• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا دورہ امریکہ ایسے ہی تھا جیسے کوئی مجبوری میں سپلیمنٹری امتحان دینے پہنچ جائے لیکن ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کا پانچ روزہ دورہ امریکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ نے وزیر اعظم مودی کی خاطر مدارت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ امریکہ نے پاک وہند سیاق و سباق میں ہندوستان کے نقطہ نظر کی تائید کی اور یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ امریکہ اسے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مستقل ممبر کی سیٹ حاصل کرنے کے لئے معاونت کرے گا۔اس کے باوجود بہت سے ہندوستانی ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ دورہ بظاہر بڑا شاندار تھا لیکن اس سے کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کی پلاننگ بڑی مشاقی سے کی گئی تھی۔ میڈیسن اسکوئر گارڈن میں اٹھارہ ہزار ہندوستانی امریکیوں نے ان کے استقبالئے میں شرکت کی اور ان کی ہندی میں تقریر کو ٹائمز اسکوئر پر براڈ کاسٹ کیا گیا۔ علامتی پہلو سے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پورا شو بالی وڈ اسٹائل کا تھا جس میں غباروں کی بارش اور رقص و سرود شام تھا۔ امریکہ کے درجنوں کانگریس کے ممبران اس اجتماع کا حصہ تھے اور ایسا لگتا تھا کہ مودی امریکہ میں اپنا زبردست تعارف کروانا چاہتے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ شو امریکیوں کے لئے کم اور ہندوستان کے عوام کو متاثر کرنے کے لئے زیادہ تھا۔ بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سارے دورے میں نریندر مودی نے اپنے آپ کو ایک ہندوقوم پرست رہنما کے طور پر پیش کیا ۔ ان کی جیکٹ کے رنگ سے لے کر صدر اوبامہ کو بھگوت گیتا کا تحفہ دینے تک وہ اپنے آپ کو ہندوتوا کے پرستار کے طور پر پیش کرتے رہے اور ان کا یہ انداز اقلیتی مذاہب کے ماننے والوں کے ہندوستان کی عکاسی نہیں کررہا تھا۔ ان کا مقصد ہندوستان میں خالصتاً ہندوتوا کے پجاریوں کو متاثر کرنا تھا۔ جہاں مودی کے پرستار ان کی شان و شوکت کو بڑھانے میں مصروف تھے وہیں سکھوں، کشمیریوں اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کے خلاف نیویارک میں اور پھر اسکے بعد وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرے کئے۔ نیویارک کی ایک عدالت نے ان کے خلاف سمن جاری کررکھے تھے۔ بلکہ ایک انسانی حقوق کی تنظیم نے وائٹ ہاؤس کے سامنے عدالت لگائی جس نے مودی کو گجرات کے فسادات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سزا سنائی۔ سرکاری سطح پر نریندر مودی کے دورے کو کامیاب کہا جاسکتا ہے۔ صدر اوبامہ کا ان کے ساتھ مل کر مشترکہ ادارتی مضمون واشنگٹن پوسٹ میں چھپوانا اور 3500الفاظ پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کرنا اس امر کی دلالت ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین وسیع ترمشاورتی پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن کچھ ہندوستانی دانشوروں کی رائے میں نہ تو نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر کوئی معاہدہ ہوا اور نہ تجارتی معاملات پر کوئی نتیجہ خیزبات ہوئی۔ یہ عندیہ بھی دیا جارہا ہے کہ کچھ معاملات میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور معاہدوں کی تشہیر نہیں کی جا رہی۔ مثلاً امریکہ نے ہندوستان سے درخواست کی تھی کہ وہ داعش کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد کا حصہ بنے۔ اس بارے میں طرفین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
