• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جرمنی کے ’’ یوم وحدت ‘‘ ( Unity Day ) کے موقع پر گذشتہ ہفتہ کو کراچی میں جرمنی کے قونصل جنرل ڈاکٹر ٹیلو کلینر (Dr Tilo Klinner ) کی جانب سے قونصل خانے میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ اس تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے شرکت کی ، جو پاکستان میں ’’ قومی وحدت ‘‘ کے سوال پر ہونے والے مباحث میں کسی نہ کسی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد پیدا ہونے والا قومی سوال ابھی تک حل طلب ہے ۔ جرمن بھی 17 ویں صدی سے اسی سوال میں الجھے ہوئے تھے اور 20 ویں صدی میں آکر وہ اس کا واضح جواب تلاش کر پائے۔ ہمارے بارے میں بزبان اقبال یہ کہا جا سکتا ہے کہ
تو ابھی رہ گزر میں ہے ، قید مقام سے گزر
مصرو حجاز سے گزر ، پارس و شام سے گزر
ہر سال 3 اکتوبر کو جرمنی کا یوم وحدت منایا جاتا ہے ۔ یہ دن مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے 1990ء میں یکجا ہونے کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ جنگ عظیم دوئم کے نتیجے میں جرمنی چار حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا ، جنہیں ’’ ملٹری سیکٹرز ‘‘ کا نام دیا گیا تھا ۔ ان ملٹری سیکٹرز کو فرانس ، برطانیہ ، امریکا اور سوویت یونین کنٹرول کرتے تھے ۔ 23 مئی 1949 ء کو فرانس ، برطانیہ اور امریکا کے زیر انتظام تین ملٹری سیکٹرز پر مشتمل ایک ملک ’’ فیڈرل ری پبلک آف جرمنی ‘‘ ( مغربی جرمنی ) بن گیا تھا جبکہ سوویت یونین کے زیر انتظام ملٹری سیکٹر 7 اکتوبر 1949ء کو ’’ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک ‘‘ ( مشرقی جرمنی ) بن گیا تھا ۔ جرمنی کے ٹکڑے ہونے کا بنیادی سبب ’’ نازی ازم ‘‘ اور آمریت تھا ۔ دونوں ملکوں کے الگ الگ معاشی اور سیاسی نظام تھے ۔ جنگ کے بعد یورپ میں کیونکہ زبردست نظریاتی کشیدگی تھی ، اس لیے دونوں ملکوں کے عوام کے مابین رابطے نہ ہونے کے برابر تھے لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک قوم کے لوگوں میں جدائی اور بچھڑنے کا احساس شدت اختیار کر گیا اور انہوں نے ’’ دوئی ‘‘ یعنی تقسیم کی دو بڑی علامتوں دیوار برلن اور برانڈن برگ گیٹ کومنہدم کر دیا ۔ ہر سال 3 اکتوبر کو ہونے والی تقریبات میں انہدام کی تصویروں کی نمائش بھی کی جاتی ہے ۔ مغربی اور مشرقی جرمنی کے یکجا ہونے کے لیے ’’ Re-union ‘‘ یا ’’ Re-unification ‘‘ یعنی دوبارہ اتحاد کے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ اس کے لیے وحدت ( Unity ) کا لفظ منتخب کیا گیا ہے کیونکہ اتحاد تو دو مختلف قوموں کا ہوتا ہے ۔ ایک قوم کے لوگوں کی یکجائی ہوتی ہے ۔ 3 اکتوبر کا دن اس حقیقت کا اظہار ہے کہ 41 سال تک الگ رہنے کے باوجود بھی ایک قوم کے لوگ اپنی وحدت سے جڑے رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس کچھ لوگ صدیوں ساتھ رہنے کے باوجود ایک قوم نہیں بن سکتے ۔ جرمن قونصل جنرل کے تقریب سے خطاب کے دوران مجھے اس بچی کی لکھی ہوئی تقریر یاد آ رہی تھی ، جو میں نے اپنے مہربان اور صاحب علم و عرفان پروفیسر انوار احمد زئی کے دفتر میں سنی تھی ۔ یہ بچی زئی صاحب کی بھتیجی ہیں اور انہوں نے ایک مباحثے میں حصہ لینا تھا ۔ وہ اپنی تقریر کا مسودہ انوار احمد زئی صاحب کو دکھانے کے لیے لائی تھیں اور تقریر کا عنوان تھا ’’ ہم ایک قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں ۔ ‘‘ بچی نے اپنے موقف کی تائید میں جو دلائل پیش کیے تھے ، انہیں مسترد کرنا آسان نہیں تھا ۔ یوم وحدت منانے کے لیے جرمنوں نے بہت طویل سفر کیا ہے اور وہ بجا طور پر انتہائی فخر کے ساتھ یہ دن منا سکتے ہیں ۔ جرمن قوم نے لائبنز ، رینے ڈسکارٹس ، اسپینوزا ، اسپنگلر ، کارل مارکس ، ایما نوئل کانت ، فریڈرک اینگلز،نطشے ، فریڈرک ہیگل ، آرتھر شوپنہار ، مارٹن ہائیڈگر جیسے عظیم فلسفی اور گوئٹے،بریخت اور ہرڈر جیسے عظیم ادیب اور شاعر پیدا کیے ، جنہوں نے نہ صرف دنیا کو درپیش آفاقی سوالات کا جواب تلاش کرنے میں مدد کی بلکہ ایک عظیم جرمن قوم کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ جرمن فلسفہ کے اثرات پوری دنیا کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک وہند پر بھی مرتب ہوئے ۔ ہمارے عظیم شاعر علامہ محمد اقبال بھی کئی جرمن فلسفیوں سے متاثر تھے ۔ حکیم نطشے کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں ۔
