• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل کے گریبان میں دنیا کے 46ملکوں کے 160دانشوروں نے سرمایہ داری نظام کے صنعتی ممالک کی ہوس زر کی وجہ سے انسانی زندگی کو ختم کرنے کے جن اندیشوں کا ذکر کیا گیا ہے سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے تو ان اندیشوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا کرپشن کے ذریعے کرپشن کا علاج نہیں ہو سکتا ۔ سرمایہ داری نظام کے ماہرین تو اپنی لگائی ہوئی آگ کو بجھانے کے لئے جو تجویز پیش کریں گے وہ آگ پر پٹرول چھڑکنے سے مختلف نہیں ہو سکتی ۔
یاد پڑتا ہے کہ چند سال پہلے سرمایہ داری نظام کے ماہرین نے عالمی تمازت یا ’’گلوبل وارمنگ ‘‘ سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی کثافت سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بتایا تھا کہ عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی مہم چلائی جائے ۔ یہ بھی ماہرین نے ہی بتایا تھا کہ ایک تنومند اور بھرپور درخت چوبیس گھنٹوں کے دوران ماحول کو کم از کم دو ٹن آکسیجن فراہم کرتا ہے ۔ کروڑوں کی تعداد میں تنومند بھرپور اور سرسبز درختوں کے جنگل ہر روز کروڑوں ٹن آکسیجن پیدا کرکے ’’گلوبل وارمنگ‘‘ کی تمازت اور حرارت میں خاصی کمی لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ہماری اور نسل انسانی کی بدقسمتی سے مذکورہ بالا تجویز پر عمل کرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود اس تجویز پر عمل نہیں کیا گیا اور شجرکاری کی مہم چلانے کی تجویز پر عمل کرنے سے امریکہ بہادر نے بھی انکار کر دیا تھا کہ جس کی صنعتیں سب سے زیادہ کوئلے، تیل اور گیس کے استعمال کے ذریعے سب سے زیادہ آکسیجن ضائع کر رہی ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ ماحولیاتی کثافت اور گلوبل وارمنگ میں اضافے کی ذمہ دار قرار دی جاتی ہیں ۔
تنومند، بھرپور اور بالغ درختوں کی 24گھنٹوں میں دو ٹن آکسیجن کی فراہمی کی قوت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم پاکستان کے لوگ اور خاص طور پر جوان نسل سے تعلق رکھنے والے شہری اپنے وطن میںشجرکاری کی مہم شروع کر سکتے ہیں اس مہم کے ذریعے اگر ہم عالمی سطح کی ماحولیاتی کثافت اور گلوبل وارمنگ میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لاسکتے تو اپنے ملک کی آب وہوا میں مثبت تبدیلی کی توقع بلکہ یقین رکھ سکتے ہیں اور اپنے ملک کو لکڑی کی دولت سے مالا مال کر سکتے ہیں اور یہ کام صرف پانچ سے دس سالوں میں کیا جا سکتا ہے ۔ کچھ بعید نہیں ہو گا اگر درختوں کی رونق اور سائیوںکے بہتات اور موسموں کی شدت میں کمی کی وجہ سے ہمارے لوگوں کی منفی سوچ مثبت سوچ میں بدل جائے لوگوں کے لئے ایک دوسرے کو برداشت اور پسند کرنے کی آسانیاں پیدا ہو جائیں ۔ ہمارے پہناوے بدل جائیں، زبان تبدیل ہو جائے، غصہ کم ہو جائے ہم ایک دوسرے کے بہتر پڑوسی بن جائیں اور بہتر پڑوسی بن جانے سے کشمیر جیسے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں اور کالا باغ جیسے ڈیم بھی بن سکتے ہیں ۔ ہمارے دانشور بھی شائد پوری طرح اندازہ نہ لگا سکیں کہ درخت جو انسان کے سب سے اچھے دوست ہوتے ہیں انسانوں کے لئے کیا کچھ نہیں کر سکتے ۔
دنیا کے 160 دانشوروں نے مستقبل قریب کی دنیا کے بارے میں جو اندیشے ظاہر کئے ہیں وہ اندیشے سرمایہ داری نظام کے منافع خوروں کو بھی معلوم ہوں گے مگر وہ ان اندیشوں کے سدباب کے بارے میں غور کرنے کی بجائے یقینی طور پر یہ سوچ رہے ہوں گے کہ عالمی سطح پر جب لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں ملے گا تو ہمارےلئے بہترین موقع ہو گا کہ ہم پاکستان جیسے غریب اور محتاج ملکوں سے گلیشیئر خرید کر انہیں بوتلوں میں بند کرکے عالمی منڈیوں میں مارکیٹ کریں اور پیاسوں کی پیاس بجھا کر اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کریں ۔ یہ اندیشہ پڑھتے ہوئے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ
ہم الزام ان کو دیتے تھے
قصور اپنا نکل آیا
مگر ہم ’’ان کے ‘‘ الزام میں اپنا قصور کیسے چھپا سکتے ہیں ۔ان کے الزامات بھی تو ہمارے قصوروں پر ہی پلتے ہیں ۔
تازہ ترین