مشترکہ اعلامئے میں پاکستان کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملک دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خلاف بھرپور مشترکہ کارروائیاں کریں گے۔ اعلامئے میں القاعدہ، لشکر طیبہ، جیش محمد، ڈی کمپنی اور حقانی نیٹ ورک کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں نے مشترکہ مطالبہ کیا ہے کہ بمبئی دہشت گرد حملے میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ امریکہ کی وزارت خزانہ نے فضل الرحمن خلیل اور دو دوسرے افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں جن کا تعلق لشکر طیبہ اور حرکت المجاہدین سے بتایا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان ان فیصلوں کا پابند نہیں ہے لیکن اس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔اگرچہ امریکہ نے ہندوستان کی تسلی کے لئے کچھ ایسے اعلانات کئے ہیں جن کاتعلق پاکستان کے ساتھ ہے لیکن امریکہ کا اصل مقصد چین کے خلاف اتحاد قائم کرنا ہے۔ اسی لئے پہلی مرتبہ دونوں ملکوں کے مشترکہ اعلامیہ میں بحرجنوبی چین کا ذکر ہوا ہے۔ چین کے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جنوبی سمندر کی حدود پرسخت اختلافات ہیں۔ اس سلسلے میں چین کی ویت نام کے ساتھ شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے صدر نریندر مودی کے دورہ امریکہ سے پہلے ویت نام گئے تھے اور جنوبی چین کے سمندر میں پٹرول اور گیس نکالنے کے معاہدوں پر دستخط کئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان چین کے جنوبی سمندر میں امریکہ، ویت نام، جاپان اور دوسری علاقائی طاقتوں چین مخالف اتحاد کا حصہ بن رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندرمودی کے دورہ امریکہ سے پہلے چین کے صدر نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور بیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا۔ ہندوستان کو یہ بھی علم ہے کہ چین کی رضامندی کے بغیراسے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مستقل نمائندے کی سیٹ نہیں مل سکتی۔ چین ہندوستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے ۔ غرضیکہ دونوں ملکوں میں تعاون بھی جاری ہے اور باہمی رقابت بھی۔ اس کے الٹ پاکستان کا ہندوستان کے ساتھ یک رویہ مخاصمت کا تعلق ہے۔ پاکستان چین کی مثال کو پیش نظررکھتے ہوئے مقابلے اورمعاونت کو ایک ساتھ لے کر نہیں چل رہا۔وزیراعظم نریندرمودی اور صدراوبامہ کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں باالواسطہ پاکستان کے بارے میں تحفظات کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی مخاصمانہ حکمت عملی اپنارہا ہے۔ امریکہ اور افغانستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے مطابق امریکہ کے دس ہزار اور نیٹو کے تین ہزار فوجی افغانستان میں مقیم رہیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو اپنے فوجیوں کیلئے سامان کی سپلائی کیلئے پاکستان پرانحصار کرنا پڑے گا۔ مزید برآں امریکہ کو یہ علم ہے کہ افغانستان میں استحکام کیلئے پاکستان کی معاونت ناگزیر ہے اور شاید پاکستان کا المیہ بھی یہی ہے کہ اب اس کی اہمیت محض افغانستان کی وجہ سے ہے۔ اب جبکہ ہندوستان تیزی سے معاشی طاقت بنتا جارہا ہے اور اس کی عالمی امور میں اہمیت ایک مسلمہ حقیقت بنتی جارہی ہے پاکستان پسماندگی کا شکار ہوتاجا رہا ہے۔ پاکستان شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں سیاسی استحکام سراب نظرآرہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی جن مقتدرہ طاقتوں کے ہاتھ میں ہے وہ ہندوستان مخالفت میں یہ دیکھ ہی نہیں پارہیں کہ چند دہائیوں میں ہندوستان اتنی بڑی معاشی طاقت بن چکا ہوگا کہ دنیا کی نظر میں پاکستان علاقے کی سیاست میں محض حاشیہ کا حصہ ہوگا۔ ہندوستان کو سیکورٹی کونسل کا مستقل ممبر بننے کیلئے وقت لگ سکتا ہے لیکن آخرکاروہ اپنا مقصد حاصل کر لے گا۔ پاکستان کو ان حالات کیلئے اپنے آپ کو ابھی سے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین