اچانک سیلاب کا واویلا بھی خوب ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف سے لے کر ہر وفاقی اور صوبائی وزیر تک یہی شور مچا رہا ہے کہ ہماری منصوبہ بندی تو کمال کی تھی، سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائو کے انتظامات بھی مثالی تھے مگر اچانک سیلاب نے سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور زیادہ نقصان ہوا، وغیرہ وغیرہ۔
گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام کے دوران میں نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات، حکومت اور سول انتظامیہ کی غفلت اور منصوبہ بندی کے فقدان کا ذکر کیا تو پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ شکوہ و شکایت پر اتر آئے۔ مجھے ہر معاملے میں حکومت کا ناقد اور عمران خان و ڈاکٹر طاہر القادری کا مداح قرار دے ڈالا مگر اس سوال کا جواب اُن کے پاس بھی نہیں تھا کہ 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد حکومت پنجاب نے آئندہ اسی نوعیت کے زیادہ سطح کے سیلاب کے لئے کیا کیا؟ اور حالیہ بارشوں میں لاہور کیوں ڈوبا؟ کون سی منصوبہ بندی تھی جو ناکام ہوئی؟ ہمارے ہاں حکومت کسی کی ہو فوجی یا جمہوری، مستقل اور پائیدار منصوبہ بندی کسی شعبے میں نہیں کرتی، ڈنگ ٹپائو پروگرام ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں مگر ملک کی پکی اور سدا بہار حکمران بیورو کریسی بھی فائل ورک کرتی ہے، ہر سال بجٹ کی بندر بانٹ بھی، مگر دریائوں کے اردگرد بند باندھنے اور سیلابی پانی کو ڈیموں میں محفوظ کرنے یا سمندر تک کسی رکاوٹ کے بغیر راستہ دینے کی پائیدار سکیمیں نہیں بناتی۔ ظاہر ہے کہ یہ کام مستقل بنیادوں پر ہو گیا تو ہر سال اربوں روپے ہڑپ کرنے کا موقع نہیں ملے گا اورفنڈ خوروں کے وارے نیارے نہیں ہوں گے۔
چند سال قبل ڈیرہ غازی خان کے دورے میں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول کو میں نے بتایا کہ کوہ سلیمان پر بارشوں کی صورت میں رودکوہیوں کا پانی خوب تباہی مچاتا ہے، کھیت کھلیان، گھر، گھروندے، مال مویشی اور انسان نشانہ بنتے ہیں، مستقل سدباب کیا جائے تو یہ پانی آبپاشی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مقامی بیورو کریسی کو حکم دیا۔ فنڈز مختص ہوئے مگر تاحال کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ ہر سال عارضی بند باندھنے اور اگلے سال انہیں نئے سرے سے تعمیر کرنے کے علاوہ متاثرین کی امداد کے لئے کروڑوں روپے بٹورنے والے سرکاری اہلکار، افسر اور عوامی نمائندے خردبرد کا یہ مستقل کھاتہ بند نہیں کرنا چاہتے۔ اپنے پیٹ پر لات کون مارتا ہے۔ عارضی لیپا پوتی میں سب کا بھلا ہے۔
2010ء میں تباہ کن سیلاب آیا تو پنجاب حکومت نے ایک فلڈ کمیشن تشکیل دیا جس کے سربراہ جسٹس منصور علی شاہ تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں محکمہ آبپاشی کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار قرار دیا، سیلاب علاقے میں تعمیرات روکنے، کاشتکاری کو ریگولیٹ کرنے اور پیشگی وارننگ کا مؤثر، مربوط اور پائیدار نظام تشکیل دینے کے علاوہ کئی سفارشات اور تجاویز پیش کی گئیں مگر ان تجاویز اور سفارشات میں سے کسی پر عملدرآمد ہو سکا نہ غفلت کے ذمہ دار افسروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ الٹا ان میں سے بعض کو ترقیوں اور مراعات سے نوازا گیا۔ کمیشن نے متاثرہ علاقوں میں وی آئی پی شخصیات وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیروں کے دوروں کو بھی خطرناک قرار دیا جس کی وجہ سے انتظامیہ پروٹوکول ڈیوٹی میں مصروف ہوتی اور امدادی کارروائیوں سے غفلت برتتی ہے مگر چار سال گزرنے کے بعد صورتحال جوں کی توں ہے۔ مؤثر انتظامات ہوئے نہ دورے رکے البتہ 2014ء کے سیلاب کو اچانک قرار دے کر حکمران اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں اور معترضین کو تنقید برائے تنقید کا ذمہ دار۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں سیلاب اچانک آتے ہیں نہ شدید بارشوں کا قبل از وقت پتہ چلانا ناممکن ہے۔ چیف میٹرولوجسٹ محمد ریاض نے گزشتہ روز وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے اس بیان کی تردید کی ہے کہ شدید بارشوں کی اطلاع محکمہ موسمیات نے دو دن قبل دی۔ چیف میٹرولوجسٹ نے کہا کہ زیادہ بارشوں کی اطلاع جولائی میں دیدی گئی تھی اور ان بارشوں کے باعث سیلاب کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا مگر حکومت پنجاب نے اس وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ چیف میٹرولوجسٹ کے اس بیان کے بعد اچانک سیلاب اور غیر متوقع بارشوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے حکمرانوں کے بارے میں آدمی کیا کہے جو کبھی دو سو انسانوں کی اموات پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، کبھی دھرنا دینے والوں پر برستے ہیں اور کبھی بھارت کی زیادتی کا رونا روتے ہیں کہ اس نے بروقت اطلاع نہیں دی۔
اب ان سے کون پوچھے کہ سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم فلڈ کمیشن کی رپورٹ میں درج تجاویز پر عملدرآمد بھی کیا بھارت کی ذمہ داری تھی یا حکومت کی ناکامی اور بیورو کریسی کی نااہلی پر تنقید کرنے والے تجزیہ کاروں اور مبصرین کی۔ کیا چناب، راوی، جہلم کے دونوں کناروں پر سیلابی علاقوں میں رہائشی کالونیوں کی تعمیر، انہیں بجلی، گیس، پانی کے کنکشن فراہم کرنے اور سیلابی پانی کا راستہ روک کر تباہی کو دعوت دینے کا کارنامہ بھی میڈیا نے انجام دیا، حکومت کے مخالفین نے یا اس میں ہمارے حکمرانوں اور ان کی پسندیدہ بیورو کریسی کا بھی کوئی قصور ہے؟
بیورو کریسی اپنا دفاع یوں کرتی ہے کہ ہر حکمران اسے اپنی پسند و ناپسند کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم، صحت، بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی اور قدرتی آفات و حادثات سے بچائو کی مستقل حکمت عملی شامل ہی نہیں، نمائشی اقدامات پر زور ہے اور عوام کو بے وقوف بنا کر انہیں سیاسی حمایت پر مسلسل آمادہ رکھنا ترجیح اول تو بیورو کریسی کیا کرے۔ جسے انکار کی صورت میں تبادلوں، معطلیوں، تنزلیوں اور برطرفیوں کا خطرہ رہتا ہے اور مفاد عامہ میں بنائی گئی سکیمیں کبھی منظوری کا منہ نہیں دیکھ پاتیں۔ منظور نظر افراد فلڈ کمیشن یا باقر نجفی جوڈیشل کمیشن میں ذمہ دار قرار پائیں، سخت ترین سزا کے مستوجب ٹھہریں تو بھی کسی کا بال بیکا نہیں ہوتا مگر کوئی افسر پسند نہ آئے تو کھڑے کھڑے او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے خواہ وہ قصور وار اور ذمہ دار ہو یا نہ ہو۔ اسے گڈ گورننس کا نام دیا جاتا ہے۔
بہانے بیورو کریسی کے پاس ہزار ہیں اور حکمرانوں کے پاس اس سے کہیں زیادہ۔ دریائے سندھ، جہلم، چناب حتیٰ کہ راوی ہر سال تباہی مچاتے ہیں کبھی کم کبھی زیادہ، بارشوں سے ہر سال اموات واقع ہوتی ہیں اور غریبوں کے گھروندے گر جاتے ہیں مگر مجال ہے کہ چند روزہ بھاگ دوڑ ، حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر قومی خزانے سے معمولی امداد، فوٹو سیشن اور بے مغز بیانات کے سوا کچھ دیکھنے کو ملتا ہو۔ سیلاب اور بارشی پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کرنے کا کوئی منصوبہ، کوئی نیا ڈیم، مضبوط پشتے، بیٹ کے علاقے میں رہائش کالونیوں کی روک تھام اور محکمہ موسمیات کی وارننگ کے مطابق مناسب و مؤثر انتظامات؟ بہانے سازی اور الزام تراشی میں البتہ ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ غصہ اس بار حکومتی اداروں، اہلکاروں اور اپنی نااہلی پر کم، بھارت پر نہ ہونے کے برابر جس نے مبینہ طور پر پانی اچانک چھوڑ دیا اور حافظ سعید کے بقول آبی دہشت گردی کی، مگر دھرنا دینے والوں پر زیادہ ہے جو اگر اسلام آباد کے بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوتے تو شاید سیلاب اور بارش کو باآسانی روک سکتے تھے یا پھر فرصت کے لمحات میں حکمرانوں کو کوئی ترکیب لڑانے کا موقع مل جاتا۔ اچانک سیلاب اور غیرمتوقع بارشوں کا مقابلہ آسان ہوتا۔