• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اسلامیان ہند نے پاکستان حاصل کر لیا تو خواب کی کھیتی پر بہار آگئی۔ یہ خوش خبری موسم گرما کی آندھی کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف پھیل گئی۔ ہمارے قصبے تک بھی پہنچی۔ لڑکے بالے مارے خوشی کے گلی کوچوں میں نکل آئے۔ ہم میں سے جنہیں پاکستان ٹائمز پڑھنے کا موقع ملا وہ انور علی کے ننھا سے ضرور واقف ہیں۔ یوں سمجھئے کہ درجنوں ننھے ناچتے گاتے گلیوں میں نکل آئے تھے ۔ کوئی ایک ٹانگ پر ناچتے ہوئے چمٹا بجانے لگا۔ کوئی آنکھیں بند کر کے ڈھول پیٹے جا رہا تھا۔ دیر تک یہ ہنگامہ جاری رہا تو بزرگوں نے گلی میں جھانک کر ہانگ لگائی کہ کم بختو یہیں پر اودھم مچاتے رہو گے ۔ پاکستان چلنے کی تیاری کر لو۔ تو صاحب ہم نے پوٹلیاں اٹھائیں اور پاکستان کی طرف نکل پڑے۔ جنہیں زیادہ جلدی تھی وہ کھیتوں اور پگڈنڈیوں کی طرف ہو لئے۔کچھ نے ریل کا راستہ پکڑا۔ بہت سے ایسے تھے کہ مارے خوشی کے ٹرین کی چھت پر جا بیٹھے۔ پاکستان بننے کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ ایم ڈی تاثیر نے ’پاکستان مبارک ‘کے عنوان سے پے در پے کئی مضامین لکھے۔ شوکت تھانوی نے قاضی جی کا کردار تخلیق کیا اور ’پاکستان ہمارا ہے‘ کا ریڈیائی سلسلہ شروع کر دیا۔ شاعر قصیدے سنا رہے تھے۔ خطیب اپنی تقریر کے جوہردکھا رہے تھے۔ہم سب کشاں کشاں پاکستان پہنچ گئے اور حیرت کے عالم میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ اس موقع پر امرتسر کے شاعر نفیس خلیلی نے لکھا تھا۔
دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف
قائداعظم کا پاکستان دیکھ
اس بھیڑ میں حسن عسکری کو ایک بڑھیا کی آواز سنائی دی جو خود کلامی کے انداز میں کہہ رہی تھی۔ مسلمانوں نے اپنا گھر بنا لیا ہے۔ ٹوٹا پھوٹا ہے تو کیا ہوا۔ سر چھپانے کو چھت تو مل گئی۔ حسن عسکری ایک جذباتی آدمی تھے۔ وہ اس جملے کو لے اڑے۔ انہوں نے اسے پاکستان میں سیاسی شعور بیدار ہونے کی علامت جانا۔ مائوں کے دل میں بہت وسعت ہوتی ہے۔وہ سخت سے سخت حالات میں بھی محبت کی چھائوں دینا جانتی ہیں۔ اڑچن اس میں یہ ہے کہ دنیا کے معاملات مائوں کی محبت کے تابع نہیں۔ وہ شاعر بھی اس بڑھیا کے کہیں آس پاس ہی موجود تھا جسے چند برس بعد لکھنا تھا۔
کوئی دریچہ ہوا کے رخ پہ نہیں بنایا
میرے بزرگوں نے سوچ کے گھر نہیں بنایا
عوام کا سیاسی شعور بیدار ہونے کی دلیل میں بہت کشش ہے۔ اس میں بہت سی امید ہے۔ تاہم عوام کی سیاسی بیداری میں بہت سا ابہام بھی ہے۔ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔ ہمارے ہاں سیاسی شعور بیدار ہونے کی آواز وقفے وقفے سے سنائی دیتی ہے۔ جیسے کہنی کی چوٹ میں رہ رہ کے ٹیس اٹھتی ہے۔ ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو پرچہ لگا کہ عوام کا سیاسی شعور بیدار ہو گیا ہے۔
اب وہ دقیانوسی سیاست دانوں کے جال میں نہیں پھنسیں گے۔ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب لڑا تو ہمارا سیاسی شعور بیدار ہوا۔ پیپلز پارٹی کا قیام سیاسی شعور کا کرشمہ تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس سیاسی شعور کا اعلان تھا۔ بھٹو صاحب کی عوامی حکومت کا قیام سیاسی شعور کا مرہون منت تھا۔ آپ گنتے جائیں۔ وقت کی ہر کروٹ پر ہم نے سیاسی شعور کی نشان دہی کی۔ استاذی غلام مصطفی تبسم کے ایک پنجابی مصرعے کا مفہوم یہ ہے کہ رانجھن یار کی جھوک آخر کہاں ہے۔ بار بار نظر آتی ہے مگر قریب نہیں آتی۔ تو سیاسی شعور کی یہ رانجھن جھوک ہمارے استاد مکرم سعید اظہر نے بالآخر علامہ طاہر القادری کی پُرانوار ہستی میں دریافت کی ہے۔لکھتے ہیں کہ ’’آئین کی بالادستی ، پارلیمنٹ کی حرمت اور قومی یکجہتی کے خواب کو کونسی موت آپڑتی ہے جب ڈاکٹر طاہر القادری ہر بے گھر کو پچیس سال کی اقساط پر بلاسود گھر دینے کا وعدہ کرے، ضروری اشیائے خورد و نوش آدھی قیمت پر فراہم کرنے کا شیڈول دے۔ لوئر مڈل کلاس کے لئے بجلی ، پانی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس ختم کرنے اور مذکورہ یوٹیلٹیز نصف قیمت پر فراہم کرنے کی پالیسی سامنے لائے۔‘‘
