SMS: #MAQ (space) message & send to 8001
ایک معاصر قلم کار جن کے ساتھ میرے احترام کے کئی رشتے ہیں ۔پہلا رشتہ تو میانوالی کا ہے۔یہ اتنا مضبوط رشتہ ہے کہ میانوالی میں اس رشتے کے اظہار کیلئے ایسے فوک ماہئے بھی تخلیق ہوچکے ہیں۔ایہہ دنیا چانجی ہے ...اساں تیڈے دشمن سہی میانوالی تاں سانجھی ہے ۔دوسرا رشتہ بھی بہت زیادہ اہم ہے ۔میں جب گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا وہ ان دنوں وہاں پڑھاتے تھے ۔یوں مجھے دو سال ان کے پاس اردو پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ایک تیسرا رشتہ بھی ہے ۔ وہ میرے بڑے بھائی محمد اشفاق چغتائی مرحوم کے بہت قریبی دوست تھے ۔اشفاق بھائی جن کے اِن دو اشعار کے مصرعے اکثر جلسوں میںنعروں کی صورت گونجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں
جبیں پہ داغ دین کے ، گلے میں طوقِ مصطفی ؐ
غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں
اور
یہ مال اور منال کیا یہ جاہ اور جلال کیا
غلامیٔ رسول میں تو موت بھی قبول ہے
میانوالی کے مذکورہ نیازی قلم کارکے ساتھ میرے اور بھی کئی رشتے ہیں سو ان سے اختلاف کرتے ہوئے مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ ساری عزتیں اور سارے احترام آپ کیلئے مگر میں آپ کی یہ بات نہیں تسلیم کر سکتا کہ عمران خان میانوالی کے نمائندے نہیں ہیں۔نیازی صاحب !اگرعمران خان میانوالی کے نمائندے نہیں ہیںتو اور کون ہے۔پاکستان کی سیاست میں میانوالی کے پہلے نمائندے مولانا عبدالستار خان نیازی تھے ۔جنہوں نے ہر دور میں آواز حق بلند کی مگر زندگی کے آخری حصے میں نوازشریف کو اپنا وزیراعظم یعنی لیڈر تسلیم کرکے انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو مایوس کیا۔ دوسرے نمائندے نواب امیر محمد خان تھے جو پورے مغربی پاکستان کے بااختیار گورنر تھے مگرانکے مظالم نے ان کی شخصیت کو داغدار کردیا تھا۔ میانوالی کے تیسرے نمائندے اور میرے قریبی دوست ڈاکٹر شیرافگن تھے مگر پرویز مشرف کی بے جا حمایت نے ان کی شخصیت کو متنازع بنادیا تھا۔ایک واحد عمران خان پاکستانی سیاست کی ایسی شخصیت ہیں جن کے پر دامن کوئی داغ نہیں۔ بقول فیض ۔ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت۔اور ہاں میانوالی کی تاریخ کاسب سے بڑا جلسہ ڈاکٹر شیرافگن کے بیٹے خان نے کرایا تھا۔بے شک اس میں میرے بچپن کے دوست ڈاکٹر صلاح الدین نیازی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
اس معاصر قلم کا ر نے فرمایا کہ عمران خان اس لئے بھی میانوالی کے نمائندہ نہیں کہ وہ اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھتے ۔تو اس سلسلے میں اتنی سی عرض ہے کہ مجھے یہ بتائیے کہ مولانا عبدالستار خان نیازی سے پہلے میانوالی کا کونسا پٹھان اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھتا تھا۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ میانوالی میں’’پٹھانوں کا نیازی قبیلہ صرف ’’کنڈل ‘‘ شہر میں آباد تھا۔(یہ وہی شہرہے جس کا ذکر رگ وید میں آیا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے پر کنڈن نامی شہر میں رگ وید لکھی گئی ۔) مولانا نیازی اسی قبیلے کے فرد تھے اس کے علاوہ پٹھانوں کے جو قبائل میانوالی میں تھے وہ نیازی قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے تھے کہ ان کے اپنے نام تھے مگر مولانا عبدالستار خان کی محبت میں میانوالی کے پٹھانوں نے اپنے ناموں کے ساتھ نیازی کے لفظ کا اضافہ کرلیا جو اچھی بات ہے مگریہ ضروری نہیں کہ میانوالی کا ہر پٹھان اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھے ۔پھر میانوالی میںپٹھان قبائل توصرف تیس فیصد ہیں باقی ستر فیصد غیر پٹھان بھی وہاں رہتے ہیں ۔
مجھے اس بات پر بھی دکھ ہے کہ معاصر قلم کار نے میانوالی کی عورتوں کے بارے میں لکھا ہے’’کہ جلسے میں کچھ عورتیں پوچھ رہی تھیں کہ تبدیلی کس عورت کا نام ہے‘‘ میانوالی کی وہ عورتیں جنہوں نے آپ کی اور منصورآفاق جیسوں کی تربیت کی ہے کہ ان پر ایسا الزام بہت تکلیف دہ ہے۔پلیز اس کی وضاحت کریں۔جہاں تک’’ کھوتیوں پر حاملہ خواتین کواسپتالوں میں لانے ‘‘کا معاملہ ہے تو وہ زمانہ اب گزر چکا ہےمگر ایسے واقعات تو لاہور شہر میں وقوع پذیر ہوجاتے ہیں ۔کیا یہ خبر آپ کو یاد نہیں رہی کہ لاہور میں وزیر اعظم کے گزرنے کی وجہ سے بند ہونے والی ٹریفک میںایک عورت نے رکشہ کے اندر بچے کو جنم دے دیا تھا۔ایک آخری بات جو آپ نے کی ہے کہ میانوالی کی زبان سرائیکی نہیں ہے۔اس پر صرف میں نہیں سارا میانوالی سراپا احتجاج ہے۔آپ تو جانتے ہیں کہ کوئی زبان اپنے الفابیٹا اور گرائمر کی بنیاد پر زبان قرار پاتی ہے ۔ میانوالی کی زبان کی گرائمر اور الفابیٹا سرائیکی زبان والے ہیں۔ سو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میانوالی کی زبان سرائیکی نہیں ہے۔اور آخر میں عمران خان کے چچا زاد بھائی اور میرے بہت قریبی دوست نجیب اللہ خان کی ناگہانی وفات پر میں حفیظ اللہ خان نیازی اور انعام اللہ خان نیازی سے رخساروں پر چلتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ اظہارِ افسوس کرتا ہوں۔