• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر تین صوبوں یعنی پنجاب ، خیبرپختونخوا اور سندھ سے 15 روز میں جواب طلب کر لیا ہے ۔ اگلے روز بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی طرف سے یہ ریمارکس بھی دئیے گئے کہ بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑانے کیلئے صوبے تاریخی حربے استعمال کر رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے ان ریمارکس سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کراتی ہیں یا بلدیاتی انتخابات سے دور بھاگتی ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ صرف غیر جمہوری حکومتوں میں ہی بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں ۔ اس حوالے سے جمہوری حکومتوں کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ہے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ جمہوری حکومتیں اس تاثر کو ختم کریں اور فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائیں۔اگر بلوچستان کی حکومت بلدیاتی انتخابات کرا سکتی ہے تو دیگر تین صوبائی حکومتوں کیلئے یہ کام مشکل نہیں ہے ۔ بلوچستان میں دیگر تین صوبوں کی نسبت امن وامان کی صورت حال زیادہ خراب ہے۔ جب وہاں بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے تو بعض قوتوں نے یہ کوشش کی کہ حالات بہت زیادہ خراب کر دئیے جائیں تاکہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو ۔ انتخابی دفاتر اور عملے پر شدت پسندوں کی جانب سے حملے بھی کیے گئے۔ان حملوں میں کئی افراد جاں بحق و زخمی ہوئے لیکن بلوچستان کی منتخب حکومت کا سیاسی عزم حالات پر غالب آ گیا اور وہاں انتخابی عمل مکمل ہو گیا۔ یہ صوبائی حکومت کا ایک حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ بلوچستان میں یہ کام ہونے کے بعددیگر صوبائی حکومتیں حالات کی وجہ سے انتخابات نہ کرانے کا بہانہ نہیں بنا سکتی ہیں ۔ اگر وہ طے کرلیں تو سب کچھ ممکن ہے ۔غیر جمہوری حکومتوں میں سیاست دانوں کا یہ موقف ہوتا ہے کہ انتخابات ہر قسم کے حالات میں ہو سکتے ہیں ۔ وہ ان ممالک کی بھی مثال دیتے ہیں، جہاں جنگوں اور خانہ جنگی کے باوجود انتخابات ہوئے ہیں ۔ لہٰذا سیاسی حکومتوں کے پاس یہ جواز نہیں ہے کہ خراب حالات کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہو رہے۔ ویسےبھی کسی صوبائی حکومت نے امن وامان کی صورت حال یا حالات کی خرابی کو انتخابات کے التواء کا جواز نہیں بنایا ہے۔ان کے نزدیک بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے اسباب کچھ اور ہیں ۔
بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی ساری ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈالنے سے پہلے ان کا مؤقف بھی سن لینا چاہئے تھا ۔ اس حوالے سے سندھ کا موقف زیادہ قابل غور ہے ۔ سندھ حکومت کے ذمہ داروں کا یہ کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ آرڈی ننس 2002ء کے ذریعہ ضلعی حکومتوں کا جو نظام رائج کیا گیا تھا ، وہ نئی جمہوری حکومتوں کو قابل قبول نہیں تھا کیونکہ اس نظام کے ذریعہ صوبوں کے اختیارات ختم ہو گئے تھے ۔ ملک میں عملاً دو سطحوں پر حکومتیں تھیں ۔ ایک وفاقی سطح پر اور دوسری ضلعی سطح پر۔پاکستان جیسے وفاق میں وفاقی اکائیوں کی حیثیت ختم ہو گئی تھی اور یہ بات دستور کی روح کے منافی تھی۔ 2010ء میں صوبوں کو یہ اختیار ملا کہ وہ اپنے معروضی حالات کے مطابق اپنے اپنے بلدیاتی قوانین بنائیں اور یہ کوشش کریں کہ تمام صوبوں کے قوانین میں بہت حد تک یکسانیت ہو ۔ سندھ حکومت کے ذمہ داروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبوں کو بلدیاتی قوانین بنانے کیلئے مہلت نہیں دی گئی ۔ عدالتوں کی طرف سے مسلسل یہ ڈیڈ لائن دی جاتی رہی کہ ان کی طے کردہ مدت میں انتخابات کرا دئیے جائیں ۔ عدالتوں کی طرف سے دی گئی مدت میں قوانین بنانا اور بلدیاتی انتخابات کرانا ممکن نہیں تھا ۔ پھر دوسری ڈیڈ لائن دی گئی ، اس میں بھی ممکن نہیں تھا ۔ اسی طرح تیسری اور چوتھی ڈیڈ لائن دی گئی ، ان میں بھی یہ کام ممکن نہیں تھا ۔ صوبے شروع سے عدالتوں سے یہ درخواست کر رہے تھے کہ انہیں بلدیاتی قوانین کی منظوری اور بلدیاتی انتخابات کیلئے کچھ معقول وقت دیا جائے کیونکہ بلدیاتی نظام ہی تبدیل ہو گیا ہے لیکن صوبوں کو یہ مہلت نہیں دی گئی ۔ اسی کشمکش میں بہت سا وقت ضائع ہو گیا ۔ جب صوبے بلدیاتی قوانین منظور کرا چکے ، انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے اور بلدیاتی اداروں کی حلقہ بندیاں کرنے کا کام بھی کر چکے تو پھر عدالتوں میں یہ مسئلہ چلا گیا کہ حلقہ بندیاں متنازع ہیں اورحلقہ بندیوں کا اختیار صوبائی حکومتوں کی بجائے الیکشن کمیشن کو دیا جائے ۔ابھی تک اس معاملے پر فیصلہ نہیں ہو سکا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی مسلسل اپنی پریس کانفرنسوں میں سندھ کا یہ موقف پیش کرتے رہتے ہیں اور وہ صحافیوں سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاخیر ہماری وجہ سے نہیں ہو رہی ہے۔سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کچھ زیادہ کھل کر بات کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ حکومت کے انتظامی معاملات کے حوالے سے عدالتیں اپنے احکامات جاری کرتی رہیں گی تو مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا ۔ صوبائی حکومتوں کو حد بندیوں کا اختیار آئین نے دیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں حد بندیوں کے اختیارات الیکشن کمیشن کو دے بھی دیں ، تب بھی الیکشن کمیشن کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں ہے کہ وہ دور دراز علاقوں میں حد بندیوں کا کام کرا سکے ۔ اس کیلئے بھی الیکشن کمیشن کو صوبائی حکومتوں کی مدد درگار ہو گی ۔ لہٰذا حد بندیوں کا وہی پرانا نظام چلنے دیا جائے تاکہ بلدیاتی انتخابات ہو سکیں ۔ دیگر صوبوں کا بھی کم و بیش یہی موقف ہے ۔ اب تک بلدیاتی انتخابات نہ کرانے والے صوبوں کے حکمران یہ بھی کہتے ہیں کہ جس طرح بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، انہیں انتخابات بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ اگر اس طرح کے انتخابات پنجاب ، خیبر پختونخوا اور سندھ میں ہوتے ہیں تو لوگ انہیں تسلیم نہیں کریں گے اور ان صوبوں میں زبردست سیاسی انتشار پیدا ہو جائے گا ۔ بلوچستان کے بلدیاتی قوانین میں بھی بہت سقم ہے ۔ اگر بلوچستان میں جلدی نہ کی جاتی تو انتخابی اداروں اور بلوچستان کی حکومت کی رٹ پر وہاں کے عوام کا اعتماد اس قدر مجروح نہ ہوتا ، جس قدر بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے ہوا ہے ۔
صوبوں کے اس موقف کو یکسرنظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور معروضی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہئے کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو سکے اور صوبے اس حوالے سے ایسے دلائل نہ دیں ، جنہیں سپریم کورٹ تاخیری حربوں سے تعبیر کر رہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کو بھی مطلوبہ وقت دینا چاہئے ۔ صوبائی حکومتوں کو بھی وقت ملنا چاہئے اور وہ پیچیدگیاں بھی ختم ہونی چاہئیں، جو سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے بقول عدالتی احکامات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ پوری دنیا میں مقامی حکومتیں موثر طور پر کام کر رہی ہیں۔ بلدیاتی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے شہری مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں، جو لوگوں میں مایوسی اور غم و غصے کا سبب بن رہے ہیں ۔ تین صوبوں کی حکومتوں کو بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے وہی سیاسی عزم پیدا کرنا ہو گا ،جو بلوچستان حکومت کا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ باقی تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے یہ سوالات بھی نہ اٹھیں ، جو بلوچستان میں ہونے والے انتخابات سے متعلق اٹھ رہے ہیں ۔
تازہ ترین