خدنگ سینہء گردوں ہے اس کا فکر بلند
کمند اس کا تخیل ہے مہر و مہ کے لیے
اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی
ترس رہی ہے مگر لذت گنہ کے لیے
اقبال نے کارل مارکس کو ’’ نیست پیمبر ولے دربغل دارد کتاب ‘‘ کامصداق قرار دیا ۔ جرمنوں نے نازی ازم کی تباہ کاریوں سے جو سبق سیکھا ، وہ اس کے عظیم قوم ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ ویسے تو پاکستان اور جرمنی کے مابین گہرے دوستانہ تعلقات ہیں لیکن ممتاز خاتون جرمن اسکالر اینا مری شمل (Annemarie Schimmel ) نے ان تعلقات کو اپنائیت میں تبدیل کر دیا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر شمل کا تعلق جرمنی سے نہیں بلکہ پاکستان سے تھا۔ انہوں نے بر صغیر کے مسلم کلچر ، اسلام اور صوفی ازم پر بہت کام کیا ۔ انہوں نے پاکستان کے صوفی شعراء حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ، بابا رحمنؒ اور دیگر پر بھی بہت کچھ لکھا ۔ وہ پاکستان کی زبانیں ان کے اصل لہجوں کے ساتھ بولتی تھیں ۔ انہوں نے تصوف پر کام کرنے کے لیے یہاں کی زبانیں نہ صرف سیکھیں بلکہ ان پر تحقیقی کام بھی کیا ۔ محترمہ اینا مری شمل نے علامہ اقبال کی فارسی اور اردو شاعری ، مولانا جلال الدین رومی ؒ کی فارسی شاعری کے ساتھ ساتھ متعدد سندھی ، اردو ، ترک اور فارسی شعراء کے کلام کے جرمنی اور انگریزی میں ترجمے کیے ۔ انہوں نے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے وادی سندھ کے فلسفہ ، ادب اور زبانوں پر بھی بہت اہم کام کیا ۔ وہ اس دھرتی کے صوفیاء کے مزاروں پر حاضری دیتی رہتی تھیں اور ان کے بقول وہ اپنی روحانی پیاس بجھاتی رہتی تھیں ۔ محترمہ اینا مری شمل کو صوفی ازم پر ایک اتھارٹی تصور کیا جاتا تھا ۔ انہوں نے صوفی ازم کے فلسفہ کو ایک عظیم فلسفہ کے طور پر مغرب میں متعارف کرایا تھا ۔ ان کی وجہ سے پاکستانی قوم جرمن قوم سے قربت محسوس کرتی ہے اور ہمارے بہت سے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ محترمہ اینامری شمل نے جو کام کیا ہے ، وہ ہماری قومی وحدت کے عمل میں ایک بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ اس کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ اینا مری شمل نے ہماری عظمت کو اجاگر کیا ہے ۔ جرمن قونصل جنرل ڈاکٹر ٹیلو کلینر نے یہ بتایا کہ جرمنی کی حکومت پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد منصوبوں پر کام کر رہی ہے ۔ ان میں جرمنی اور پاکستان کے تاجروں کے لیے مشترکہ فورم کا قیام ، سندھ پولیس کو جدید اسلحہ اور تربیت کی فراہمی ، پاکستان کے نوجوانوں کے لیے بین الاقوامی معیار کی ووکیشنل ٹریننگ جیسے اہم منصوبے شامل ہیں ۔ لیکن میری نظر میں ایک منصوبہ اپنی اہمیت اور نوعیت کے اعتبار سے انتہائی منفرد ہے ۔ وہ منصوبہ سندھ کے تاریخی ورثے کا تحفظ ہے ۔ اس حوالے سے ایک ہزار تاریخی مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے ، جن کے تحفظ کے لیے جرمن حکومت سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی ۔ اینا مری شمل خود بھی ایک شاعرہ تھیں اور ان کی شاعری سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس خطے کی شاعرہ ہیں ۔ جرمن قونصل خانے سے نکلتے ہوئے پروفیسر شمل کا یہ شعر یاد آ رہا تھا کہ ’’ مجھے پیاسا رہنے دو اے محبوب ! مجھے پانی بھی نہ دو ۔۔۔ مجھے اتنی محبت دو کہ غفلت کی نیند میرے در سے بہت دور چلی جائے ۔ ‘‘ یہ بات تو کوئی سسی کہہ سکتی ہے
تازہ ترین