ارے بھائی نہیں، ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ ہمیں موت نہیں پڑتی۔ خدا آپ کو زندگی دے اور آپ نئے پاکستان میں چین کی بانسری بجائیں۔ خواہشات کی اس فہرست میں ایک وعدے کا اضافہ ہماری طرف سے بھی کر لیں۔ نئے پاکستان میں حکومت اس امر کو یقینی بنائے گی کہ ہر شادی شدہ جوڑے کی پہلی اولاد نرینہ ہو گی۔ اگر وعدہ ہی کرنا ہے اور اسے پورا کرنے کے وسائل اور طریقہ کار کی کوئی فکر نہیں تو صاحب چند میں جو بڑھیا چرخہ کات رہی ہے اس کے لئے جنرل سیلز ٹیکس کی معافی کا اعلان بھی کر دیں۔ بھائی سعید اظہر کے خلوص میں کلام نہیں عبدالحمید عدم نے لیکن کہا تھا۔ عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے۔ خلوص کے بندوں میں یہی خامی ہے کہ سیاسی شعور کی گت بجائے جاتے ہیں۔ اس میں معاشی شعور کا سُر نہیں لگاتے۔ اجتماعی معاملات کا شعور تمدن اور معیشت کی فہم سے ترتیب پاتا ہے۔کل تو ہمیں ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی خبر سنائی جاتی تھی۔ اب طیب اردوان کی نوید دی جاتی ہے۔ ملائیشیا اور ترکی کے اپنے معاشی حقائق ہیں۔وہاں کی خواندگی کی شرح مختلف ہے۔ سیاسی تاریخ مختلف ہے۔آبادی کے خدوخال مختلف ہیں۔ ملائیشیا ، ترکی اور چین سمیت دنیا کے کسی ملک سے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ہم کسی خلائی جزیرے میں نہیں رہتے۔ اس دنیا کا حصہ ہیں اور ہمیں دنیا بھر کے انسانوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
تاہم سمجھنا چاہئے کہ سیاسی بندوبست کوئی پہاڑی جڑی بوٹی نہیں کہ اسے اٹھا کر اپنے چولے میں رکھیں اور میدانی علاقے میں شفا کی پڑیاں تقسیم کر دیں۔ انصاف اور مساوات کا خواب بہت خوبصورت ہے اور ہم سب کا سانجھا خواب ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انصاف اور آزادی کے دو دھارے ساتھ ساتھ بہتے ہیں۔ انصاف کے دریا کی لہر زیادہ بلند ہو جائے تو آزادی کا چشمہ سوکھ جاتا ہے۔ اگر آزادی کی ندی منہ زور ہو جائے تو انصاف کا تالاب سوکھ جاتا ہے۔ سیاسی شعور اسی کا نام ہے کہ انصاف اور آزادی میں توازن کیسے قائم کیا جائے۔ انسانی خوشی کا تصور انصاف اور آزادی کے دو رنگوں سے عبارت ہے۔ اشتراکی معاشرے میں انصاف کے نام پر آزادی کا گلا دبایا گیا اور سرمایہ دار دنیا میں آزادی کا پرچم اٹھا کر انصاف کی کشتی ڈبوئی گئی۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معیشت کی بنیاد علم اور پیداوار ہے۔ پیداوار میں اضافہ کیے بغیر مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو ایسی مساوات محض غربت کا پھیلائو ہو گی۔ اصل مقصد یوٹوپیا کی مساوات نہیں، غربت کا خاتمہ ہے۔ معاشی ترقی کے دوران غریب اور امیر کا فاصلہ بڑھتا ہے۔ اس پر زور دینے سے محض انارکی پھیلتی ہے۔ امید کی اصل کرن غریب اور امیر کے بیچ میں متوسط طبقے کا پھیلائو ہوتا ہے۔ معاشی ترقی ایک خاص سطح تک پہنچنے کے بعدشرح ترقی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ ناگزیر مرحلہ نظام کی ناکامی کا نشان نہیں ہوتا۔ پیداوار بڑھانے کے لئے سب سے پائیدار ذریعہ تعلیم ہے۔ تعلیم محض مہارتوں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی نہیں۔ علم کو معیشت کا بامعنی حصہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم علم کی تخلیق میں شریک ہوں۔ تعلیم کے بتاشے بانٹنے سے علم کی ثقافت پیدا نہیں ہوتی۔ علم کی تخلیق کے لئے ہم عصر علمی اصول ضابطے اپنائے جاتے ہیں۔
آج کا علم سائنسی طریقہ کار پر مبنی ہے۔ ہم نے انصاف کی بھاگ بھری لال پری کا ایسا تعاقب شروع کیا ہے کہ آنکھیں بند کرکے دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ مابعد جدیدیت کی دنیا تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ جدیدیت سے کندھا تو ملایا جائے۔ ہم نے جدیدیت سے دشمنی پال رکھی ہے اور جمہوریت کو مسلسل کوستے رہتے ہیں۔ اس طرح ہماری معیشت کا مستقبل اچھا نہیں ہو سکتا۔ یہ شعور کی بیداری نہیں، شعور سے انحراف ہے۔ ہماری سیاسی بیداری کے یہی ڈھنگ ہیں تو ایسی بیداری سے نیند بہتر ہے۔ میر کی طرح سے منڈکری مار کر سو جائیے۔ بز رگوں نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے سوتے رہنا ہی نیکی ہے۔
تازہ ترین