• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل راحیل نے ضرب عضب آپریشن شروع کرتے وقت اور اس کے بعد کئی دفعہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ فوج دہشت گردوں‘ ملک دشمنوں‘ ان کے سہولت کاروں اور مالی اعانت کرنے والوں کو ہرگز نہیں چھوڑے گی اور انہیں وطن عزیز کے خلاف کارروائیوں کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ کے قائد الطاف حسین اور کراچی کی قیادت کے خلاف حالیہ واقعات کی روشنی میں غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
ایک معروف کالم نویس نے رواں ہفتےاپنے کالم میں لکھا ہے کہ ’’ایک دعوت میں اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل پرویز مشرف اور آئی ایس آئی کے ڈی جی ضیاء الدین بٹ کے ساتھ ایک ہی میز پر کھانے میں مصروف تھے‘ جب پرویز مشرف نے کہا کہ ’’متحدہ کے قائد الطاف حسین ملک کے اندر قتل و غارت اور باہر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں اس لئے انہیں ملک سے باہر ہی کیفر کردار تک پہنچا دینا چاہئے۔‘‘ چند سال پہلے غالباً پرویز مشرف ابھی برسراقتدار تھے جب موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا تھا کہ ’’پرویز مشرف نے چند وزراء کی موجودگی میں وزیراعظم نوازشریف سے کہا تھا ’’الطاف حسین ’’را‘‘ کے ساتھ مل کر ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہے اور اس کی وجہ سے ملک کے اندر کراچی میں بھی ہر وقت ایک ہنگامی صورتحال درپیش رہتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسے راہ سے ہٹا دیا جائے‘ ہمارے پاس ایسے ذرائع موجود ہیں کہ انہیں پاکستان سے باہر ہی قتل کروایا جا سکتا ہے ۔‘‘ فوج کے سربراہ کی اس تجویز پر وزیراعظم حیران رہ گئے اور انہوں نے ایسی مہم جوئی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
کراچی کے سابقہ میئر مصطفیٰ کمال جو بعد میں سینیٹر بھی رہے‘ انہوں نے سینٹ کی ممبر شپ سے استعفیٰ دے دیا اور جانے انجانے خوف سے از خود ملک بدری اختیار کر کے دبئی میں جا بسے۔ انہوں نے وطن واپس آتے ہی متحدہ سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ بطور گھر کے بھیدی الطاف حسین اور ان کے حواریوں کی سب کارستانیوں کو ببانگ دہل پریس کانفرنس میں بیان کیا‘ جس میں ٹارگٹ کلنگ‘ اغواء‘ بھتہ خوری‘ انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ رابطے ‘ کراچی سے متحدہ کے کارکنوں کو انڈیا میں تخریب کاری کی تربیت‘ غیرقانونی طو رپر بھاری رقوم کی بیرون ملک ترسیل‘ غیرقانونی بھرتیاں‘ زمینوں پر قبضے‘ سب کچھ تو بیان کر دیا اور اس کے دستاویزی ثبوت وزارت داخلہ اور برطانیہ کی حکومت کو فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ اس سے پہلے سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا قرآن مجید سر پر رکھ کر حلف کے بعد یہ ساری باتیں پریس کا سامنے رکھ چکے ہیں بلکہ ایک سے زیادہ سوٹ کیس دستاویزات سے بھرے ہوئے تھے وہ برطانیہ میں ’’میٹرو پولیٹن‘‘ پولیس کے حوالے کر چکے ہیں۔ برطانیہ میں الطاف حسین اور اس کے قریبی ساتھی جو لندن میں پولیس کے روبرو انڈیا کی ایجنسی کے ساتھ رابطے اور ان کی طرف سے ملنی والی رقوم اور ملاقاتوں کی تفصیل بیان کر چکے تھے۔ وہ دستاویزات بھی پاکستان کی درخواست پر حکومت پاکستان سے حاصل کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی حکومت(وزیراعظم) کو لکھا گیا خط بھی منظر پر آ چکا ہے جس میں الطاف حسین نے کراچی کو ان کی حسب خواہش بند کرنے اور پاکستان کے اندر ان کیلئے کام کرنے کی از خود پیش کش کی۔ امریکا کو بھی اس نوعیت کی پیشکش کا ذکر بھی سننے میں آیا ہے۔
ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ الطاف حسین اور ان کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ ملک کے اندر ہر طرح کے سنگین جرائم اور ملک سے باہر قوم کے خلاف سرگرمیوں اور پاکستان کے دشمنوں کیلئے ہر طرح کی سہولت کاری اور پراکسی وار کیلئے انسانی ایندھن فراہم کرتے رہے ہیں۔ ان کی یہ سرگرمیاں‘ فوج کے سربراہوں‘ خفیہ اداروں‘ سیاسی حکمرانوں‘ سیاسی جماعتوں کے باخبر لیڈروں‘ پاکستان میں کام کرنے والی غیرملکی خفیہ ایجنسیوں سے پوشیدہ نہیں تھیں۔ بلکہ ہر ایک نے اپنی ضرورت کے مطابق ان کی ارزاں خدمات سے فائدہ اٹھایا‘ اس کے بدلے میں اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرتے رہے‘ نیٹو کے سینکڑوں کنٹینروں کی گمشدگی اب کوئی راز نہیں رہا۔
