• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک اس وقت ایک نہیں دو بحرانوں کی لپیٹ میں ہے ایک سماوی ہے جس پر ہمارا صرف اتنا اختیار ہے کہ دنیاوی طور پر بچائو کی تدابیر کریں اور بپھرے ہوئے پانی کو کچھ روک لیں۔ دوسرا دھرنے ہیں جو ہماری اپنی ہی پیداوار ہے گزشتہ رات ایک انتہائی باخبر ذرائع اور حکومتی مستند مبصر سے کھانے پر ملاقات رہی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ اقتدار کی جنگ ہے‘‘ اگرچہ یہ درست نہیں مگر ’’ہارسز مائوتھ ‘‘ کے کہنے پر تسلیم بھی کر لیں تو تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ حضور آپ کا بھی کچھ قصور ہو گا۔ جب پوچھا گیا کہ اس کا حل کیا ہے۔ تو جواب یہ تھا کہ طاقت تو استعمال نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں یہ بات زیر بحث آئی۔ وزیراعظم کی واضح ہدایت ہے کہ دھرنوں میں عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کر اس لئے شریک کیا گیا ہے کہ اگر سختی کی جائے تو وہ واویلا کر سکیں کہ ظلم ہو رہا ہے سو یہ نہیں ہو گا۔ مذاکرات سے ہی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب انہیں بتایا کہ اسلام آباد میں کریک ڈائون ہو رہا ہے تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’یہ میرے لئے خبر ہے‘‘ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ مگر مطالبہ اول ہنوز اپنی جگہ برقرار ہے میز پر مان جاتے ہیں رات کو کنٹینر پر کھڑے ہو کر انکار کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا کہ جب وزیراعظم، وزیر داخلہ کے ہمراہ بنی گالہ گئے تھے تو وہاں بات چیت میں جناب عمران خان نے دھاندلی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایک لفظ بھی نہیں بولا بلکہ بے تکلفی کا ماحول تھا۔ اچانک ہی طوفان کہاں سے کھڑا ہو گیا۔ ڈیڑھ دو گھنٹہ کی اس ڈنر میٹنگ‘‘ میں کوئی چونکادینے والی بات نہیں تھی اور نہ ہی ’’صاحب قلم‘‘ کوئی بڑی نیوز بریک کر سکے۔ وہاں موجود دو بڑے صحافیوںکا بڑے وثوق سے دعویٰ تھا کہ ’’بات صرف مطالبات کی نہیں کچھ اور ہے جس کی پردہ داری ہے۔ یہ کہا گیا کہ بات اسلام آباد کے دھرنے میں بیٹھے چند ہزار افراد کی نہیں بعض ٹی وی چینلز کے پرائم ٹائم میں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے خطاب روز کروڑوں عوام تک پہنچ رہے ہیں جن میں تنگ و تیز، تلخ الفاظ ہی نہیں الزامات بھی ہوتے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد یہ ایسا ہے تو پوچھا گیا ’’ہم کیا کریں‘‘ کہا گیا کہ یہ بھی تو ’’کھرا‘‘ لگایا جانا چاہئے تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کھانے میں موجود جناب ضیاء شاہد، جناب مجیب الرحمٰن شامی، سید سرمد علی اور جناب عبدالرحمٰن کا یہ کہنا تھا کہ وزیراعظم اخبارات کے مالکان سے دور ہیں۔ ان کے اقتدار کو 14 ماہ ہو گئے۔ بجلی کے بحران کے حوالے سے صرف ایک بریفنگ دی گئی۔ اے پی این ایس کی جانب سے کئی بار تحریری استدعا کی گئی ملاقات تو دور کی بات ہے جواب تک نہیں آیا۔ جو وفاقی وزراء جواب دیتے ہیں تو ’’نمبر لگانے‘‘ میں اتنے پُر جوش ہو جاتے ہیں کہ تلخیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہیں۔ اس کو اگر کم کرنا ہے تو سیز فائر بھی ہونا چاہئے پرانے زمانہ میں بادشاہ کی جانب سے درباریوں کو دس ہزاری، بیس ہزاری کے اعزازات دیئے جاتے تھے اب درباری تو نہیں لیکن ویسے ہی گزارشات کی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔ اگر کوئی دل کی سچی بات کہنے کی جرأت کرے تو اسے یہ خوف بھی رہتا ہے کہ کل لوگ یہ کہہ کر انگلی اٹھائیں گے کہ یہ بیس لاکھی، پچاس لاکھی جا رہا ہے۔ انفارمیشن تک رسائی کے لئے کوئی ذریعہ موجود نہیں۔ محکمہ اطلاعات سے متعلقہ محکموں سے افسران ’’اقتدار کے برآمدوں‘‘ میں اتنے مصروف ہیں کہ باہر کی خبر تک نہیں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے ان کی ’’صاحب و سلامت‘‘ ہی نہیں اور اگر ہے تو ’’ہیلو ہائے‘‘ تک محدود ہے۔ رائو تحسین تو بڑے ہی غنیمت ہیں جب سے آئے ہیں تو معلوم ہوا ہے کہ پریس انفارمیشن کا بھی کوئی محکمہ ہے وہ وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ہمارے دیرینہ ساتھی عرفان صدیقی کو بھی باضابطہ طور پر کھانے کی میز پر لے آئے ہیں کہ اس طرح آپس کی میٹنگ سے کم از کم ایک دوسرے کو کہنے اور سننے کا موقع تو ملا ہے یہ معلوم ہوا ہے کہ حالات پر حکومتی نقطہ نظر کیا ہے اور ’’چوتھا ستون‘‘ کیا سوچتا ہے۔ تاہم یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ گتھی ’’آمنے سامنے‘‘ بیٹھ کر ہی حل ہو گی اس حوالے سے جس سنجیدگی کا مظاہرہ ہونا چاہئے ویسا نظر نہیں آ رہا۔ بھٹو دور میں 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد نے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ 9؍ اپریل کو لاہور میں نہیں تمام صوبوں کے دارالحکومتوں میں صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں کا بائیکاٹ اور گھیرائو کیا گیا۔ بھٹو انتظامیہ نے آہنی ہاتھ سے اسے روکنے کا فیصلہ کیا۔ پولیس اور رینجرز نے آنسو گیس استعمال کی۔ گولیاں چلیں۔ لاہور میں تو خواتین کے جلوس کو منتشر کرنے کے لئے ’’مخصوص خواتین‘‘ کو پولیس وردی پہنا کر ڈنڈے دے کر لایا گیا۔
علامہ قادر حسن نے انہیں ’’نتھ فورس‘‘ کا نام دیا۔ اس تحریک کے دوران لاہور، ملتان اور کراچی میں جزوی مارشل لا بھی لگایا گیا۔ قومی اتحاد کے مطالبوں میں نمبر ون وزیراعظم بھٹو کا استعفیٰ اور انتخابی اصلاحات کے ساتھ نئے انتخابات تھا۔ اس تحریک میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ ہزاروں زخمی اور ایک لاکھ سے زائد گرفتار کئے گئے جس میں پاکستان قومی اتحاد کی تمام قیادت شامل تھی صرف ایک پیر صاحب پگارو تھے جنہیں گرفتار کرنا حکومت کے بس میں نہ تھا اس لئے وہ باہر تھے۔ جب بھٹو صاحب مرحوم نے عوامی دبائو کے تحت پاکستان قومی اتحاد سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے سردار عبدالقیوم کو آگے کیا کہ وہ بات چیت کے لئے راضی کریں۔ نوابزادہ صاحب مرحوم پیر صاحب قبلہ سے بھی نام و پیام ہوا اور تمام لیڈروں کو سہالہ ریسٹ ہائوس میں اکٹھا کیا گیا جہاں ایک سہ پہر وزیراعظم بھٹو خود گاڑی ڈرائیور کر کے جا پہنچے اور اس طرح بات چیت کا آغاز ہوا۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کی قیادت وزیراعظم اور پاکستان قومی اتحاد کی ٹیم کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمود کرتے تھے۔ آمنے سامنے بیٹھنے کا ہی یہ اعزاز تھا کہ اپوزیشن وزیراعظم کے استعفیٰ سے دستبردار ہو گئی۔ اب تو موجودہ حالات میں اتنی کشیدگی نہیں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کو مصالحتی کمیٹی میں شامل کیا جائے اور جناب وزیراعظم نواز شریف خود تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی قیادت سے براہ راست مذاکرات کریں ویسے تو عمران خان اور علامہ طاہر القادری سے ان کے ذاتی تعلقات رہے ہیں تاہم ایسے بہت سے بزرگ موجود ہیں جو انہیں آمنے سامنے بٹھانے میں مثبت اور موثر کردار ادا کر سکتے ہیں جہاں تک دھاندلی کی بات ہے تو قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی اعتراز احسن، خورشید شاہ، مولانا فضل الرحمن، زاہد خان، ایم کیو ایم سب کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی توثیق کی ہے۔ عمران خان جو آج بلاناغہ جنگ اور جیو پر تبریٰ پڑھتے ہیں انہیں یاد ہو گا کہ جیو ہی تھا جس نے سب سے پہلے پولنگ والے دن دھاندلی کا انکشاف کیا تھا کہ عمران خان کا یہ مطالبہ کچھ غلط بھی نہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کو بھی شکایات ہیں ایک دفعہ ’’تھیلے کھول‘‘ دیئے جائیں الیکشن اصلاحات پر کوئی اختلاف نہیں۔ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے طے ہو جانا چاہئے تب ہی صحیح اور پائیدار جمہوریت قائم ہو سکے گی۔ نوح ناروی کا ایک شعر سن لیجئے؎
کہا اونٹ پر بیٹھوں کہا اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے کہا کوہان تو ہو گا
تازہ ترین