چند روز پہلے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے پہاڑپور کے صوبائی حلقہ پی کے68 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میںاحتشام جاوید اکبر نے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ،نتائج کا اعلان ہوتے ہی پورے ملک میں تبدیلی کے دعویداروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ اپ سیٹ ہو گیا اور یہ تاریخ کا اہم ترین دن ہے ،ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی کا واحد الیکشن اس حلقے سے ہارے تھے ۔ آج دوسری طرف چار جماعتوں کا اتحاد بھی تھا لیکن تحریک انصاف کے نوجوان نے وہ سیٹ جیت لی جو ذوالفقار علی بھٹو ہار گئے تھے ،تبدیلی آ گئی...آئیے بے رحم حقائق کی مدد سے اس حلقے کا جائزہ لیتے ہیں ، الیکشن 2013 میں یہاں سے آزاد امیدار جاوید اکبر کامیاب ہوئے ان کا اتحاد مولانا فضل الرحمٰن سے تھا۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار محمد ہمایوں خان نے صرف 1613 ووٹ حاصل کئے۔الیکشن کے بعدیہ آزاد امیدوار جاوید اکبر اپوزیشن کاحصہ بن گئے ۔ تبدیلی کے دعویداروں کو یاد رہے کہ جاوید اکبر خان 1985 سے 2013 تک 5 مرتبہ ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں ۔ یہ صوبائی حلقہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 25 میں آتا ہے اور یہاں سے مولانا فضل الرحمٰن نے کامیابی حاصل کی تھی۔مولانا فضل الرحمٰن نے اس سیٹ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ، اس لئے قومی اسمبلی کے حلقے این اے25 میں ستمبر 2013 میں ضمنی انتخاب ہوا اور تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر داوڑ کنڈی نے کامیابی حاصل کی ۔ اس الیکشن میں بھی آزاد حیثیت میں جاوید اکبر گروپ نے اپنا لوہا منوایا اور اپنے صوبائی حلقے سے مولانا فضل الرحمٰن کے بیٹے اسعد محمود کو پانچ ہزار سے زائد ووٹ کی لیڈ دلوائی۔ لیکن اسعد محمود باقی جگہوں سے ہا ر گئے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم پی اے جاوید اکبر نے بہت فخر سے یہ کہا کہ ہم نے اپنے حلقے سے تو تحریک انصاف کو ہرا دیا اور مولانا اسعد محمود کو جتوا دیا تھا۔حقائق کا تقاضا ہے کہ یہاں یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ یہ تما م ووٹ جاوید اکبر گروپ کے ہی تھے ۔اس بیک گرائونڈ کے بعد اب موجودہ الیکشن کی بات کرتے ہیں ۔ جاوید اکبر جعلی ڈگری کی وجہ سے نا اہل ہو گئے اور اس صوبائی حلقے پی کے 68 میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا ۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف کے رہنمائوں نے خود جاوید اکبر سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ تحریک انصاف کی ٹکٹ لے کر ہماری عزت افزائی کریں۔جس کے بعد جاوید اکبر نے اپنے حامیوں سے مشورے کے بعداس ٹکٹ کو قبول کر لیا اور اس الیکشن میں ان کے بیٹے احتشام جاوید اکبر نے حصہ لیا ، اپنے روایتی حریف مرید کاظم شاہ کو ایک بار پھر شکست دی اور اپنی سیٹ کو دوبارہ حاصل کر لیا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام منظر نامے میں تبدیلی کے ووٹ کہاں نظر آتے ہیں ؟اس کے ساتھ ساتھ این اے 25 کے ضمنی انتخاب کا تذکرہ بھی ضروری ہے ۔تبدیلی کا دعوی کرنے والے یہاں بھی حقائق پر ایک نظر ڈالیں ۔داوڑ کنڈی نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی اور مولانا فضل الرحمٰن کے بیٹے اسعد محمود کو ہرایا۔جیت کی وجوہات یہ رہیں ، الیکشن 2013 میں 46 ہزار ووٹ لینے والے فیصل کریم کنڈی نے ضمنی انتخاب میں داوڑ کنڈی کی حمایت کا اعلان کیا ۔ دوسری طرف بیٹے کو ٹکٹ دینے پر جے یو آئی میں بھی اختلافات ہوئے ۔ جس سے داوڑ کنڈی نے الیکشن میں73 ہزار ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ داوڑ کنڈی کو ملنے والا ووٹ ان کے ذاتی اثرو رسوخ کا نتیجہ ہے یا پھر تبدیلی کے دیوانوں کا؟ کیونکہ موصوف 2002 اور 2008 میں پی پی پی کی ٹکٹ پر دونوں مرتبہ 30 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر چکے ہیں ۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے حلقے پی کے67 کی بات کریں تو یہاں بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر اکرام اللہ گنڈا پور نے ( اسرا ر اللہ گنڈا پور کی وفات کے بعد ہونے والے) ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ،یہاں بھی قابل ذکر بات یہ ہے کہ گنڈا پور خاندان کا اثر و رسوخ ہی جیت کا سبب بنا ۔پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کا جائزہ بھی حاضر ہے۔ پی پی 107 میں نگہت انتصار بھٹی نے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ۔ الیکشن 2013 میں موصوفہ نے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر الیکشن لڑااور 48 ہزارووٹ حاصل کئے جبکہ تحریک انصاف کی صوبیہ سیف بھٹی نے صرف 3283 ووٹ حاصل کئے تھے ۔اس حلقے میں بھی تبدیلی کا ووٹ نہیں بلکہ امیدوار اپنی ذاتی حیثیت میں کامیاب ہو ا۔فیصل آباد میں پی پی 72 کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی جیت بھی عابد شیر علی اور را نا ثناء اللہ گروپ کی باہمی رنجش کے باعث ہوئی ۔ایک گروپ نے پس پردہ مسلم لیگ ن کے امیدوارخواجہ لیاقت کو سپورٹ نہیں کیا جس سے پی ٹی آئی کی جیت ممکن ہوئی ۔ راجن پور میں شہباز شریف کی خالی کردہ سیٹ پی پی247 پر بھی صورتحال یہی رہی۔2013 کے الیکشن میں علی رضا دریشک نے 25 ہزار ووٹ جبکہ تحریک انصاف کے مرزا عبدالکریم نے صرف4070 ووٹ حاصل کئے ۔ضمنی انتخاب میں مشہور سیاستدان نصر اللہ دریشک کے بیٹے علی رضا دریشک نے تکلف کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کامیابی حا صل کی ۔یہاں بھی پارٹی کا تبدیلی ووٹ نظر نہیں آیا ، علی رضا دریشک کا تحریک انصاف سے کتنا ’’گہرا‘‘ تعلق ہو سکتا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے2013 کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا اور ان کے والد نصر اللہ دریشک اس وقت بھی آزاد حیثیت میں رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ الیکشن 2013 کے بعد اب تک ہونے والے ضمنی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو صرف اسلام آباد کے ضمنی الیکشن میں اسدعمر کی کامیابی پارٹی ووٹ کی مرہون منت نظر آتی ہے اگرچہ ٹکٹ نہ ملنے پر انجم عقیل خان کی مسلم لیگ ن سے ناراضی بھی اہم رہی لیکن اسلام آباد میں تبدیلی کا ووٹ نظر آیا ۔چند ایک حلقوں میں مخالف کیمپ میں اختلافات تحریک انصاف کی جیت کا باعث بنے جبکہ باقی تمام ضمنی انتخابات میں سیاسی پرندوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ، جو ہمیشہ کی طرح موسم بدلنے پر اپنا ٹھکانہ بدل لیتے ہیں۔تحریک انصاف اس وقت اپنے دھرنے کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ، نظام کو بدلنے کی بات ہو رہی ہے ،اسمبلی سے استعفے دئیے جا رہے ہیں ، دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے۔اگر عمران خان بذریعہ ووٹ ہی اقتدار میں آنا چاہتے ہیں تو انہیں سیاسی پرندوںپر انحصارختم کرنا ہو گااور حقیقی تبدیلی کیلئے نعروں کو ووٹ کی طاقت میں بدلنا ہو گا وگرنہ جب سیاسی پرندے اڑ گئے توعمران خان بھی محترم اصغر خان کی طرح باقی زندگی صبح کی سیر اور شام کی ورزش میںگزار دیں گے ۔