الطاف حسین پہلی مرتبہ جیل گیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ موصوف نے اس وقت بھی قائداعظم کے مزار پر پاکستان کا جھنڈا نذر آتش کیا تھا اور اس جرم میں جیل کی ہوا کھائی۔ طالب علم رہنما کے طور پر جی ایم سید کی برسی میں شرکت کی‘ وہاں پر سندھو دیش کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف پرجوش مگر زہریلا خطاب کیا اور انہی کی وساطت سے پاکستان میں ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کے ساتھ متعارف ہوئے۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کی کراچی میں سیاست اور مقبولیت کو نقصان پہنچانے کیلئے اس وقت کے وزیراعلیٰ غوث علی شاہ نے الطاف حسین کی سرپرستی شروع کی اور متحدہ مہاجر موومنٹ کو پروان چڑھانے میں مدد کی۔
ان سارے واقعات اور اطلاعات سے ایک واضح تصویر سامنے آتی ہے کہ الطاف حسین ایک الجھے ہوئے ذہن‘ مسخ شخصیت کے ساتھ اپنی روح(اگر اسے روح کہاجا سکے تو) کے مناسب سوداگر کی تلاش میں تھے ۔ کراچی میں جو کچھ بھی ہوتا رہا‘ اور کراچی کو یرغمال بنا کر ملک اور اس کی سلامتی کے خلاف جو منصوبہ بندی کی‘ جو اقدامات اٹھائے گئے‘ قوم ‘ ریاست اور سیکورٹی اداروں کو اس کی وجہ سے جو نقصانات ہوئے‘ کیا الطاف حسین تنہا اس کا ذمہ دار ہے‘ اس نے ساری منزلیں اکیلے ہی عبور کر لیں ؟ فاروق ستار سمیت ‘ ان کے وزراء‘ ممبران پارلیمنٹ‘ اعلیٰ عہدیدار ایسے ہی معصوم اور بے خبر تھے کہ انہیں اپنے قائد کی ان ساری مجرمانہ اور ملک دشمن سرگرمیوں کی کوئی خبر نہ تھی؟
پرویز مشرف جو بطور فوجی سربراہ الطاف حسین سے نجات کے آروز مند تھے اور پاکستان کے باہر اس کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ لئے بیٹھے تھے وہی پرویز مشرف مارشل لا ء کے بعد ملک کی تقدیر اور حکومت کے مالک بن بیٹھے ‘انہوں نے جس ملک کی سلامتی اور اس کے آئین کی حفاظت کا حلف اٹھا رکھا تھا‘ اقتدار ملتے ہی اپنے عہد اور حلف کو بھلا بیٹھے اور جنہیں وہ غدار کہتے تھے اقتدار میں آتے ہی انہیں اپنا سب سے خطرناک ہتھیار بنا لیا۔ الطاف حسین‘ اس کے حواریوں کو‘ ان کے قد ‘ ضرورت اور اوقات سے زیادہ نوازا گیا‘ ایسی وزارت دی گئیں جہاں وہ کھل کھیل سکتے تھے۔ جو مجرم ہزار جتن سے گرفتار ہوئے تھے انہیں پیرول پر رہا کر دیا گیا‘ را کے تربیت یافتہ قاتلوں کے ذریعے 12مئی کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی میں آمد روکنے کیلئے خون ریزی کرائی گئی‘ وکیلوں کو زندہ جلایا گیا‘ پچاس لاشیں گریں‘ میڈیا ہائوسز پر حملے کروائے‘ متحدہ کو کرائے کے قاتلوں کی طرح استعمال کیا‘ اسی شام اسلام آباد میں ایک مصنوعی جلسہ عام میں مکے لہرا کے کراچی کے قتل عام کو اپنی سیاسی طاقت قرار دیتے رہے۔ یہ سب پرویز مشرف پر بس نہیں‘ اس سے پہلے دو دفعہ بے نظیر اور دو دفعہ نواز شریف اپنے اقتدار کے زمانوں میں ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا چکے تھے۔ سب نے اقتدار میں ان کو ساجھی بنایا ‘ وزارتیں دیں‘ فوجی ایکشن جو ان کے کرتوتوں کا لازمی نتیجہ تھا اس پر معذرت کی بلکہ اس وقت حکومت نے ایک ارب روپے کے قریب تاوان بھی ادا کیا۔ جس کے نتیجے میں ان کے حوصلے یوں بڑھے کہ آپریشن کرنے والے 200 سے زیادہ پولیس افسروں کو قتل کر ڈالا۔ ان کے کسی جرم پر سیاسی اور فوجی حکومت نے گرفت نہیں کی بلکہ بھاری رقوم‘ اعلیٰ وزارتوںاور سرکاری وسائل سے نوازا جاتا رہا۔ ان کی خوشی اور خوشنودی کیلئے کراچی الیکٹرک کارپوریشن‘ پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے کو دیوالیہ بنا دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوتا رہا کہ ہر حکومت آنے سے پہلے ساری خفیہ ایجنسیاں وزیراعظم اور کابینہ کو بریفنگ دیتی تھیں۔ انہوں نے الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے اعمال وکردار کے بارے میں زبانی اور تحریری طور پر آگاہ کیا۔ 1988ء کے بعد وہ کون سی فوجی یا جمہوری حکومت ہے جس کے علم میں وہ سب کچھ نہیں تھا جو آج کہا جا رہا ہے۔ وہ کون سا شخص ہے جس کی نظر سے ان کے کرتوت اوجھل تھے مگر کسی کو نام لینے کی جرأت نہ ہوئی۔ آج کہا جا رہا ہے کہ ہم دہشت گردوں‘ غداروں‘ ان کے سہولت کاروں اور مالی معاونت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ کیا پچھلی ساری حکومتیں‘ پولیس ‘سندھ کی سول سروس‘ ان کے مددگار‘ سہولت کار اور مالی اعانت کرنے والے نہیں تھے؟

.
تازہ ترین