹیبلشمنٹ کو چونکا دیا ہے اور ایک نیو کلیئر ریاست کی مضبوط و پُر عزم فوج کو اسلام آباد کی سطح پر لانے کی خواہشات اور ارادوں نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کی موجودگی میں پاک فوج ہدف تنقید بنتی رہی، وزیراعظم شوق سے سنا کئے وزیر دفاع اور وزیر قانون سمیت کسی نے اٹھ کر یہ نہیں کہا کہ آئینی قدغن کے باعث پارلیمنٹ کے فلور پر فوج کے کردار کو زیر بحث لانا مناسب نہیں اور پاک فوج کسی سازش کا حصہ نہیں۔ ایک دن تو دوران بحث یوں لگا کہ یہ اجلاس دھرنے والوں کے نہیں فوج کے خلاف بلایا گیا ہے اور مقصد نیو کلیئر ہتھیاروں سے لیس پاک فوج کے خلاف بغض و عناد رکھنے والوں کو اظہار خیال کا موقع فراہم کرنا ہے مگر کیا یہ انداز فکر اس امر کا ثبوت نہیں کہ بھارتی سازشوں، مقامی اور بیرونی دہشت گردوں اور را، موساد، خاد اور دیگر بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں سے نبردآزما، فوج کو حالت جنگ میں حکومت اور اس کے خلیفوں کا خوشدلانہ تعاون حاصل نہیں اور انہیں جب بھی موقع ملا وہ ماضی کے بدلے ضرور چکائیں گے۔ رائٹر کی تازہ ترین سٹوری کے حکومتی ذرائع نے ’’تقسیم‘‘ کا تاثر نمایاں کیا تو مقصد کیا تھا؟
کوئی مانے نہ مانے اقبالؒ کے الفاظ میں ؎
جہاں نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
جہان نو پیدا کرنے میں پرانی سیاست گری کی عیاریوں، مکاریوں، چالبازیوں، فریب کاریوں، ناقص کار گزاری اور خود پسندی و مفاد پرستی کا عمل دخل ہے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اے این پی، ایم کیو ایم، جمعیت علماء اسلام اور سندھ و بلوچستان کے قوم پرست ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر ایک ہی زبان بول رہے ہیں، ایک ہی خطرے سے نبردآزما ہیں اور ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ دھاندلی، کرپشن، نا اہلی اور تکبر پر سب کا اتفاق اور ملک و قوم کے لئے تباہ کن ان تمام امراض کو برقرار رکھنے پر سب کی رضا مندی ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ یک زباں ہیں فقہیاں شہر میرے خلاف
حکومت اور اس گلے سڑے نظام کی کار گزاری کا بھرم سیلاب اوربارشوں نے کھول دیا ہے۔ سیلاب پہلی بار آیا نہ مون سون کی بارشیں کوئی نئی بات مگر ڈیڑھ سو سے زائد افراد صرف پنجاب میں لقمہ اجل بن گئے جہاں کی گورننس باقی صوبوں سے بہتر ہے کوئی طویل المعیاد منصوبہ بندی نہ بارشوں اور سیلاب سے بچائو کے قبل از وقت انتظامات۔ سارا زور نمائشی منصوبوں اور تشہیری مہم پر ہے یا سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگا کر اپنی بالادستی کا سکہ جمانے پر۔ اس کے باوجود اصرار یہ ہے کہ اس عوام دشمن نظام کو جاری رہنا چاہئے تاکہ وسائل اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض خاندانوں، گروہوں اور مافیاز کا کاروبار خوش اسلوبی سے چلتا رہے۔ یہ مجبوری نہ ہوتی تو چودھری نثار علی خاں قرض رکھنے والے کہاں تھے جو اپنے ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے اور میاں نواز شریف، خورشید شاہ اور چوہدری اعتزاز احسن کی تقریر سر جھکا کر، پندار کا صنم ویراں کر کے کیسے سنتے جو اپنی عزت نفس کے حوالے سے حساس ہیں اور خلاف مزاج باتیں سننے کے روادار کبھی نہ تھے۔ بھائیوں جیسے میاں اظہر کو اسی عادت کے سبب برداشت نہ کرنے والے اب اعتزاز احسن کی کڑوی کسیلی سن رہے ہیں؎
خندق میں جان بچ گئی، خطرہ بھی ٹل گیا
لیکن سر حمیدہ سے دستار گر پڑی
خندق کی جگہ پارلیمنٹ پڑھ لیجئے شعر بے وزن ہو گا بے محل نہیں۔